اک راستہ ہے زندگی(ڈاکٹر رفیع مصطفٰی)–فیصل عظیم

رفیع مصطفٰی صاحب کے ناولوں کے نام بڑے دلچسپ ہوتے ہیں جیسے ان کے پہلے اردو ناول کا عنوان ’’اے تحیّرِ عشق‘‘ سراج اورنگ آبادی کی غزل ’’خبرِ تحیّرِ عشق ۔۔۔‘‘ کی اور زیرِ نظر ناول کا عنوان ’’اک راستہ ہے زندگی‘‘ فلمی گیت کی یاد دلاتا ہے۔ مگر اس ناول کا عنوان صرف ان کے جمالیاتی ذوق ہی کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ اپنی معنویت میں بھی بھرپور ہے۔ زندگی کی پیچیدگیوں کے سفر میں ناول جس موڑ پر پہنچ کر ختم ہوتا ہے وہ یہی پیغام دیتا ہے کہ زندگی جیسی بھی ہے، ایک راستہ ہے جس پر چلتے جانا ہی ہمارا کام ہے۔ ان دونوں اردو ناولوں سے پہلے ان کا ایک انگریزی ناول “Tales from Birehra” بھی شائع ہو چکا ہے۔

رفیع صاحب کے کردار عموماً بڑے جاندار ہوتے ہیں۔ اس ناول ’’اک راستہ ہے زندگی‘‘ میں بھی ان کی کردار نگاری بہت خوب ہے۔ ان کرداروں کی زبان اور رہن سہن دونوں میں ایک تہذیبی رچاؤ ہے۔ بہت سی تہذیبی روایات جو بھلائی جا چکی ہیں، مختلف قومیتوں کے درمیان محبّت اور خلوص کے رشتے جو کبھی ہوا کرتے تھے مگر اب قصّے کہانی معلوم ہوتے ہیں اور کچھ ہندوستان کے دیہات کی ثقافت اور اطوار، ان سب کی جھلکیاں آپ کو اس ناول میں ملیں گی۔ مجھے ان کرداروں میں باقی خاں (تایا) کا کردار بہت اچھا لگا حالانکہ وہ ایک مقام پہ آکر منفی کردار بھی بن جاتا ہے مگر پھر اس کی حالت خاصی قابلِ رحم ہوجاتی ہے۔ اس کردار کے مکالمے ایسے ہیں کہ وہ کہانی سے باہر جیتا جاگتا کردارمعلوم ہوتا ہے جیسے ایک پوپلے منہ والا شرمندہ بوڑھا آپ کے سامنے ہے جس کی باتیں ہم حقیقی زندگی میں سن رہے ہوں۔ اس کے جملے اور الفاظ اتنے نپے تلے ہیں کہ کہیں کوئی لفظ زیادہ معلوم نہیں ہوتا بلکہ اس کے ادھورے جملے اس کے چہرے اور لہجے کے تاثرات تک بیان کر دیتے ہیں۔ اس ناول کی جو خصوصیت بار بار سامنے آتی ہے اور جس کا ذکر کئی لوگوں نے کیا، وہ ہے ان کے ناول کی زبان اور الفاظ کا ذخیرہ جس میں خالص اردو کی چاشنی بھی ہے اور بہت سے ایسے بھولے بسرے الفاظ بھی پڑھنے کو مل جاتے ہیں جن کا استعمال اب بہت کم یا تقریباً معدوم ہوچکا ہے۔ لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر مجھے جس بات نے سب سے زیادہ خوش کیا وہ ہے رفیع صاحب کا پلاؤ، ماش کی دال اور قورمے کے ساتھ برتاؤ، اس میں شامی کباب کو بھی شامل کر لیجیے۔ جی ہاں، ان مقدّس کھانوں کے معاملے میں میری طرح وہ بھی کسی قسم کے سمجھوتے اور بے حرمتی کے قائل معلوم نہیں ہوتے اور یہ حصّہ پڑھ کر میں بلامبالغہ خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔

’’اک راستہ ہے زندگی‘‘ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جو ہجرتوں کے المیوں سے گزرتا ہے اور اس کے گرد گھومتے ہوئے وہ ان ہجرتوں کے تناظر میں مٹّی سے جڑے آدمی کی زندگی کے مختلف رخ اور مسائل کو اپنا موضوع بناتی ہے۔ اس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ انجام جس گھرانے کا ہوا وہ ہے غفّار خان کا جو بچپن میں اپنے تایا کی مار پیٹ سے فرار حاصل کرنے کے لیے گھر سے بھاگا اور پھر اپنے خاندان سے کٹ کر رہ گیا مگر جب خاندان کے دوبارہ جڑنے کا وقت آیا تو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے عمل میں اس کا پورا گھرانہ یعنی وہ خود، اس کی بیوی اور بیٹا، اپنے ہی لوگوں یعنی ہم وطنوں کے ہاتھوں اس سے بھی زیادہ پُرتشدّد اور تکلیف دہ انجام کا شکار ہوگئے۔ اس ناول میں تقسیمِ ہند اور سقوطِ ڈھاکہ کے پس منظر میں خاندانوں کی بقا کی جدّوجہد، سیاسی حالات، مظالم اور محرومیوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس میں نفسیات کے بعض اہم اور روزمرّہ کی زندگی سے متعلّق معاملات کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ دو بوڑھے اپنے بچپن کے بدلے کیسے اپنی اولاد کی اولاد کی شادیوں میں نکالتے ہیں، یہ بھی مزیدار قصّہ ہے مگر اس میں کسی کی عزت پر بہرحال حرف نہیں آتا۔ رفیع مصطفی صاحب اپنی تحریروں میں اکثر معاشرتی مسائل پر بات کرتے نظر آتے ہیں مثلاً اس ناول میں انھوں نے خاندان میں ہونے والی بار بار کی شادیوں کے نقصانات کی طرف بہت خوبی سے توجّہ دلائی ہے بلکہ یہ مسئلہ بالآخر اس کہانی کے تکملے کا سب سے اہم جزو بھی بن جاتا ہے۔

یہاں ایک عجیب اتّفاق ہے کہ تین مرکزی کردار جاوید، کہکشاں اور سلمان ایک ہی دن اور ایک ہی وقت یعنی فجر کے وقت پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کوئی مشاہدہ تھا یا تین لوگوں کی قسمتوں کو ایک سا دکھانے کے لیے محض کہانی کی ضرورت جو مبالغے کا احساس دلاتی ہے، جو بھی ہے ہم بہرحال یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ اس جہانِ ممکنات میں کیا نہیں ہو سکتا! تاہم ایک جسارت کرنے دیجیے اور وہ یہ کہ شاید کچھ وسائل (Logistics) کی مجبوریاں آڑے آگئیں ورنہ اگر کہیں منّوں میاں کو دو دائیاں میسّر آجاتیں تو شاید جاوید اور کہکشاں کو بیک وقت ایک ہی سیکنڈ پر اس جہانِ بسیط میں جست لگانے سے کوئی نہیں روک پاتا۔ شاید اسی مجبوری کے باعث سلمان کو بھی یہ رعایت مل گئی کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے جغرافیائی وقت کے فرق کی وجہ سے اس کی پیدائش ایک گھنٹہ پہلے کردی گئی ورنہ شاید اس ایک گھنٹے کے تکلّف کی ضرورت بھی نہ رہتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ ناول مسلسل جدّوجہد کی داستان ہے جس میں کہانی کچھ ایسے المیوں پر منتج ہوتی ہے جو شوپنہار کے فلسفے کے ترجمان ہیں یعنی کہکشاں کے اپنے شوہر کے ساتھ رویّے سے عورت کی جو نفسیات ظاہر ہوتی ہے، اسی طرح جاوید کی زندگی شادی کے بعد جن تبدیلیوں اور جبر پر آکر گویا ٹھہر سی جاتی ہے اور جسے وہ بالآخر اپنی تقدیر سمجھ کر ایک معمول کی طرح قبول کر لیتا ہے اور سلمان جس کی زندگی بےچارگی کی تصویر ہوجاتی ہے۔ پھر شروع میں نمبردار صاحب کی شادی اور اس کے بعد کے حالات جس میں بیوی انھیں کس طرح سیدھا رکھتی ہے اور ان سے اولاد کا حصول ہی گویا اس کا واحد مقصد ہوتا ہے۔ تو ان سب لوگوں کی کہانیاں غیر دانستہ طور پہ شوپنہار کے فلسفے کا مقدّمہ لڑتی نظر آتی ہیں۔ بلکہ لگتا ہے کہ اسے شوپنہار کے فلسفے کی ایک بہترین تخلیقی مثال کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ صرف میرا خیال ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مصنّف کی اس کہانی کے پس منظر میں جو سوچ تھی، وہ اس کے بارے میں محافل میں بہت واضح طور پہ بتا چکے ہیں کہ ناول لکھتے وقت فطرت اور اس کے جبر کا یہ فلسفہ ان کے پیشِ نظر نہیں تھا اور ان کا اصل مقصد تمام مسائل کے باوجود زندگی کے تسلسل میں مثبت اندازِ فکر کو دکھانا مقصود تھا یعنی زندگی اس سب کے باوجود ایک راستہ ہے جس پر ہمیں چلتے جانا ہے۔ لیکن اس مشاہدے سے ہٹ کر مجموعی طور پہ جو تاثر مجھے اس ناول سے ملا وہ یہ ہے کہ رفیع مصطفی صاحب کے اس ناول کا اصل محرّک انسانیت اور انسان دوستی ہے اور یہی احساس ان کے پہلے ناول کو پڑھ کر بھی ہوتا ہے۔ ہمارے اردگرد بعض پڑھے لکھے لوگ بھی اپنے اندر تعصّب کا زہر لیے پھرتے ہیں، رفیع صاحب کے ناول یقیناً انھیں خود احتسابی کی دعوت دیتے ہوں گے۔ ہمارے بزرگ ادیب کہا کرتے ہیں کہ اچھی کتاب وہ ہے جسے پڑھ کر آپ خود کو پہلے سے بہتر انسان محسوس کریں۔ میرے خیال میں یہ ناول اس معیار پہ پورا اترتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply