• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میں تو چلی چین/دیوارِ چین- چینی ثقافت و کلچر کا نمائندہ، اس کا لینڈ مارک اور تاریخی ورثہگ(قسط4-الف) -سلمیٰ اعوان

میں تو چلی چین/دیوارِ چین- چینی ثقافت و کلچر کا نمائندہ، اس کا لینڈ مارک اور تاریخی ورثہگ(قسط4-الف) -سلمیٰ اعوان

بلند آسمان اور نظر نواز بادلو!

جنوب کی جانب سے آنے والی قازوں کا انتظار ختم ہوا۔
عظیم دیوار تک اُن کا نہ پہنچنا کوئی بہادرانہ فعل نہیں۔
تاریخ ساز چینی رہنما ماؤزے تنگ Mao Zedongکی یہ خوبصورت نظم مجھے اس وقت بے طرح یاد آرہی ہے۔ چین کی کیمونسٹ پارٹی کے چئیرمین اور ایک عظیم انقلابی لیڈر۔
اِس نام سے پہلا تعارف کب ہوا؟1969اور70 کے سالوں میں جب میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے گرلز ہال میں ہر دوسرے دن چین اور روس نواز طالبات کے ماؤ اور لینن سے یگانگت کے نعرے اور ماؤ کی ترجمہ شدہ طوفانی نظموں کو جوشیلی آوازوں میں جنونی لڑکیوں سے گاتے ہوئے سُنتی تھی ۔ چین میرے لیے پاکستان کے ایک اچھے دوست کے ساتھ ساتھ دیوار چین اور ماؤ کے حوالے سے بھی بڑا مانوس ہوگیا تھا۔
وہ ہیرو کیسے بن سکتا ہے۔
جس نے عظیم دیوار کو ہاتھ ہی نہیں لگایا۔

یہ نظم بھی کہیں پڑھی تھی۔ عزم و حوصلے سے لدی پھندی،جدوجہد ،ہمت اورعمل کا سبق پڑھاتی تھی۔
اس وقت جب میں بھی ہیروئن بننے کے لیے عظیم دیوار کو ہاتھ لگانے جارہی ہوں۔ دماغ کے کونے کھدروں میں پڑے کچھ نظموں کے ٹکڑے متوجہ کررہے ہیں۔سچ مچ میں نے خود کو بہت خوش قسمت سمجھا ہے۔

اواخر مارچ کی اِس خنک تیز ہواؤں اور چمکیلی کرنوں میں لپٹی دوپہر کوبادہ لنگ کے پارکنگ ایریا میں یادگار کے پاس کھڑی اِس منظر سے محظوظ ہورہی ہوں۔ دنیا کے عجائبات میں سے ایک دیوار چین ہے ۔شفاف آسمان پر میری تشکر بھری نظریں جم سی گئی ہیں۔لبوں نے اُس ہستی کا شکریہ ادا کیا ہے جس نے اتنی بڑی کائنات تخلیق کی اور مجھے یہاں آنا نصیب کیا۔

بالعموم کِسی بھی ملک کی سیاحت کے لیے ہمیشہ میرا ایک طریقہ کار رہا ہے کہ اس کا آئی کون،اس کا لینڈ مارک، اس کی کوئی خاص الخاص چیز ہمیشہ سب سے آخر میں دیکھتی ہوں ۔عجیب سی نفسیات ہے میری کہ جیسے کوئی امیر بڈھا یا بڈھی اپنے اثاثوں کی بندربانٹ کے بعد ایک آدھ انتہائی قیمتی اور نادرآئٹم چھپا لیتی ہے کہ یہ تو اُسے اپنی کِسی دل پسند ہستی کو دینا ہے۔بس میں بھی کچھ ایسے ہی کسی نوسٹلجیا یا خود ساختہ لذت اور چسکے کے سحر میں خود کو قید کرکے اپنے سفری مزے کو دوبالا کرنے کی گھمن گھیریوں میں رہتی ہوں ۔
مگر عجیب سی بات تھی کہ چینی ثقافت کے اِس آئی کون کو سب سے پہلے دیکھنے چلی آئی تھی۔
شاید مجھے عجیب سی نہیں کہنا چاہیے کہ میں اِس بات سے آگاہ ہوں کہ اس بار سفری مہار میرے ہاتھ کی بجائے کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
‘‘تو پھر آج مجھے دیوار چین کے لیے جانا ہے۔’’
تو بس شکر شکر کرتے ہوئے گاڑی میں بیٹھی جس کی فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولے بیٹی اور داماد کھڑے تھے ۔

بیجنگ چھ سات رنگ روڈوں کے دائروں سے لپٹا ہوا ہے۔گاڑی نمبر ۲ پر چڑھی۔ راستہ قدرت کے حسن سے کہیں زیادہ انسانی ہاتھوں کا مرہون منت تھا۔ پستہ قامت پہاڑیوں میں سرنگوں کی تعمیر ان کی طوالت کہیں کم اور کہیں زیادہ تھی۔
ہم جس راستے پر رواں دواں تھے یہ بادہ لنگ Badaling کا ہے۔اِسے بہترین اور سیاحوں کے لیے اہم کہا گیا ہے۔ ویسے تو داخل ہونے کے تقریباً نودس راستے ہیں۔عمران ان سب راستوں کی ہڈی ہڈی، جوڑ جوڑ اور ہر رگ و رید سے شناسا ہوچکا ہے کہ گذشتہ پانچ چھ سالوں سے پاک فضائیہ کی طرف سے چین اس کا آنا جانا ایسے ہی تھا جیسے کسی جاب کرنے والے لاہورئیے کے لیے گوجرانوالہ یا شیخوپورہ جانا۔

جنشانلنگ JinshanlingاورJiankouوالے حصّے پر وہ کئی مرتبہ ہائیکنگ کرچکا تھا۔اس کا کہنا ہے کہ ا س میں کوئی شک نہیں کہ سیمیتائیSimatai نامی حصّہ خوبصورت ہے اور فطرت کے حسین شاہکاروں سے مالا مال ہے۔مگر مطانیہ Mutinayaبھی بے مثل ہے اور سچی بات ہے کہ بادہ لنگ کا تو جواب نہیں۔ خدا گواہ ہے۔ بندے کا سانس رکنے لگتا ہے۔سبزے سے لدی پہاڑیوں کی ڈھلانیں اور اس میں سانپ کی طرح بل کھاتی یہ دیوار۔Jiankouخطرناک ہے۔جنگلی حیات یہاں کثرت سے ملتی ہے۔حکومت سے خاص اجازت لینا پڑتی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ چین بارے، چینی کلچربارے کوئی بات مکمل ہو ہی نہیں ہوسکتی جب تک اس میں عظیم دیوارکا حصّہ نہ ڈالا جائے۔

اب دنگ رہنے والی بات ہی ہے نا جب ساتویں صدی قبل مسیح سے پہلے شروع ہونے والا یہ عجوبہ سولہویں صدی بعد مسیح تک مسلسل سفر میں ہی رہا۔
کیا کن Qin،کیا ہانHan،کیا منگMingاور بقیہ شہنشاہ بھی تاریخ جن سے بھری پڑی ہے۔ انیس بیس تو ہیں ہی ۔نام بھی بڑے مزے کے ہیں۔ سوئیSui ، ٹینگ Tang،سونگ Songوغیرہ وغیرہ۔خیر ہمارے کان تو اِن سبھوں سے کچھ بہت اچھی طرح مانوس بھی نہیں ہیں۔تو بھئی ان سبھوں نے اسے بہتر کرنے اور سنوارنے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔
تولیجیئے گاڑی سے اُتر کر میں سر شاری کے عالم میں اپنے چاروں اوربکھری سنہری دھوپ میں گھومی ہوں ۔ شفاف نیلے آسمان، خنک ہواؤں کے رقصاں جھونکوں، پشت پر نیلگوں پانیوں کے ہلکورے لیتی جھیل، اوپر پہاڑی پر بل کھاتی دیوار اس پر بنی برجی، سبھوں کو شوق و اشتیاق کی بلندیوں سے دیکھتی اور مسرور ہوتی ہوں۔
‘‘میرے پروردگار میں تیری کِس کِس نعمت کا شکریہ ادا کروں ۔’’
سامنے ٹکٹ گھر جہاں عمران ٹکٹ کے لئے کھڑا ہے۔ داہنے ہاتھ یادگار کے پاس بیٹی کچھ پڑھتی نظرآتی ہے۔ بائیں ہاتھ سڑک سے ذرا پرے دیوار کے اوپر عظیم دیوار کا ایک دوسرا حصہ اور برجیاں نظر آرہی ہیں ۔ پارکنگ ایریا میں گاڑیوں کی آمدروفت کا شور برپا ہے۔
لیوپین Liu Pan پہاڑ کی بلند چوٹیوں پر
سُرخ جھنڈا لہراتا ہے
اب ہم نے لمبا Tassel (یونیفارم) پہن لیا ہے ۔

ماؤ کی نظم کے یہ ٹکڑے یاد آرہے ہیں۔ میں نے بھی لمبی چوڑی دعاوں  کی ردا اپنے ارد گرد لپیٹ لی ہے ۔ سامنے بے ڈھنگی ڈب کھڑّبھی سی بڑے بڑے پتھروں والی سیڑھیاں ہیں ان پر قدم رکھ دیا ہے ۔ چڑھتی جا رہی ہوں ۔اب رکی ہوں۔ اس چھوٹے سے دوراہے پر آکر جہاں ایک جانب کی سیڑھیاں اوپر برجی تک جاتی ہیں۔ دوسری جانب سیڑھیوں کا ہی ایک چھوٹاسا سلسلہ ایک چمکتے دمکتے رنگ رنگیلے آرٹ کے شہکا روں سے سجے پگوڈا کی طرف لے جاتا ہے۔
تو پھر اسی طرف جانا تھا نا ۔ گئی ۔ رنگوں کی پچی کاریاں اور چوبی کندہ کاری کے شہکار دیواریں، چھت، گلیارہ، اور ستون سب آرٹ کے ہیروں سے سجے سنورے ماحول کو رنگین اور چینی ثقافت کی بھر پور نمائندگی کر رہے تھے ۔ ماں بیٹی نے کچھ وقت وہاں گزارا ۔
مخالف سمت جانے سے قبل ٹیرس پر کھڑے اس بے حد خوبصورت جوڑے کے پاس رکی تھی۔خوبصورت لڑکانابینا تھا ۔ چھڑی ہاتھ میں پکڑی آنکھوں پر سیاہ شیشوں کی عینک لگائے اپنی دل کش ساتھی لڑکی کا ایک ہاتھ تھامے یہاں اس کی آنکھوں سے سیر کا لُطف اٹھانے آیا تھا۔عمران نے چینی میں باتیں کیں تو سمجھ آیا کہ یہ محرومی ایک حادثے کی دین ہے۔ تاہم پُراعتماد بیوی کی محبت سے مالامال ہے جس نے اُسے امید بھری زندگی دی ہے۔ حوصلہ اور اُمنگ سے نہال کیاہے۔

یہ محبت بھی کیا چیز ہے؟ مشکل اور صبر آزما لمحوں میں ڈ گمگانے نہیں دیتی ہے۔

سامنے بہت بڑے بورڈ پر گریٹ وال کی مختصر تاریخ درج تھی۔ تھوڑی دیر رک کراُسے پڑھا ۔ماضی بعید ،ماضی اور حال سبھوں کاتذکرہ بڑا فخر اور امتیاز لیے ہوئے تھا۔سمجھدار قوموں کے پاس کچھ ہو تو وہ اس کی حفاظت کرتی، اُسے سجاتی،سنوارتی اور پیش کرتے ہوئے ایک گونا مسرت محسوس کرتی ہیں۔اب اپنے کیا بخیئے اُدھیڑوں۔

چڑھائی پھر شروع ہوئی۔پہلی حفاظتی برجی تک پہنچی ۔اس سے اوپر پھر سیڑھیاں تھیں۔وہ بھی دھیرے دھیرے کہیں بیٹی، کہیں عمران کا ہاتھ پکڑے،کہیں خود ہمت کرتے چڑھتی گئی۔چڑھتی گئی حتیٰ کہ پھر حفاظتی برجی سے کشادہ آنگنائی میں آگئی۔چھوٹا سا آنگن جس کی دیواروں سے جھانکتے ہوئے نیچے کے دلفریب منظر،آسمان کا وسیع و عریض پھیلاؤ دیکھا۔
یکدم رکی۔آسمان پر بکھری فسوں خیزی نے جیسے میرے قدموں کو ساکت کردیا تھا۔ایک پاؤں اوپر کے پوڈے پر دوسرا نچلے پرجب مجھے ماؤ کی دو خوبصورت نظمیں یاد آئیں۔ذرا دیکھیے نا۔
پہاڑوں کی چوٹیاں جیسے
سبز آسمانوں میں کُبھی ہوئی ہیں
آسمان گر جاتا
اگر چوٹیوں نے اُسے تھاما ہوا نہ ہوتا

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply