تعلیم نے آپ کا کچھ سنوارا بھی ہے؟/احمر نعمان

معروف سائنسدان کارل سیگاں کہتے ہیں کہ وقتاً فوقتاً مجھے کنڈرگارٹن یا پہلی جماعت کے بچوں کو پڑھانے کا موقع ملتا ہے جنکی اکثریت قدرتی سائنسدان ہوتی ہے، متجسس و متحیر ہوتے ہیں بصیرت افروز سوالات پوچھتے ہیں جیسے چاند گول کیوں ہے،ہمارے انگوٹھے کیوں ہوتے ہیں، گھاس سبز کیوں ہے، دنیا کی سالگرہ کب ہے وغیرہ، وہ جوش سے پوچھتے ہیں، ان میں سوال کے بیوقوفانہ ہونے کا تصورموجود نہیں ہوتا اس لیے وہ سوال درسوال کرتےجاتے ہیں؛ مگر
دوسری جانب جب میں (ہائی سکول) گیارہویں/بارہویں والوں سے بات کرتا ہوں تو وہ مختلف ہیں،حقائق جاننے کی جستجو کرنے کے بجائے انہیں ‘یاد’ کرتے ہیں، ان میں تحیر عنقا ہے، وہ اس ڈر سے سوال نہیں پوچھتے کہ بیوقوفانہ نہ لگے، فالو اپ سوال نہیں کرپاتے۔ سیگاں تاسف کرتے ہیں کہ کنڈرگارٹن اوربارہویں کے درمیان ضرور کچھ خوفناک ہوا ہے۔

کارل سیگاں کے ایک پرستار نے یہ قصہ سنا کر بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو اسی وجہ سے ہوم اسکولنگ کرا رہے ہیں، میں نے عرض کی کہ سیگاں سے متفق ہیں مگراس کا نتیجہ یہ کیسے نکلا کہ اسکول چھڑا دیا جائے؟ یہ تو ویسے بھی دس فیصد طبقہ بھی شاید نہ کرا سکے،وہ بھی کووڈ کے بعد کچھ اضافہ ہوا ہے مگر بطور حل ممکن نہیں۔ مگر وہ دوسری رائے سننے کو تیار نہیں تھے لہذا بحث کی بجائے لندن کے معروف فلسفی جان سٹورٹ مل کی کہانی سنائی جو گھریلو تعلیم کی کیس سٹڈی مانا جاتا ہے۔ اسی کو تھوڑا تفصیلاً بیان کرتا ہوں جو پیدائشی innate / a priori علم کی جگہ حسی اور تجربیت empiricism کو ہی سب کچھ مانتے تھے۔ لبرلزم اور تجربیت کے بانیاں میں گنے گئے مگر یہاں فلسفہ سے قطع نظر انکا ‘تعلیمی کیرئیر’ موضوع ہے۔

جان کے والد،جیمز مل بھی فلسفی تھے جنہوں نے جان کو اسکول بھیجنے کے بجائے خود تعلیم دینا شروع کی۔ جان اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ تین برس کی عمر میں انہوں نے یونانی سیکھنا شروع کی، آٹھ برس کی عمر تک وہ یونانی میں زینوفینس اور ہیروڈوٹس کے علاوہ افلاطون کے چند مکالمات بھی پڑھ چکے تھے۔ آٹھ برس کی عمر میں لاطینی سیکھنے کا آغاز کیا، تاریخ، فلکیات، الجبرا ریاضی کا مطالعہ بھی جاری تھا۔ بارہ برس کی عمر تک پہنچتے انہوں نے ارسطو کی آرگنان سےمنطق سیکھنا شروع کر دی۔ تیرہ برس کی عمر تک پہنچتے جان نے سیاسیات، ایڈم سمتھ، ریکارڈو وغیرہ چاٹ لیے؛ چودہ برس میں انہیں فرانس جا کر اپنے والد صاحب کے دوست جو خود ایک معروف فلسفی ہیں، بینتھم کے ہاں قیام کا موقع ملا، جہاں انہوں نے سائنس کے ایڈوانس لیکچر لیے۔ نوعمری میں ہی کلکوکس، یوکلڈ کے ساتھ تجرباتی سائنس سے آشنا ہوئے؛ فرانس سے واپسی پر چراغ سے مزید چراغ جلے جب انہوں نے اپنے بہن بھائیوں کی گھریلو تدریس شروع کر دی۔ علاوہ ازیں وہ بینتھم کے لٹریچر کے تراجم کی ادارتی ذمہ داریاں بھی نبھاتے، اس کے فلسفہ کے پرچارک بھی بنے( آخر ہر ایڈیٹر عزیزم عثمان سہیل کی طرح اپنے ادارہ کے دانشوروں کی دانش گردی پر تبریٰ نہیں فرما سکتا۔)۔

اب یہاں رک کر سوچیے؛ میں اور آپ سولہ برس کی اوسط عمر تک میٹرک کرکے تاریخ، سیاسیات، فلسفہ یا منطق کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے؛ سائنس میں اسلامیات اور معاشرتی علوم میں مطالعہ پاکستان پڑھ کرالبتہ اس قابل ضرور ہوجاتے ہیں کہ فیس بک پراحباب کی حب الوطنی اور خواتین کا ایمان جانچ سکیں۔ ایک ڈھنگ کا پیرا لکھتے ہوئے درجن بھر املا ء کی غلطیاں کرتے ہیں، اسکول میں دس بارہ برس کرتے کیا ہیں؟ اس کے برعکس گھریلو تعلیم یافتہ مل کہتے ہیں کہ سولہ برس کی عمر تک وہ روایتی ماسٹرز سے زیادہ ‘تعلیم یافتہ’ تھے، ایک جگہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ہم عصروں کے مقابلہ میں پچیس برس کا ہیڈ سٹارٹ یا آگے سے آغاز لیا۔ ایک اور دلچسپ بات کہتے ہیں کہ ’’کوئی بھی چیز جو خود سوچ کر معلوم کی جا سکتی ہے، مجھے کبھی نہیں بتائی جاتی تھی، تاوقتیکہ میں خود اسے تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش نہ کر لوں۔‘‘۔ اب اپنے اساتذہ کی اپروچ ذہن میں لائیے جس کا معیار بہتر ہو تو شاید یہ بحث ہی نہ چھیڑنا پڑے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ بیس برس کی عمر تک پہنچتے وہ استدلال اور منطق کی مشین بن چکے تھے،افادیت پسندی پر اپنے فلسفہ کے خدوخال واضح کرچکے تھے، مگر یہاں ایک مسئلہ نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تعلیم نے انہیں زندگی کے چند پہلوؤں کے لیے تیار نہیں کیا تھا، جس وجہ سے انہیں ڈپریشن ہونے لگا، دوسری دہائی تک پہنچتے وہ خودکشی کی ایک دو ناکام کوششیں بھی کر چکے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی میں نوکری شروع کی مگر وہاں بھی ڈپریشن نے پیچھا نہ چھوڑا۔ یہاں تک کہ انہوں نے خود سے سوال کیا کہ آیا یہ مقصدیت جو بینتھم کے لٹریچر کا اثربھی تھا، ایک منصف اور عادل معاشرہ اگر مل جائے، سب سماجی برائیاں ختم ہو جائیں تو کیا یہ کافی ہو گا؟ ان کو اندر سے جواب ملا کہ نہیں۔ یہاں انہیں کوئی اور سہارا تلاش کرنا پڑا جو انہیں شاعری نے دیا، ولیم ورڈزورتھ کی نظموں نے قدرت، فطری حسن اورزندگی کے ان حسین پہلوؤں کو  آشکار کیا جو فلسفہ اور بینتھم کے ہاں موجود نہیں تھے۔ ان کے اپنے الفاظ ہیں؛ ” یہ محسوسات کی وہ دنیا تھی جس کی مجھے تلاش تھی، باطنی خوشی ، ہمدردی ، تخیل اور خوشی کا ایک منبع تھا جس کا جدوجہد اور بھاگ دوڑ سے کوئی تعلق نہ  ہوتے ہوئے  بھی بنی نوع انسان کی بہتری سے ضرور تھا۔ ان سے معلوم ہوتا تھا کہ خوشی کے ذرائع کیا ہو سکتے ہیں اور زندگی کی مشکلات کیسے بھگائی جا سکتی ہیں، ان کے زیر اثر آ کر میں نے خود کو خوش اور مطمئن محسوس کیا۔”۔
جان سٹورٹ مل پر اسی لیے ورڈزورتھ اور پھررومانوی شعرا کولرج ، گوئٹے کی رومانوی شاعری کے اثرات رہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ روشن خیالی کا فلسفہ یک رخی ہے جس میں وہ جذبات اور محسوسات کو شامل کرنا چاہتے ہیں۔
گھریلو تعلیم والوں کے علاوہ آج کل نوجوان دکھی آتماوؤں کو دیکھ کر پہلے تعجب اور بےیقینی ہوتی تھی اب افسوس ہوتا ہے، ہم اس عمر میں خدا کی بنائی رنگین کائنات کی دلکشی اور رنگینی سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ بہرحال زندگی سے جمالیات اور مسرت نکل جائے تو مسائل ہی ہیں، انہیں کبھی نظرانداز مت کیجیے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply