فوج میں گزرے روز وشب/4-ڈاکٹر مجاہد مرزا

ان دو ایک شاموں کے دوران وہاں سی ایم ایچ ایبٹ آ باد کے ریڈیا لو جسٹ سے بھی ملا قات ہوئی تھی۔نام مقتدر یا اقتدار شاہ تھا۔ صحیح وسیع الحبثہ پٹھا ن تھےاور فرقان کے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں ان کی رہائش تھی۔ کلب سے خمار آلود ہو کر جب میس کی چڑھائی چڑھنی پڑتی تھی تونشہ کافور ہو جا تا تھا۔ ویسے بھی شراب ہنگامہ آراء نشہ ہے ۔ میں حیش کامعترف تھا۔ حیش کو چرس کہتے ہوئے اُس کی حیش میں عامیانہ پن آجا تا ہے اگرچہ چرس کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حیش کے تذکرے پر فرقان نے رسمی طور پر منہ بنا لیا تھا۔

فوج میں چرس بکثرت استعمال کی جاتی ہے لیکن اسے ’’ سپاہی طبقہ‘‘ استعمال کرتاہے۔ اگر انہیں شراب پینے دی جاتی تو وہ بہت پہلے افسروں کا سر پھوڑ چکے ہوتے۔ حیش کے سہارے یہ بیچارے درویش افسروں کا ہر ظلم اور ظالمانہ حکم برداشت کر لیتے ہیں۔ افسروں کے لیے یہ شجر ممنوعہ تھی کیونکہ اس کے استعمال سے،خیال کیا جاتا تھا کہ افسر نچلے طبقے کے اطوار تک گرسکتے تھے۔ پاکستان کی فوج میں افسروں کے لیے یہ ہدایت ہوتی تھی کہ جہاز یا ریل کے ائیر کنڈیشنڈ ڈبے میں سفر کیا جائے، اچھے ہوٹل میں قیام کیا جائے اور بہترین غذا استعمال کی جائے ۔ تب افسر کی تنخواہ میں یا تو سفر ہو سکتاتھا، یا قیام یا طعام۔نشے کے بارے میں تو وہ مغل شہنشاہ نورا لدین جہانگیر کے پیرو کار تھے کیونکہ مشہور ہے اس نشئی بادشاہ نے ایک بار اپنے وزیر با تدبیر کو حکم دیاتھا کہ کوئی ایسی نشہ آور چیز پیش کی جائے جس کا استعمال کرتے ہی گھوڑے کی رکاب پر پیر تو رکھا جاسکے لیکن گھوڑے پر سوار نہ ہوا جاسکے۔ وزیر موصوف نے شہنشاہ عالم کو سلفے کی چلم پیش کر دی تھی اور عالی جاہ واقعی اسپ جہانگیری پر سوار نہیں ہو سکے تھے۔ انہوں نے ترنگ میں آ کر کہا تھا :
’’ اِس اعلیٰ  ترین نشے کی قیمت کیاہے‘‘
وزیر نے کہا تھا ’’ عالم پناہ !بے قیمت ہے‘‘
اور بادشاہ نے ناک چڑھا کر کہا تھا ’’ پھر یہ بادشاہوں کا نشہ نہیں ہو سکتا‘‘۔ اِس طرح یہ اعلیٰ  ترین ہونے سے بچ رہی ورنہ اِس کی یہاں بھی وہی قیمت ہوتی جو یورپ میں ہے اور غریب بیچارے اس کو بھی ترستے۔

میں نے گلاب شاہ کی ڈیوٹی لگادی تھی کہ وہ چرس لے آیا کرے۔ میں اور فرقان،فرقان کے کمرے سے ملحق ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر اسے پیا کرتے تھے تا کہ بو باہر نہ جائے اور ہم افسری کے دائرے سے خارج نہ ہوں۔ ایک روز ریڈیا لو جسٹ صاحب نے کہا تھا ’’ یار تم لوگ کلب میں موج مستی کے لیے کیوں نہیں آتے‘‘؟فرقان نے ہنستے ہوئے کہاتھا ’’ہم یہیں موج میلہ کر لیتے ہیں‘‘۔ وہ سمجھا کہ ہمارے پاس وہسکی ہے۔ درّاتا ہوا فرقان کے ساتھ اندر آ گیا تھا۔ میں سگریٹ بھر رہا تھا۔ اُ س کامنہ بن گیا تھا۔ پٹھان ہوتے ہوئے بھی ’’ بادشاہ‘‘تھا۔

بہرحال بہت کچھ حیش کے خلاف بولنے کے باوجود ایک دو کش لے ہی لیے تھے۔ دوسرے روز بھی بہانہ کر کے آگیا تھا اور تین چار کش لے لیے تھے۔ تیسرے دن بولا ’’ یار مجھے تھوڑی سی دے دو اور مجھ سے وہسکی کی بوتل لے لو‘‘ ۔ ہم قہقہہ مار کر ہنس پڑے تھے اور کہا تھا ’’ سر آپ ویسے ہی لے لیں‘‘۔ اب گلاب شاہ تین افسروں کا راشن لانے لگا تھا لیکن ’’ ذلت کا یہ جوا‘‘ پہننے کے لیے عیسٰی میں ہی رہ گیا تھا۔ فرقان کا ایک ہمکار کیپٹن فاضل بھی ہوتا تھا۔ وہ رہتا کہیں اور تھا لیکن ان کے دفتر اکٹھے تھے۔ سیاہ رنگت والا اصلی پینڈو یہ کپتان رینکر تھا یعنی نچلے درجے سے امتحان دے کر کمیشن پایا تھا اُ سکو ماسوائے جنسیات کے بارے میں کرید کرید کر پوچھنے کے اور کوئی کام نہیں تھا۔

فوج کے میس کے اصول کے مطابق تو ہم سبھی دیہاتی تھے کیونکہ ہم میں سے کسی کو بھی آرمی کے کھانے کی میز کے آداب نہیں آتے تھے۔ اگر کانٹا اور چھری یا چمچ پلیٹ کے دونوں اطراف میں ٹیڑھے پڑے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ بیرے کو مزید غذا دینے کے لیے ڈونگا آگے بڑھا نا چاہیے۔ اگر یہ دونوں متوازی اور سیدھے پڑے ہیں تو کھا نا کھایا جا چکا ہے۔ برتن اٹھا لیے جانے چاہئیں اور اگر اِدھر اُ دھر پڑے ہوئے ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں تو کھانے والالمحہ بھر کے لیے اِدھر اُ دھر ہوا ہے، پلیٹ وہیں دھری رہے۔ شروع شروع میں بہت لطیفے ہوتے تھے۔ کوئی باتوں میں مصروف کانٹا چمچ سیدھے رکھ دیتا تھا تو بیرا حسب معمول پلیٹ اٹھا لیتاتھا اور بیچارے نئے ڈاکٹر آرمی افسر ہاتھ اٹھا کر ایسے اپنی پلیٹ پکڑتے تھے جیسے دہائی دے رہے ہوں۔ اردگرد کے لوگ ہنسے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ میس کا عملہ اپنے تاثرات کا اظہار کرنے سے ظاہر ہے گریز کرتا تھا اور بھوکا شخص خجالت سے زیر لب پتہ نہیں کس کس کو صلواتیں سناتا تھا۔ بہرحال چالیس روز بعد سب ہی ٹیبل مینرز(Table Manners) سے آشنا ہو چکے تھے۔

ڈنر نائٹ انگریز کے دور کی ایک یادگار تھی۔ میں نے صرف ایک بار ہی اِس تقریب کا مزہ چکھا تھا۔ یہ تقریب ہم نو واردوں کو شناسا کرنے کے لیے برپاکی گئی تھی۔ ایک لمبی میز کے ایک سرے پر چیف گیسٹ بیٹھا تھا جو کرنل بدر منیر مرزا تھے اور دوسرے سرے پر ہم میں سے ایک،جوعمر میں سینئر ڈاکٹر تھے ۔ انگلینڈ سے اعلیٰ  تعلیم کے حصول کے بعد ملک لوٹے تھے۔ فوج میں براہ راست میجر لیے جانے کے بعد ہمارے ساتھ ہی چالیس روزہ فوجی ٹریننگ کر رہے تھے۔کھاناآنے سے پہلے میز پر سلا دوغیرہ پڑے تھے لیکن کِسی کو کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ صرف ایسی چیز کترکے کھانے کی اجازت تھی جِسے ریزہ ریزہ کر کے آہستہ آہستہ کھا یا جا سکتا ہو۔

یہ کئی کورس کا ڈنر تھا۔ کرنل صاحب شاید گھر سے کھانا کھا کر آئے تھے۔ بیروں کا ایک دستہ ٹھپ ٹھپ ٹھپ ٹھپ کرتا ہوا آتا تھا اور کھانے کا ایک کورس پیش کر دیتا تھا۔سبھی کو چیف گیسٹ کی جانب ٹکر ٹکر دیکھنا پڑتا تھا اور جونہی وہ چھری کانٹا یا چمچہ کانٹا سنبھالتے تھے، سب کو اِسی طرح کرنا ہوتا تھا۔ جیسے ہی وہ غذائی ہتھیار پلیٹ کی ڈھال پر ڈالتے سب کو اسی طرح کر کے ہاتھ کھینچ لینا پڑتا تھا۔ کھانے کی اس دوڑ میں اکثر لوگ اپنا پیٹ نہیں بھر پائے تھے۔

جب ڈنر کے غذائی کورس مکمل ہوگئے تھے تو بیگ پائپ اور ڈرم سنبھالے ہوئے تین فوجی موسیقاروں کا طائفہ آگیا تھااور میز کے گرد آہستہ آہستہ چلتے ہوئے رک رک کر دھن بجا تا رہا تھا۔ اِس اثناء میں میز کے دونوں سروں پر چاندی سے بنی دو چھوٹی چھوٹی ریڑھیاں آ گئی تھیں جن کے نیچے چار چار چھوٹے چھوٹے پہیے تھے۔ اس کے ایک سرے پر چاندی کی زنجیر تھی جس کے ذریعے کھینچ کر اسے میز پر اگلے شخص تک دھکیلا بلکہ کھینچ کر پہنچایا جاسکتاتھا۔ یہ تو پہلے ہی بتایا جاچکا ہے کہ ضیاء الحق کا پہلا کارنامہ میس ڈرائی کرنے کا تھا۔ اِسی لییریڑھی میں شراب کی بوتلوں کی جگہ فانٹا اورکوکا کولا کی بوتلیں تھیں۔ انگریزی باقیات رسوم کی شکل میں باقی تھیں۔

دونوں سروں پر بیٹھے ہوئے معزز مہمانوں نے اپنا جام بھرا تھااور گھڑی کی سوئیوں کی چال کے تطابق سے ریڑھیاں ہر شخص کے پاس پہنچنے لگیں تھیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کی ایک ہی وقت  پر ہر شخص کو دو جام بھرنے ہوتے تھے۔ جب ریڑھیاں ایک دوسرے کو منتقل ہوکر ایک بار پھر میز کے دونوں سروں پر آکر رک گئیں تو موسیقی کا طائفہ دھن بجاتے ہوئے دوسرے دروازے سے باہر نکل گیا تھا۔ جب مہمان خصوصی کھڑے ہوگئے تو سبھی کو کھڑا ہونا پڑا تھا۔ مہمان خصوصی نے جام اٹھا کر ہاتھ سینے کے نزدیک کیا تو سبھی نے ایسے کیاتھا۔ پھر مہمان خصوصی نے اپنے سامنے رکھی ہوئی ایک چاندی کی گھنٹی بجا ئی اور صدر مملکت کے نام جام نوش جان کیاتھا۔باقی سب لوگوں نے بھی ان کے ساتھ ہی میٹھے ،گیس بھرے جام حلق سے نیچے اتارلیے تھے لیکن میرے ساتھ کھڑے ہوئے قاضی اقبال نے اپناجام تیزی سے میز کے نیچے انڈیل دیا تھا۔ سامنے والوں نے بھی یہ حرکت دیکھی مگر وہ کچھ کہہ نہیں سکتے تھے کیونکہ کراس ٹیبل گفتگو نہیں کی جاتی۔ میں نے سرگوشی میں قاضی سے کہا تھا،
’’اقبال کیا کررہے ہو۔ بیرے دیکھ لیں گے۔‘‘
’’یاران میں تو شراب پی جاتی تھی‘‘ اُس نے جواب دیا تھا۔’’بیوقوف یہ بیسیوں پچاسیوں بار دھل چکے ہیں ’’ میں نے کہا تھا ’’ مگر میں ان کو ہونٹ نہیں لگاؤں گا‘‘ اقبال نے فیصلہ سنادیا تھا۔
قاضی اقبال جیسے بنیاد پرست تبلیغی سے بحث کرنا بیکار تھا اور نہ ہی بحث کا موقع تھا۔ قرآن مجید میں تین بار شراب کا تذکرہ ہوا ہے جس میں پہلی  بار کہا گیا ہے کہ اِس میں فائدے کم اور نقصان زیادہ ہیں اور آخری بار کہاگیا ہے اِس سے اجتناب کرو۔ اجتناب اِس لیے کہ اِس کے استعمال میں اعتدال برقرار رکھا جانا بے حد دشوار ہے کیونکہ سبھی جوش ملیح آبادی نہیں ہیں کہ گھڑی سامنے رکھ کے جام گن کر پئیں۔

اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شراب کا استعمال جہاں جسمانی صحت کے لیے مضر ہے وہاں سماجی صحت کے لیے بھی خاصا نقصان دہ ہے کیونکہ سماج ضوابط کانام ہے اور اس کیمیائی مادے کے استعمال سے انسانی دماغ سے سماجی بندشوں کا پاس عارضی طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ دماغی حالت بدل جاتی ہے۔ وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے اور کچھ بھی کرسکتا ہے جس کو لوگ جھنڈا بناکر لیے پھرسکتے ہیں۔ قاضی اقبال بغیرپیئے ہی یہ بھول بیٹھا تھا کہ علم طب کے علم الادویہ کے مطابق خالص الکحل تو کھلی فضا میں بخارات بن کر اڑجاتی ہے اُس پر مستزادیہ کہ وہ برتن بھی کئی بار گرم پانی سے دھوئے جاچکے تھے۔ مگر اقبال کے ذہن پر تو مذہب کی غلط توضیحات کا غبار تھا اُس کی ذہنی حالت مستقل طور پر بدلی ہوئی تھی اور شاید آج بھی اسی طرح ہے۔

صدر مملکت کے نام جام صحت پینے کے بعد میز کے دوسرے سرے پر بیٹھے ہوئے شخص نے ایک ذرا چھوٹی گھنٹی بجاکر نسبتاً کسی چھوٹے شخص کے لیے جام صحت تجویز کیاتھا اوریوں ایک بار پھر حلق میں فانٹا کوکا کولا انڈیل لینے کے بعد کسی میں تیسری بار پینے کی خواہش نہیں رہی تھی اور’’ ڈنر نائیٹ‘‘ا ختتام کوپہنچی تھی۔ میں اِس قسم کی محفل میں آئندہ دو وجوہات کی بنأپر نہیں گیا تھا ایک تو یہ کہ حکم پر کھانا نہیں کھایا جاسکتا تھااور دوسرے یہ کہ ڈنر کے لئے مجھ سے’’ منکی جیکٹ ‘‘نہیں پہنی جاتی تھی۔

ڈنر نائٹ کے علاوہ ایک اور مسئلہ بال کٹوانے کا تھا۔ اگرچہ یہ کوئی اتنابڑا مسئلہ نہیں تھا مگر میں بال کٹوانے میں ہمیشہ سے تساہل پسند واقع ہواہوں۔ جب تک بالوں کا جھنڈ گدی بن جائے، میں نائی کے آگے گردن نیہوڑانے سے گریزاں ہی رہتا ہوں۔ پھر ایبٹ آباد میں تو سردی بھی خاصی تھی ،ایک دو بار ہلکی ہلکی برف باری بھی ہوئی تھی۔ بارش تو اکثر ہی ہوجاتی تھی لیکن دونوں صورتوں میں فوجی تربیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا تھا اور کسی خالی بیرک میں قطار یں بنواکر انسٹرکٹر صوابیدار قاسم’’ کھڑے کھڑے چل ‘‘کا کاشن دے دیاکرتا تھا اورسبھی کو پہلے دایاں گھٹنا پیٹ تک اٹھانا ہوتا تھا اور پھر بایاں گھٹنا۔ گھٹنے اٹھانے کی رفتار تیز کرنے کے لیے ایک کاشن اور بھی تھا یعنی’’ کھڑے کھڑے جلدی چل‘‘۔ صوبیدار قاسم مجھے اکثر کہا کرتا تھا’’ سر!کٹ بنوائیں‘‘ او ر میں ’’ ٹھیک ہے صاحب‘‘ کہہ کرٹال دیا کرتا تھا۔ فوج میں جے سی اور کو صاحب ہی کہہ کر بلایا جاتا ہے۔ یہ کوئی تعظیم کا صیغہ نہیں بلکہ اِس میں کچھ کچھ طنز کا عنصر شامل ہے۔ وہ افسر کو چاہے وہ سیکنڈلیفٹینٹ ہی کیوں نہ ہو’’ سر‘‘کہہ کر مخاطب کرتا ہے اور افسرچاہے جنرل ہی کیوں نہ ہو، اُسے ’’صاحب‘‘ کہہ کر بلاتا ہے۔ صاحب قاسم جھنجھلاتا بھی تھا لیکن اس بیچارے نے کبھی بھی اوپروالوں سے میری شکایت نہیں کی تھی۔

میرا چھوٹا بھائی اویس ان دنوں بی اے کرنے کے بعد لاء کررہا تھا اور پنجاب سوشل سیکورٹی کے ہیڈآفس لاہور میں ملازم تھا۔ وہ ایک روز مجھے ملنے ایبٹ آباد پہنچا تھا۔ اِس سے پہلے اُس سے آخری ملاقات ایبٹ آباد جانے کے لیے ملتان سے ریل کے ذریعے راولپنڈی جاتے ہوئے لاہور ریلوئے سٹیشن پر ہوئی تھی۔ وہ میری قلمی محبوبہ شبنم عزیز کا تحفہ دینے کے لیے وہاں پہنچا تھا۔ جس سے میری ملاقات صرف خطوط تک محدود تھی، اویس نے اسے ڈھونڈنکالا تھا۔ ایسا اس نے کیوں کیاتھا؟شاید بے راہ روبڑے بھائی  کے لیے صالح اہلیہ تلاش کررہاتھا۔نظروں سے اوجھل محبوبہ نے اس کے ہاتھ میرے لیے Onyx کا ایک سیٹ بطورتحفہ بھیجا تھا، جس میں ایک ایش ٹرے بھی تھی۔ ساتھ ایک رقعہ تھا جس پر دھوئیں ، چہرے، سگریٹ کے خاکے بنے تھے اور چرس ، نشہ ، شراب قسم کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ سالی جماعتن تھی کوئی۔ بہرحال تحفہ وصول پایا تھا۔آدمی خود سدھرے توسدھرے ایسی بچگانہ حرکتوں سے بھلاکون سدھرتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply