وی لاگز، نیوز چینلز کیلئے خطرے کی گھنٹی/ثاقب لقمان قریشی

چند روز قبل گوگل نے پاکستان میں اپنے برا ڈ کاسٹ کا انعقاد کیا۔ جس میں ملک سے نامور یوٹیوبر اور مواد تخلیق کرنے والوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے کنٹری ڈائریکٹر فرحان ایس قریشی نے بتایا کہ یوٹیوب اگلے سال فروری میں مختصر دورانیئے کے “شارٹس” کی مونیٹائزیشن شروع کرنے جا رہا ہے۔ 2021ء کے اختتام تک پاکستان میں ٹیوب پر دس لاکھ فالورز رکھنے والوں کی تعداد میں 110٪ اضافہ ہوا ہے۔ یوٹیوب کا استعمال کرنے والے 76٪ پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ یوٹیوب نئے آئیڈیاز کی تلاش کیلئے دیکھتے ہیں۔

تقریب کے موقع پر یوٹیوب کے پارٹنر ڈیویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں یوٹیوب چینلز کی تعداد اور مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ یوٹیوب پر ایک لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز والے چینلز کی تعداد  5400 سے زائد ہے جبکہ دس لاکھ سے زائد سبسکرائبرز والے چینلز کی تعداد 350 ہے۔

گزشتہ ایک سال میں چینلز کی تعداد میں 35٪ اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ پینتیس فیصد اضافہ وی لاگز کا ہے۔ یہ وی لاگز نامور صحافی حضرات بنا رہے ہیں۔ ہر وی لاگ پر ہزاروں ویوز اور سینکڑوں کمنٹس دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آجکل پڑھے لکھے افراد کی زیادہ تر تعداد گفتگو کے دوران سات سے گیارہ بجے چلنے والے ٹاک شوز کے حوالوں کی  بجائے وی لاگز کے حوالے دیتے نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ٹاک شوز اپنی افادیت کیوں کھو رہے ہیں؟ لوگ خبروں اور ان شوز کو دیکھنے کے بجائے وی لاگز کیوں پسند کر رہے ہیں؟

بالی وڈ دنیا کی دوسری بڑی فلم انڈسٹری ہے۔ بالی وڈ کی بڑی فلمیں اربوں میں بنتی ہیں اور اس سے کہیں زیادہ کا بزنس کرتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے بالی وڈ بحران کا شکار ہے۔ بالی وڈ کے مقابلے میں ساؤتھ انڈین انڈسٹری بہت چھوٹی ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران دنیا کی پانچ بلاک بسٹر فلموں میں سے چار ساؤتھ اور ایک ہالی وڈ کی تھی۔ 2017ء میں ساؤتھ کی فلم باہو بلی ٹو، 2018ء روبوٹ ٹو پوائنٹ زیرو، 2019ء ہالی وڈ کی فلم ایونجر دی اینڈ گیم، 2020 میں دنیا کی کسی فلم نے بڑا بزنس نہیں کیا، 2021 میں ساؤتھ کی فلم پشپا تھی، اس سال ساؤتھ ہی کی فلم آر-آر-آر کے چرچے ہیں جبکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ کے-جی-ایف ان سب کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ہم نے بالی وڈ کے زوال کی وجوہات ٹٹولنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ بالی وڈ تین چار وجوہات کی وجہ سے زوال کا شکار ہے۔

پہلی وجہ یہ ہے کہ بالی وڈ کی فلموں میں مغربی تہذیب کو فروغ دیا جاتا ہے۔ نامناسب لباس، فیمنزم، ایل-جی-بی-ٹی کا فروغ، خواتین کو نشہ کرتے اور گالیاں دیتے دکھایا جاتا ہے۔ دوسری طرف ساؤتھ کی فلموں میں بھارتی سماج اور کلچر کو فروغ دیا جاتا ہے۔
بالی وڈ نیپوٹیزم کا شکار ہے۔ بالی وڈ کے زیادہ تر ہیرو اور ہیروئنز پرانے اداکاروں، پروڈیوسرز وغیرہ کے بچے ہیں۔ یہاں میرٹ نام کی چیز نہیں۔ اسکے برعکس ساؤتھ کی فلموں کی زیادہ تر کاسٹ میرٹ پر کی جاتی ہے۔

بالی وڈ کے اداکار اپنے بچوں سے باڈی بلڈنگ کرواتے ہیں۔ پھر انکی شخصیت کے مطابق کہانی بنا کر فلم ریلیز کر دیتے ہیں۔ جبکہ ساؤتھ والے فلم کی کہانی پر بھر پور توجہ دیتے ہیں۔

بالی وڈ کی کوئی فلم اگر ڈھائی سو کروڑ میں بن رہی ہے تو سو کروڑ اداکاروں کی فیس، کروڑ مارکیٹنگ اور صرف پچاس کروڑ فلم پر خرچ کیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بالی وڈ کے اداکار ایک دوسرے سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔ انکے لڑائی جھگڑوں، نشے اور غیر قانونی شکار کے سکینڈلز آئے روز آتے رہتے ہیں۔ ساؤتھ کی فلموں کے اداکار ایک خاندان کی مانند رہتے ہیں اور سکینڈلز سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس وقت ہمارا میڈیا بالی وڈ اور یوٹیوب چینلز ساؤتھ فلموں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ خبروں کے نام پر سنسنی اور ٹاک شوز کے نام پر لڑائی جھگڑے اسکی بنیادی وجہ ہے۔

مشرف صاحب کے دور میں کیبل چینلز کو لائسنس دینا شروع کیے گئے۔ اس وقت زیادہ تر چینلز کے مالکان صحافی تھے۔ ٹاک شوز کی میزبانی صحافی کیا کرتے تھے۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا صحافیوں کیلئے بالکل نیا تھا۔ بہت سے میزبان صحافیوں کو میزبانی سیکھنے میں کئی سال لگ گئے۔ اس وقت کے ٹاک شوز میں مسائل کے حوالے سے سنجیدگی کا عنصر نمایاں تھا۔ کاروباری حضرات نے اس فیلڈ میں پیسہ دیکھا تو انھوں نے بھی نیوز چینلز بنانا شروع کر دیے۔ حیرت انگیز طور پر جس زمانے میں دنیا میں نیوز چینلز کی ڈیمانڈ کم ہو رہی تھی۔ ہمارے ملک میں نئے نیوز چینلز بن رہے تھے۔

پھر کاروباری میڈیا مالکان نے سیاسی ٹاک شوز کی میزبانی صحافیوں کے بجائے اینکر پرسنز سے کروانے کا تجربہ کیا۔ اینکر پرسنز صحافی نہیں تھے۔ نہ ہی انکے پاس اندر کی خبریں ہوا کرتی تھیں۔ اس لیے وہ دن کی دو اہم خبریں یا بیانات پکڑ کر سیاست دانوں کو بٹھاتے۔ پھر ان سیاسی بیانات پر سیاست دانوں کی لڑائی کرواتے۔ جس کی وجہ سے ٹاک شوز گالم گلوچ، مار دھاڑ اور الزام تراشی کا گڑھ بن گئے۔

جس اینکر پرسن کے پروگرام میں لڑائی ہوتی، جو جتنی سخت زبان استعمال کرتا اسکی ریٹنگ اتنی ہی زیادہ ہوتی۔ گزشتہ تین چار سالوں سے نامور صحافیوں کو مین سٹریم میڈیا سے نکالنے کا سلسلہ جاری تھا۔ صحافیوں نے پیٹ بھرنے اور عوام تک معلومات پہنچانے کیلئے کچھ تو کرنا تھا۔ ا س لیے انھوں نے وی لاگ بنانا شروع کر دیئے۔ خبروں کی سنسنی اور ٹاک شوز میں ہونے والی بدتمیزی سے تنگ عوام کیلئے وی۔لاگز تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے۔ عوام ٹاک شوز سے وی لاگز کی طرف جانا شروع ہوئی۔

وی لاگز کا دورانیہ عام طور پر دس سے پندرہ منٹ ہوتا ہے۔ جس میں سنجیدگی کے ساتھ کسی خبر یا واقعے پر تبصرہ کیا جاتا ہے۔ بہت سے اینکر پرسنز نے بھی وی لاگز بنانا شروع کیئے ہیں۔ جو تین چار بڑے صحافیوں کے وی لاگز دیکھ کر اپنا وی لاگ بنا دیتے ہیں۔

خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ میڈیا مالکان نے سنسنی اور لڑائی جھگڑے کے کلچر کو تبدیل نہ کیا تو بہت جلد نیوز چینلز خسارے میں جانے کے بعد بند کرنا پڑیں گے۔ انٹرٹینمنٹ فراہم کرنے والے چینلز کی بات کریں تو وہاں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ گیم شوز کے نام پر ہلڑ بازی، مزاحیہ ڈراموں میں اخلاقیات سے گرے جملے، مارننگ شوز میں جادو ٹونے اور شادیاں کروائی جاتی ہیں۔ جبکہ سنجیدہ ڈراموں میں ساس بہو، پیار محبت اور خوفناک قسم کی سازشیں دکھائی جاتی ہیں۔ ڈراموں کی ذیادہ تر کاسٹ کسی اداکار کا بیٹا، اسکی بیٹی، دوستوں اور سفارشیوں پر مبنی ہوتی ہے۔ اگر آرٹ کے طالبعموں نے حقیقی آرٹ کیلئے یوٹیوب کا رخ کیا تو بہت جلد انٹرٹینمنٹ چینلز کا بھی نیوز چینلز والا حال ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوٹیوب نے ہمارے پورے میڈیا کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ معیاری کام کرنے والے اور پروفیشنلز ہی آنے والے وقت کا مقابلہ کر پائیں گے۔ باقی چینلز ماضی کا حصہ بن جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply