اساطیر /ڈاکٹر مختیار ملغانی

انسانی شعور اساطیر کی کھونٹی سے ٹنگا ہوا ہے، فرد کیلئے کامل حقیقت کو دیکھنا سمجھنا اور بیان کرنا کبھی ممکن نہ تھا، کارِجہاں چونکہ دراز ہے اور انسانی شعور کی اس پر مکمل گرفت ممکن نہیں ، اس لئے درونی مشاہدے کو ایک رائے میں بیان کرتے وقت ذہن کیلئے ضروری تھا کہ وہ واقعے، مشاہدے، حادثے کی تصویر کے تمام میسر ٹکڑوں کو یکجا کرتے ہوئے معاملہ واضح کر سکے جو کہ بیرونی دنیا کے ساتھ ہم آہنگی کیلئے اہم تھا، اور درونی رائے و مشاہدہ ہر ایک کے الگ الگ ہیں، یہ چیز کمرۂ عدالت میں دیکھی جا سکتی ہے، ایک ہی واقعے کو مختلف افراد اگر ایک ہی رنگ میں بیان کریں تو سمجھ جانا چاہیے کہ بیان تمام گواہوں کو رٹوایا گیا ہے، اگر سب لوگ سچا بیان دیں تو لازم ہونا چاہیے کہ ہر ایک نے اس تصویر میں اپنا رنگ بھرا ہوگا، ہمارے ہاں بدقسمتی سے معاملہ اُلٹ ہے۔

شوپنہار نے کہا تھا کہ، ہر شخص بیرونی دنیا کو لے کر اپنے تخیل کا اسیر ہے کہ وہ اسے کیسے دیکھتا ہے، ایسا اس لیے ہے کہ فرد اپنے ذہنی شعور کا قیدی ہے، اسی بنیاد پر کسی وجود بارے وہ رائے قائم کرتا ہے، شعور سے رہائی چونکہ آسان نہیں، لہٰذا رائے کو حرفِ آخر نہیں مانا جا سکتا۔

ذہن کامل تصویر کے یہ درونی ٹکڑے دراصل مشقت سے بچنے کیلئے جوڑتا ہے، مشقت چاہے جسمانی ہو یا ذہنی، فرد فطرتاً سست واقع ہوا ہے، فطرت کے قوانین کو تابع کرنے کی سعی مشقت سے بچنے کیلئے تھی جو ایک خواہش سے اُبھری، اسی خواہش کو اساطیری کہانیوں میں فرد نے پرونا شروع کیا، آگے چل کر اساطیر نے جادو کی شکل اختیار کی، اس کا مقصد فطرت کے قوانین کو اپنے تابع کرنا تھا، یہیں سے سائنس کی بنیاد پڑی، جادو اور سائنس کے درمیان مختصر مگر مضبوط کڑی الکیمیا کی ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ سبجیکٹو رائے اور سبجیکٹو مشاہدے کو محسوس و بیان کرنے کی جبلت نے اساطیر کی بنیاد ڈالی، اسی سے جادو اور پھر سائنس کا آغاز ہوا، اور ان تمام ادوار میں زبانی اور تحریری لٹریچر ہی اصل بنیاد رہا، یہاں سائنس کے حوالے سے ایک ضمنی بات یاد رہنی چاہیے کہ عصرِحاضر کے بڑے بحرانوں میں سے ایک عقلیت پسندی کا بحران ہے، ہر چیز عقل کی کسوٹی پر پرکھنا اور سمجھنا ممکن نہیں، سائنس تجربے کے اثبات کا نام ہے اور یہ بات اب تسلیم شدہ ہے کہ بوقتِ تجربہ سائنسدان کی نفسیاتی اور روحانی کیفیات تجربے کے نتائج پر اثرانداز ہوتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ قدیم دور کے کیمیاگروں کی ایک تعداد مخصوص فارمولے سے سونا بنا سکنے کی اہل تھی، جبکہ دوسرے اسی فارمولے کے مطابق کام کرتے ہوئے ناکام رہتے، سائنس بھی اسی اساطیری اصول پہ کام کرتی ہے، خالص عقلیت پسندی کا بحران مغرب کو بند گلی میں لے جا سکتا ہے۔

یہ بات جزوی طور پر درست ہو سکتی ہے کہ قوانینِ فطرت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے انسان نے افسانے و اساطیری مغالطے پالے، لیکن پھر یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ آج مظاہرِ فطرت کو کافی حد تک سمجھنے کے باوجود بھی انسان اساطیر پہ یقین کیوں رکھتا ہے؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبل انسان کبھی اس قدر غیر حقیقی شکنجوں میں نہ تھا جتنا آج ہے، ہیری پورٹر سے لے کر  کانگریس تک، منبر سے پارلیمنٹ تک، میڈیا سے کھیل کے میدان تک، کوکا  کولا سے کرپٹو کرنسی تک، فکر و ایجاد غرضیکہ ہر ایک شعبہ اساطیر پر پلتا آرہا ہے۔ ادب کی تو پوری عمارت اسی اساطیر کی مرہونِ منت ہے۔

لیکن یہ صرف ایک وجہ ہے، اساطیری جھکاؤ کی دوسری بڑی وجہ پراسرار دکھنے یا کہلوانے کی اجتماعی و انفرادی خواہش ہے، پراسراریت ہمیشہ مخصوص کشش کا باعث بنتی ہے، ننگی حقیقت کبھی بھی پُرکشش نہیں ہوتی ، اسی لئے ازدواجی حقوق کی ادائیگی سفید روشنی یا مکمل برہنگی میں ہوتو کشش جاتی رہتی ہے، نیم اندھیرا اور جزوی برہنگی سے پُراسراریت برقرار رہتی ہے جو کشش کا باعث ہے، ہر فرد چونکہ خود کر بطور شخصیت غیر معمولی کہلوانا اور جتانا پسند کرتا ہے، اسی لئے رنگ ڈھنگ، تقریر، فعل اور رویوں میں اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی حد تک پُراسرار نظر آئے اور یہ دوسروں کو متاثر کرنے کیلئے بہترین ہتھیار ہے، معروف پالش شاعر ستانیسلاو جیرزی لیس کا قول ہے کہ،

“اپنے گرد پُراسراریت کے دائرے کھینچ لو، خداؤں نے بھی یہیں سے شروعات کی تھی۔” 

مذہبی فکر کو اگر ظاہری حلیے کی مدد حاصل نہ ہوتی تو مطلوبہ نتائج کا حصول مشکل تھا ۔دوسری جنگ عظیم میں جرمن سپاہی کی وردی کے رنگ اور ڈیزائن کا بے شمار ماہرین کی عرق ریزی کے بعد انتخاب کیا گیا، اس یونیفارم کا رنگ و وضع ہی دشمن پر دھاک بٹھانے کو کافی تھیں، سپاہی کو دیکھ کر ہی لگتا کہ وہ آہنی ارادوں اور مکمل تیاری کے ساتھ فیصلہ کُن فتح کیلئے آن وارد ہوا ہے۔
کسی بھی دور اور کسی بھی معاشرے میں اساطیر کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، پراگریس کے اصول پیچھے بھی اساطیر کا ہاتھ ہے، اسی مذکورہ شاعر کا یہ بھی کہنا ہے کہ،

” افسانہ جب افسانے سے ٹکراتا ہے تو کائنات کی سب سے بڑی حقیقت جنم لیتی ہے “۔

افسانوں نے ادب کے بعد سب سے بڑا اثر تاریخ پر ڈالا ہے، تاریخی شخصیات ہوں یا تاریخی واقعات، بیان کرنے والوں نے اس میں اپنا “تخلیقی” رنگ بھر کے آگے بیان کیا، اسی نفسیات کو آج بطور پروپیگنڈا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن افسانے کو مکمل جھوٹ کہنا درست نہیں، اسی افسانوی جھوٹ سے سچ جنم لیتا ہے، اسی سے درستگی و بہتری کی راہ ہموار ہوتی ہے، اسی سے دریافت و ایجاد سامنے آتی ہیں، کسی محقق نے درست فرمایا کہ،

Advertisements
julia rana solicitors london

تاریخ نے سچ کی زمین پر جنم لیا اور جھوٹ کے ثمر سے بہرہ ور ہوئی، جبکہ اساطیر جھوٹ کی زمین سے اگتا ہے اور سچ تک رسائی دیتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply