• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان میں بڑھتا سیاسی بحران اور غیر سنجیدہ سیاسی قیادت/ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان میں بڑھتا سیاسی بحران اور غیر سنجیدہ سیاسی قیادت/ڈاکٹر ندیم عباس

پاکستان کا یہ المیہ رہا ہے کہ یہاں سیاسی قیادت میں ایسے ناپختہ کردار غالب رہے ہیں، جن کی وجہ سے سیاسی حکومتیں پاوں نہیں جما سکیں۔ سیاستدان نہ دوسرے کو مناسب سپیس دیتے ہیں اور نہ ہی خود ایک مقام پر رکتے ہیں۔ ہر حال میں اقتدار میں آنے کی خواہش نے وطن عزیز کو بے تحاشہ نقصان پہنچایا ہے۔ سیاست تو بات چیت کا نام ہے، یہاں تو بظاہر مشکل ترین نظر آنے والے مسائل کو بھی بڑی حکمت کے ساتھ حل کر لیا جائے۔ مسلسل مکالمہ انسانی دانش کے ساتھ حیران کن نتائج کا حامل ہے۔ دروازے بند کر لینے سے چھوٹے مسائل بھی حد سے بڑھ جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کا المیہ رہا ہے کہ وہ کچھ بنیادی باتوں پر بھی اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکی۔ یہاں قابلیت کا فقدان ہے، اوسط درجے ذہانت کے حامل لوگ پیسے اور اثر و رسوخ کے زور پر ایوان ہائے اقتدار میں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں بیوروکریسی انگلیوں پر نچاتی ہے اور یہ اپنی اپنی وزارتوں میں کوئی کام نہیں کرسکتے۔

ابھی ہمارے سابق وزیراعظم جناب عمران خان صاحب ہر معاملے میں یہ کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا، مگر مجھ سے کرایا گیا۔ یہ کس بات کی علامت ہے؟ یہ واضح طور پر اس بات کا اظہار ہے کہ عملی طور پر ہمارے سیاستدان قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہیں اور سرکاری ملازم ان سے جو چاہیں، فیصلے کروا لیتے ہیں۔ یہ بہت ہی خطرناک صورتحال ہے کہ حساب تو سیاستدان کو دینا پڑتا ہے، مگر وہ فیصلے کے معاملے میں ہمیشہ ٹریپ ہو جاتے ہیں۔ بہت بار سوچا کہ ہمارے سیاستدان آخر سیاست میں کیوں آتے ہیں؟ کیا ان کے پاس کوئی نظریاتی ایجنڈا ہوتا ہے، جس میں ملک و قوم کو آگے لے جانے کا کوئی پلان ہو؟ آپ سروے کرکے دیکھ لیجئے، ہمارے سیاستدانوں کے پاس سرے سے کوئی پلان ہی نہیں ہوتا۔ وہ صرف شہرت و اقتدار کے لیے سیاست میں آتے ہیں۔ بھٹو دور میں عملی طور پر پاکستان کی سیاست کا دھارا عوامی مسائل کی طرف موڑا گیا، جس میں روٹی، کپڑا اور مکان ووٹ انقلاب کا باعث بنا اور بھٹو نے پھر اس پر بہت کام بھی کیا۔

آج عوام کی فلاح و بہبود سیاستدانوں کی ترجیحات میں ہی نہیں رہی ہیں۔ آپ دیکھیں عمران خان صاحب نے صحت کارڈ کی صورت میں ایک اچھی سہولت عوام کی دی، جس سے عام آدمی کو کافی فائدہ ہوا۔ اگرچہ یہ پورے ہیلتھ سیکٹر کو پرائیویٹ کرنے کی طرف ایک بڑا اقدام ہے، جس میں سرکاری ہسپتالوں سے مختلف وجوہات کی بنیاد پر سرکاری وسائل کا رخ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ اس حکومت نے آتے ہی اس پر سوالات اٹھانے شروع کر دیئے۔ بھئی اچھا اقدام ہے تو اسے جاری رکھیں۔ ہمارے اسلام آباد میں عمران خان صاحب نے چار سال تک سرکاری وسائل سے بننے والی میٹرو کو عوام کے لیے نہیں کھولا کہ کہیں اس کا کریڈٹ مسلم لیگ کو نہ چلا جائے، شہباز شریف کے پاس کوئی الہ دین کا چراغ تو نہیں تھا کہ پانچ دن میں اس میٹرو کا افتتاح کر دیا اور دو ماہ میں دو اور میٹرو بھی چلا دیں، بات فقط ترجیحات کی ہے۔ اگر سیاستدان عوام کے مسائل کا ادراک نہیں کرے گا تو عوام اس پورے نظام سے تنگ آجائے گی۔

آج کی پاکستانی سیاست میں سیاستدان الزامات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہر روز شام کو ٹی وی چینلز پر اکھاڑے لگتے ہیں اور اینکر پرسن سیاستدانوں کو گھتم گتھا کروا کر ہوٹلوں میں چائے پی رہے ہوتے ہیں کہ دیکھیں کیسا کامیاب پروگرام رہا۔ سیاستدانوں کی غیر سنجیدگی ملک کو نقصان بلکہ شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ جب سیاستدان اپنے مسائل خود حل نہیں کرتے اور اداروں کو درمیان میں گھسیٹ لاتے ہیں تو باری باری اداروں میں پیشیاں بھگت رہے ہوتے ہیں۔ پہلے نواز شریف کو الیکشن سے عین پہلے نااہل کروا کر سزا دے کر جیل بھیج دیا گیا، اب یہی تلوار عمران خان کے لیے لٹک رہی ہے۔ سچ پوچھیں تو نوشتہ دیوار سا لگتا ہے اور عمران خان صاحب کی تلملاہٹ اسی لیے دن بدن بڑھ رہی ہے اور وہ فرسٹریشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ صحافیوں سے ہونے والی اپنی ملاقاتوں میں اس بات کا بار بار اظہار کر رہے ہیں کہ مجھے نااہل کیا جا رہا ہے۔ جب نواز شریف کے گرد ایسی دلیلوں پر گھیرا تنگ کیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی کچھ ماہرین کہہ رہے تھے کہ ایسے پیمانے دوسروں کے لیے نہ بنائیں، جن سے آپ کو گزارا جائے تو آپ بھی پھنس جائیں۔

آج کے پاکستانی ٹی وی شوز میں توشہ خانہ کے ذکر سے خان صاحب خاصے تنگ ہیں، اس وقت پانامہ سے نواز شریف تنگ تھے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے ٹائیگرز خوشیاں منا رہے ہوتے تھے اور آج نون لیگ کے شیر خوشیاں منا رہے ہیں۔ ملک کی معاشی صورتحال انتہائی خراب ہوچکی ہے۔ پاکستان میں مہنگائی اٹھائس فیصد تک جا پہنچی ہے، جو پورے خطے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر معاشی دیوالیہ کا شکار سری لنکا کا نمبر آتا ہے، جہاں ستر فیصد مہنگائی ہوچکی ہے۔ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صرف ساڑھے چھ ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی دوست ملکوں کے ہیں، جو ہمارے اکاونٹ میں تو ہیں، مگر ہم انہیں استعمال نہیں کرسکتے۔ اگر ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو سیاستدان بطور سیاستدان نہیں بلکہ سیاسی نظام بطور نظام شکست کھا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی خود ساختہ اناوں کو چھوڑ کر ملک کے لیے مل بیٹھنا ہوگا۔ ایک قومی ڈائیلاگ انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ عدلیہ میں منتخب وزرائے اعظم کو نااہل کیا جاتا رہے اور ملک ترقی کرے۔ اسی طرح پی ٹی آئی سب کی نفی کرکے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس نے دیکھ بھی لیا کہ یہ جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں، مگر اس بات پر متفق ہیں کہ پی ٹی آئی کا راستہ روکنا ہے، لہذا پی ٹی آئی کو بھی وسعت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر ایک دوسرے کو چور چور کہتے رہیں گے اور کسی بھی حکومت کو پتہ نہیں ہوگا کہ وہ کتنے دن ہے تو جتنا مرضی ایماندار لیڈر ہو، وہ کچھ نہیں کرسکے گا اور بین الاقوامی دنیا سے بھی کوئی سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔ یاد رکھیں کہ ہم انہی سیاسی بحرانوں میں مشرقی پاکستان گنوا چکے، اب ہمارے سیاستدانوں کو سنجیدہ ہونا ہوگا، ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply