تاریخ:گروورفر کاڈومینیکو لوسرڈو کو خط/مترجم- شاداب مرتضیٰ

سوویتولوجی کے ماہرتاریخ دان پروفیسر گروورفر نے اطالوی مؤرخ اورفلسفی، پروفیسرڈومینیکو لوسرڈوکو دسمبر 2012ء میں ایک خط لکھا جس کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ اس خط میں گروورفر نے لوسرڈو کی معروف کتاب”اسٹالن: ایک سیاہ فسانے کی تاریخ و تنقید” کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہارکیا ہےاورموضوع کے کچھ اہم نکات پراپنے نقطہ نظر سے روشنی ڈالی ہے۔ (مترجم: شاداب مرتضی)

عزیز پروفیسر لوسرڈو،

نکولس ورتھ کے ساتھ تمھاری بحث پر میرے خیالات یہ ہیں۔

میں نکولس ورتھ سے بات شروع کروں گا۔ وہ ایک پکا کمیونسٹ مخالف ہے۔ایک دو بار میں نے اسے صاف جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا ہے مگر تمہاری بحث میں نہیں۔

میری رائے میں ورتھ کا مؤقف بعض غلط تصورات پرقائم ہے جو بے شک ارادی ہیں:

ورتھ “آرکائیوز” کا حوالہ دیتا ہے اورخصوصا ً ساتویں جلد کی فہرست کاجو “سوویت دیہات کے المیے”کے بارے میں ہے ،گویا ان کی موجودگی سے مسئلہ حل ہوجائے گا۔ مگرایسا نہیں ہے۔

میرے پاس اس سات جلدوں والی دستاویزات کی کاپی اس وقت سے موجود ہے جب انہیں شائع کیا گیا تھا۔ یہ بنیادی دستاویزات کا ایک کارآمدمجموعہ ہے۔ لیکن دستاویز بذات خود کچھ ثابت نہیں کرتیں اوریہ بات اس مجموعے پربھی صادق آتی ہے۔

ورتھ بارہا”کسانوں” کا حوالہ دیتا ہے۔ایسا کوئی گروہ نہیں تھا۔ روسی(اوریوکرینی ) کسان بہت متفرق تھے۔مثلاً،بہت بڑی تعداد کے پاس کوئی زمین نہیں تھی۔ ایک اوربڑی تعداد کے پاس زمین کےبہت چھوٹے حصّے تھے۔ انہیں “بتراکی(بے زمین)” اور”بیدنیاکی(غریب، بے زمین یا بہت کم زمین والے) کہا جاتا تھا۔

اجتماعی اورریاستی کھیتوں میں شامل ہو کران کسانوں کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ سو، یہ خیال ایک دھوکہ ہے کہ زرعی اجتماع کاری “کسانوں کے خلاف جنگ” تھی ۔

اجتماع کاری کی وجہ سے1932-1933 کا قحط نہیں پڑا تھا۔ اس کا سبب برے موسمی حالات تھے۔ڈیویز اورویٹکرافٹ دونوں، اور مارک ٹاگر جو اس موضوع پرمغرب کے ممتاز ترین عالموں میں سے ایک ہے، اس پرمتفق ہیں۔ٹاگر کو یقین ہے کہ ڈیویز اورویٹکرافٹ نے  اس بات کو بڑھا چڑھا کرپیش کیا کہ اجتماع کاری کس حد تک قحط کی کئی بنیادی وجوہات میں سے ایک تھی ، اور وہ خراب موسم کواس کا اولین سبب کہتا ہے۔

اجتماع کاری اس لحاظ سے ایک عظیم کامیابی تھی کہ اس نے متواتر قحطوں کو روکا جو ایک ہزارسال سے روس(اوریوکرین) کو ہر3 سے4 سال میں سخت متاثر کرتے آئے تھے۔1932-1933 ءکا قحط بالکل آخری قحط تھا ، 1946-1947ء کے قحط کے علاوہ۔ویٹکرافٹ نے حال ہی میں کہا ہے کہ اس کا سبب تباہ کن موسمی حالات تھے نا کہ سوویت حکومت کی بدانتظامی۔

اس اعتبار سے، صنعتکاری کے ساتھ،سوویت یونین میں زرعی اجتماع کاری بیسویں صدی میں سماجی اصلاح کے عظیم ترین کارناموں میں سے ایک ہے۔ اس نے دسیوں لاکھوں جانوں کو بچایا جو مستقبل کے ان قحطوں میں ضائع ہوجاتیں جو(زرعی اجتماع کاری کے نہ ہونے کی وجہ سے) باقاعدگی سے جاری رہتے۔

یقیناً ، زرعی اجتماع کاری نے صنعتکاری اور دوسری عالمی جنگ میں فتح کوبھی ممکن بنایا۔ یہ بھی کوئی چھوٹی کامیابی نہیں تھی۔ لیکن اگراس کی بات نہ بھی کی جائے تو زرعی اجتماع کاری نے قطحوں کا نہ ختم ہونے والا چکرتوڑا اورلاکھوں جانیں بچائیں۔

اس کے علاوہ، یہ بھی ضرور کہنا چاہیے: جو لوگ 1932-1933ء کے قحط میں ہلاک ہوئے وہ کسانوں کےتمام طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ امیر بھی اورغریب بھی۔ گزشہ قحطوں میں، امیر کسان خوشحال ہوتے تھے، تاجر اناج کی ذخیرہ اندوزی کرکے مہنگا بیچتے تھے، اورصرف غریب ہی بھوکا مرتا تھا۔یہ بھی بے شک ایک وجہ ہے کہ ورتھ اوردیگررجعت پرست عام طورپرزرعی اجتماع کاری سے اس قدر نفرت کرتے ہیں: اس نے امیروں کی مراعات ختم کردیں اورغریبوں کا تحفظ کیا۔

بخارن کے منصوبے میں صنعتکاری کا امکان نہیں تھا، اوراس لیے اس کا مطلب یہ ہوتا کہ نازی جنگ جیت سکتے تھے۔اس کے علاوہ، دیہاتی علاقوں میں سرمایہ دارعناصر نیپ(نئی اقتصادی پالیسی) کے تحت تیزی سے پھل پھول رہے تھے۔ یہ عمل جاری رہتا۔اتفاق کی بات ہے کہ ٹراٹسکی کا منصوبہ بھی بخارن کے جیسا ہی تھا۔

ورتھ 70 اور80 کی دہائیوں میں “امریکی اناج کی بہت بڑی درآمد” کا حوالہ دیتا ہے۔ تو کیا ہوا؟ زرعی اجتماع کاری نے متواتر فاقہ کشی کوروک دیا جس کی اس سے توقع تھی۔ اسٹالن کی بات کا اقتباس دیکھو جب اس نے چرچل سے بات کی۔

دوسری عالمی جنگ کی اپنی یادداشتوں”قبضہ تقدیر” میں چرچل اسٹالن کی بات کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:”ایک کروڑ،”اس نے اپنےہاتھ اٹھا کرکہا۔ “یہ (قحط)خوفناک تھا۔یہ چارسال رہا۔روس کے لیے یہ قطعی ضروری تھا کہ اگر وہ متواترقحطوں سے بچنا چاہتا ہے تو زمین پرٹریکٹروں سے ہل چلائے۔”

میں نے ایک مختصر آرٹیکل میں اس اقتباس کا ذکر کیا ہے۔

روس اوریوکرین امریکہ سے کہیں زیادہ شمالی ہیں۔نکتہ یہ ہے کہ صنعتکاری کرکے سوویت یونین بوقت ضرورت اناج کی درآمد کی رقم ادا کرسکتا تھا۔ زرعی اجتماع کاری نے صنعتکاری کو ممکن بنایا اور قحطوں کا تواتر روک دیا۔

“1937-1938ء کے قتل عام” کے بارے میں ورتھ مکمل طورپرغلط ہے۔یہ ہرگز”بیماری سے بچنے کی صفائی” نہیں تھے گو یہ وضاحت وہ ہے جسے اب اینٹی کمیونسٹ عام طورپرپھیلا رہے ہیں۔

میں نے اس پر کافی تحقیق کی ہے ۔مستقبل میں اس پرکتاب لکھنے کا ارادہ ہے۔ فی الحال تم میرا یہ آرٹیکل دیکھ سکتے ہو”1937-1938ء کے ماسکو مقدمات اور”عظیم دہشت”:شواہد کیا دکھاتے ہیں۔”(اس کا لنک آخرمیں دے دیا گیا ہے)۔

میں نے اس میں ایزوف کی تفتیشوں کے سارے لنک جنہیں عام کردیا گیا ہےان کے انگریزی ترجموں کے ساتھ دیئے ہیں، اوردوسری تفتیشوں کے بھی۔ یہ فکر انگیز ہیں۔

ایک دیرینہ کمیونسٹ مخالف، خاستوف، 1937-1938ء کی دستاویزوں کی ایک تازہ جلد میں(جو روسی میں ہے) یہ تسلیم کرتا ہے کہ مخالفین اور بغاوتی گروہوں کے بارے میں ایزوف کی رپورٹوں پر اسٹالن بھروسہ کرتا تھا۔ دس سال پہلے آرچ گیٹی نے دکھا دیا تھا کہ ایزوف نے اس سے زیادہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جس کا اندازہ پولٹ بیورو کو تھا۔ یہ ایزوف تھا، اسٹالن یا پولٹ بیورو نہیں، جس نے گرفتاری اورسزائے موت کے لیے “کوٹے” طے کیے تھے۔ اسٹالن اورپولٹ بیورو نے “حدود” کا تقاضا کیا تھا۔

مولوٹوف-ربن ٹروپ معاہدے کواینٹی کمیونسٹ اورمشرقی یورپ کے خفیہ نازیوں نے دوسری جگہوں پر اپنے اتحادیوں کی مدد سے شیطانی بنا دیا ہے۔ مگرانہوں نے اسے بالکل غلط سمجھا ہے۔

مغربی یوکرین اورمغربی بیلا روس پولینڈ کے مقبوضہ علاقے تھے جو اس نے 1921 ءمیں سوویت روس سے چھینے تھے اورپھران میں پولش لوگوں کی آبادکاری کی تھی، جن میں اکثرسابق فوجی افسران تھے، تاکہ ان علاقوں کو”پولونائز” کیا جائے۔

یوکرینی اوربیلاروسی ان علاقوں میں اکثریت میں تھے لیکن پولینڈ نے بتدریج ان سے اپنی زبانیں بولنے کا، ان زبانوں میں اسکول کی تعلیم کا، سرکاری ملازمت میں انہیں استعمال کرنےکا حق لے لیا تھا اورعام طورپر کئی طرح سے ان سے امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔

ان علاقوں کی وسیع یہودی آبادی کو بھی اسی طرح سرکاری امتیاز کا نشانہ بنایا گیا۔

پولینڈ اس سامراجی قبضہ گیری میں تب شامل ہوا جب اس نے 1938 ء میں میونخ سیل آؤٹ کے وقت چیکوسلوواکیہ سے “ٹیزن” کا علاقہ لیا۔

آخر میں(فی الوقت): سوویتوں نے 17 ستمبر 1939ءکو اپنی فوج (پولینڈ میں) بھیجی جب جرمنوں نے انہیں بتایا کہ ان کے خیال میں پولینڈ ایک ریاست کے طورپراپنا وجود کھو چکاتھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جرمنی مولوٹوف-ربن ٹروپ معاہدے میں حلقہ اثر کی تقسیم کی پاسداری نہیں کرے گا۔ جرمنوں نے سرکاری طورپرسوویتوں کو خبردار کیا کہ مغربی یوکرین اورمغربی بیلا روس میں “نئی ریاستیں”، یعنی نازی نواز یوکرینی قوم پرست ریاست، ابھرآئیں گی اگرسرخ فوج وہاں داخل نہ ہوئی۔

درحقیت جرمن درست تھے ۔پولینڈ اس وقت ریاست کے بطوراپنا وجود کھو چکا تھا جب اس کی حکومت اور فوجی قیادت نے 17ستمبر1939ء کوخود کو رومانیہ میں نظربند کروالیا۔

اس معاملے پر 17 یا 18 ویب صفحوں کے ثبوتوں پر مشتمل میرا ایک آرٹیکل ہے جسے اس لنک پرپڑھا جا سکتا ہے۔پہلا لنک آرٹیکل ہے ، باقی شواہدہیں۔(اس کا لنک آخر میں دے دیا گیا ہے۔)

یہ بات نوٹ کرو کہ سابق مشرقی پولینڈ میں سوویت یونین کے داخلے سے چرچل نے اتفاق کیا تھا۔

لگتا تھا کہ جرمنوں نے ماسکو اورلینن گراڈ پر تقریبا قبضہ کرلیا تھا۔ اگر سوویت یونین سابق مشرقی پولینڈ میں داخل نہ ہوتا تو “وارماخت”سوویت یونین کے قلبی علاقےکے زیادہ قریب اپنا حملہ شروع کرتی اورغالب امکان تھا کہ وہ لینن گراڈ اورماسکو پرقبضہ کرلیتی۔

خلاصہ یہ ہے:

“ڈانیلوف کے جدول” کچھ ثابت نہیں کرتے حالانکہ وہ دستاویزوں کے دوسرے مجموعوں جیسے ہی مفید ہیں؛

مولوٹوف-ربن ٹروپ معاہدہ نا صرف مفید بلکہ بنیادی تھا۔ کوئی جرم یا “حملہ” کرنے کے بجائے سوویت یونین نے وہی کیا جومغربی پولینڈ میں داخل ہو کر کوئی بھی ریاست “وارماخت” کو 1939ء سے پہلے موجود اپنی سرحدوں سے ممکنہ حد تک دور رکھنے کے لیے کرتی۔

زرعی اجتماع کاری قحطوں کے نہ ختم ہونے  والے چکر کو روکنے اورصنعتکاری کو ممکن بنانے کے لیے ایک کامیابی تھی۔

اجتماع کاری قحط کا سبب نہیں بنی۔ بے شک قحط کی شدت کمی ہوتی اگریہ اجتماع کاری کے وقت نہ آتا۔ مگر یہ تو ہرحال میں ہونا ہی تھا۔اہم بات یہ ہے کہ یہ قحظ “آخری” قحط تھا (اوریہ بات اجتماع کاری کی وجہ سے ممکن ہوئی)۔

وہ “دہشت”۔۔دراصل ‘ایزووشچینا’ –جو1937-1938ء میں واقع ہوئی ، وہ ایزوف اورپہلے درجے کے سیکریٹریوں کی سازش کا نتیجہ تھی۔یقیناً یہ دہشتناک تھی۔ لیکن یہ کام اسٹالن اورپولٹ بیورو نےنہیں کیا تھا۔

یہاں میں اس بات کا ذکر کردوں کہ میری روسی زبان والی کتاب (جسے میں نے ولادیمیربابروف کے ساتھ لکھا ہے) میں ایک مضمون ہے جس میں مَیں نے دکھایا ہے کہ بخارن کو ایزوف کی سازش کی خبر تھی مگر اس نے تفتیش میں یا مقدمے میں اس کا ذکر نہیں کیا۔ اگر بخارن یا رائیکوف وغیرہ ایسا کرتے تو ایزوف کو روکا جا سکتا تھا اورقتل عام کوروکا یا کم کیا جا سکتا تھا۔ایزوف کے قتل عام کے لیے بخارن اوردائیں بازوکی ذمہ داری کی نشاندہی کہیں اورنہیں کی گئی ہے۔

جب تم خیروف پر میری کتاب کا مسودہ پڑھوگے تو نوٹ کروگے کہ ہمارے پاس ماسکو کے تین مقدموں اور”تخاچیفسکی مقدمے، کی مبینہ سازشوں کے کافی ثبوت ہیں ۔ وہ سب ہر گزاسٹالن یا کسی اورکی”جعلسازیاں” نہیں تھے۔

جہاں تک تمہارے کام کی بات ہے تو مجھےبالکل دیانت دار رہنا چاہیے۔مجھے یہ بہت اچھا لگا۔

یقیناً تم نے ایسے دلائل دیئے ہیں جن کا سامنا مجھے کہیں اورنہیں ہوا اورخود میں نے بھی انہیں نہیں سوچا تھا۔

میں اسے(کتاب”اسٹالن :ہسٹری اینڈ کریٹیک آف اے بلیک لیجینڈ”(اسٹالن:سیاہ فسانے کی تاریخ و تنقید )انگریزی میں ترجمہ کرنا چاہوں گا اگر تم اجازت دو۔

اورکیا تمہارے پاس اس کا اطالوی ترجمہ ہے؟ میں اسے اٹلی میں کچھ دوستوں کو بھیجنا چاہوں گا۔

مولوٹوف-ربن ٹروپ معاہدے کے بارے میں تمہارا جواب بہت اچھا لگا:”ہٹلرسے سمجھوتے کی دوڑ میں اسٹالن ناکام رہا”۔ایسے شخص کا تصور کرو جو میونخ (معاہدے)کے منہ پرسوویتوں کی جانب سے مولوٹوف-ربن ٹروپ معاہدے پر دستخط کرنے کو اعتراض کی نظر سے دیکھتا ہے!

میں بس یہ اضافہ کروں گا کہ مولوٹوف-ربن ٹروپ معاہدہ نا صرف قابل دفاع تھا بلکہ بنیادی تھا اور غالباً اس نے جنگ میں سوویت یونین کو، اوراس وسیلے ،ہم سب کو بچایا۔

اس کے بعد کچھ نکات ہیں جن پر میں تم سے ذرا اختلاف کرتا ہوں۔ان سب کا تعلق اس بات سے ہے:میری نظر میں،تم ورتھ کو کافی رعایت دیتے ہو جس کا ہر دعویٰ جھوٹا ہے۔

مثلاً ٹراٹسکی کو لو۔ ہمارے پاس موجود سارے ثبوت اشارہ کرتے ہیں کہ وہ ماسکو مقدمات میں لگائے گئے تمام الزامات کا مجرم تھا۔ اس میں ہوورانسٹیٹیوٹ میں ہارورڈ کے ٹراٹسکی آرکائیوزسے ملنے والا شواہد کا وہ بڑا حصہ بھی شامل ہے جسے معروف ٹراٹسکائی، پائری برو، نے دریافت کیا ہے۔

میں اختلاف کروں گا کہ “زرعی اجتماع کاری کا دورخوفناک ترین تھا” ۔ جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے۔ میری نظر میں یہ ایک کامیابی تھی۔

فطری طورپر،بالشویکوں نےاسےانجام دینے میں کئی غلطیاں کیں۔وہ اولین لوگ تھے؛ ایسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔ پہلکاری کرنے والے ہمیشہ غلطیاں کرتے ہیں؛ اصل میں غلطیاں کیے بغیر مؤجد ہوناممکن نہیں۔

چینیوں اورجنوبی ویتنامیوں نے ان غلطیوں سے سیکھا اورمختلف انداز سے اجتماع کاری کی۔آخری نتیجہ ، میرے خیال میں ہلاکتوں کی کم تعداد تھی۔ لیکن ان کے پاس سیکھنے کے لیے سوویتوں کی مثال تھی۔

میں “ایزووشچینا” کو “خوفناک ترین” کہوں گا جسےورتھ اورتمام دوسرے اینٹی کمیونسٹ جھٹلاتے ہیں، جیسا کہ میں نے اوپرکہا ہے۔ ورتھ کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ یہ “بیماری سے بچنے کی صفائی” کی کوشش تھی۔ یہ محض لفاظی ہے۔ یقیناً، یہ تباہی تھی لیکن ایسی تباہی جس کی بڑی ذمہ داری بخارن اورخروشچیف پرعائد ہوتی ہے جو اینٹی کمیونسٹوں کو بہت عزیز ہیں۔

میں اتفاق نہیں کرتا کہ “اسٹالن کا دور” ایک”دہشت ” تھا۔ میرا خیال ہے تم بھی واقعی اس سے متفق نہیں۔

لیکن یقیناً یہ المناک تھا اس لحاظ سے کہ ایسی ٖغلطیاں ہوئیں جنہوں نے سوشلزم کو بھٹکا دیااورپھراسے پورا دھوکہ دیا۔ اس نے خروشچیف کو پیدا کیا اورخروشچیف اوراس کے ساتھیوں کی نشوونما اسٹالن کے دورمیں ہوئی۔ لہذا، یہ ظاہر ہے کہ رجعتی پیش رفتیں ہو رہی تھیں۔ وہ کیا تھیں اس کا ہمیں مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن مجموعی طورپر، میرا خیال ہے تمھارا مضمون بہت اچھا ہے! مجھے پتہ ہے کہ ورتھ اس کا ایک لفظ بھی قبول نہیں کرے گا۔

اس کےلیے اس سے بدتراور کیا ہوگا۔ اس کا باپ،ایلکزنڈرورتھ،میری رائے میں ایک دیانت دارمبصر تھا اوراس کی تمام کتابیں آج بھی پڑھنے کے قابل ہیں۔ نکولس ورتھ کی کتابیں وہ ہیں جنہیں میں “حاشیے والاپروپیگنڈہ(پروپیگنڈہ ود فٹ نوٹس)” کہتا ہوں۔

اتنا طویل لکھنے پر معذرت خواہ ہوں۔

تمہارا بے حد شکرگزار،

گروورفر۔

دسمبر2012ء۔
حواشی: ماسکو مقدمات پرگروورفر کے آرٹیکل کا لنک:
https://msuweb.montclair.edu/~furrg/research/trials_ezhovshchina_update0710.html

Advertisements
julia rana solicitors

پولینڈ کے معاملے پرگروورفر کے آرٹیکل کا لنک:
http://www.tinyurl.com/furr-mlg09

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply