• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • سفر نامہ
  • /
  • میں تو چلی چین/دیوارِ چین- چینی ثقافت و کلچر کا نمائندہ، اس کا لینڈ مارک اور تاریخی ورثہگ(قسط4-ب) -سلمیٰ اعوان

میں تو چلی چین/دیوارِ چین- چینی ثقافت و کلچر کا نمائندہ، اس کا لینڈ مارک اور تاریخی ورثہگ(قسط4-ب) -سلمیٰ اعوان

میں اپنے گھوڑے کو کوڑا مارتا ہوں
اور نیچے نہیں اترتا
حیرت زدہ سا پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں
آسمان تو صرف تین فٹ پرے ہے
واقعی ایسا ہی تھا۔جیسے ہاتھ بڑھاؤں گی تو چھولوں گی۔دیر تک اس منظر سے لطف اٹھایا پھر آگے بڑھی۔ایک جانب کی سیڑھیاں ذرا نیچے ٹمپل میں لے جاتی تھیں۔اس جانب ابھی قدم بڑھائے ہی تھے جب عمران نے ہاتھ پکڑ لیا اور بولا ۔اُوپر چلنا ہے۔اب پھر سیڑھیاں تھیں،برجی تھی۔
پھر ایک اور دل کش منظر تھا۔رنگ رنگیلا پگوڈا سٹائل کا کمرہ آرٹ کا شاہکار سامنے چھوٹا سا صحن پھر سیڑھیاں جو یقیناً کسی اور خوبصورت سے منظرکا دروازہ کھولتی تھیں۔یہاں بینچ تھے۔ جن پر سستانے کے لیے بیٹھ گئی۔تھوڑے سے بادام اور پستہ لیا۔
یہیں ایک چینی خاندان بیٹھا تھا۔خاکروب صفائی کررہا تھا۔اُسے تھوڑا سا ڈرائی فروٹ دینے کی کوشش کی۔خوشی ہوئی۔۔بہت شائستگی اور آنکھوں میں ممنونیت کے جذبات سے انکار کیا۔عمران موٹے موٹے دانوں والی اُبلی ہوئی چھلّی لے کر آیا ۔وہ بھی دینے کی کوشش کی۔ پھر انکارہوا۔
‘‘یہ کیسی رجی پُجّی قوم ہے۔ خود سے کہتی ہوں۔بھری نیتوں والے لوگ ہیں۔انہوں نے تو اس مثال کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں کہ غریب کتنا بھی امیر کیوں نہ ہوجائے اس کے اندر سے غریبی نہیں نکلتی۔ان سے زیادہ غریبی کس قوم نے دیکھی ہوگی۔ان سے زیادہ فاقے کن لوگوں نے کیے ہوں گے مگر دیکھیں تو ذرا۔ پیٹ کے بھرے ،نظر کے بھرے ہوئے،ہاتھوں کے سوچا ری۔’’

میں سامنے صحن کو دیکھتی تھی۔ کہیں کوئی کاغذ کا ٹکڑا، چھوٹا موٹا بکھرا ہوا کوئی تنکا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ہر پندرہ منٹ بعدوہ کوچی فرش پرپھیرنے لگتا۔
اب چھلّی کھاتے ہوئے پھر ماؤ کی نظم پڑھنے لگی ہوں۔
اٹھو اٹھو۔غلام نہیں بنے رہنا
وہ لوگ جو غلام نہیں بنے رہنا چاہتے
ہمارے خون اور گوشت سے فائدہ اٹھائیں
ہمیں نئی عظیم دیوار بنانی ہے

تھوڑا تازہ دم ہو کر کھڑی ہوگئی ہوں۔ اپنے سامنے21196کلومیڑ اس شاہکار کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو جو کسی خوفناک اژدھے کی مانند نظر آتاہے کو دیکھتے وقت کے اندھیرے اجالوں میں ڈوبتے ہوئے خود سے سوال کرتی رہی ۔دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھتی رہی۔پڑاؤ آیا تھا،رکنا پڑا۔
دائیں ہاتھ ٹورسٹ شاپ تھی۔ شاپ کیا تھی؟ آرٹ کا نمونہ تھی۔ایک شاہکار تھی۔ چینی نوادرات سے بھی سجی ہوئی تھی۔قیمتیں پوچھیں۔ ۔ باوا کے مول کی تھیں ۔ فی الفورتوجہ اِس کی چھت کی نقاشی جانب ہوئی۔ اِدھر اُدھر تھوڑی سی ہِل جُل، تھوڑی سی دل پشوری کی ۔۔باہر نکلی ۔ سامنے بہت بڑا میدان سیاحوں سے بھرا پڑا تھا۔آمنے سامنے کھانے پینے کی دکانیں۔دور فاصلے پر درختوں اور دیوار کے عقب میں پارکنگ ایریا میں کھڑی دیوہیکل ٹورسٹ بسیں۔
خوشگوار میٹھی سی دھوپ،ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور لوگوں کا بھریا میلہ۔یہاں اگر غیر ملکی تھے تومقامی لوگوں کی بھی کثرت تھی۔ویسے تو ملک بھی بڑا اور آبادی توماشاء اللہ خیر سے نظر لگنے والی ۔اگراپنے ہی نکل آئیں تو کسی غیر کو چپّہ بھر کھڑے ہونے کو جگہ نہ ملے۔

سعدیہ کافی لے آئی تھی۔ ایسے خوبصورت لمحوں میں کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ پینااور اِس ماڈرن چین کے بانی ماؤکی اس کہاوت کو یاد کرنا کہ جس نے عظیم دیوار نہیں دیکھی وہ تو سچا انسان ہی نہیں کس قدر مسرور کن عمل تھا۔

سچ تو یہی ہے کہ یہ چینیوں کی ثقافتی زندگی میں ایک سمبل ، دنیا کے عجائبات میں ایک بے مثل تعمیری نمونہ اورچینیوں کے عزم و حوصلے کا ایک جیتا جاگتا شاہکارہے ۔

اس وقت یہ چین کے لینڈ مارک ،اس کے آئی کون کے طور پر اُبھر کر بہت نمایاں ہوئی ہے ۔ یہ ماضی میں دفاعی مضبوطی کا باعث تھی۔ زمانوں سے، صدیوں سے اس قوم کی طاقت اور اُن کے استحکام کے اظہار کا ذریعہ تھی ۔ اس نے اس سوچ اِس احساس کو تقویت دی کہ بڑی کامیابیاں مشترکہ کاوشوں اور مضبوط قوتِ ارادی سے ہی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال چینیوں کے اس قومی ترانے سے بھی ملتی ہے جو 1937سے 1945 کی جاپانیوں کیخلاف دفاعی جنگ میں کمپوز کیا گیا تھا ۔
کہ اب نئی عظیم دیوار ہمارے گوشت اور خون سے تعمیر کرو ۔

اس کا ایک اور حد درجہ متاثر کُن کردار اپنی شاعری، اپنی نثر، اپنے محاوروں،اپنی کہاوتوں اور اپنی ضرب المثال سے چینی ادب اور ثقافتی ورثے کو مالا مال کرنے کی صورت میں بھی سامنے آیا ہے ۔
چین کبھی ناکام نہیں ہو گا
اور عظیم دیوار کبھی نہیں گرے گی

تو یہاں مجھے پیٹرزبرگ کا وہ بوڑھا موسیقار یاد آیا ہے۔ شہر جنگ عظیم اوّل کی تباہ کاریوں سے نڈھال اورانقلاب کی خون ریزیوں سے خستہ حال ہوچکا ہے۔اِن دنوں شہر پر بمباری شدت اختیار کرگئی ہے۔ سرخ فوج لینن کے حکم پر بوڑھے موسیقار کو شہر چھوڑنے کا کہتی ہے۔وہ پیانوکیkeysپر انگلیاں رکھتاہے۔دل کو چیر دینے والی دُھنیں فضا میں بکھر جاتی ہیں۔
‘‘سنو وہ کہتا ہے اگر میں چلا گیاتو فصیلِ شہر گر جائے گی۔’’
سالہا سال بعدجنگ عظیم دوم میں پیٹرزبرگ جو پہلے پیٹرو گراڈ پھرلینن گراڈبن گیا تھا۔ ایک بارپھر جنگ کی ہولناکیوں کا سامنا کررہا تھا۔سرخ فوج پھر بوڑھے موسیقار کو شہر چھوڑنے کا کہتی ہے۔ اس کی بوڑھی انگلیاں پھر پیانو کی keysکوچُھوتی ہیں اور وہاں وطن کی سلامتی اور اس کی عظمتوں کے نغمے پھوٹ نکلتے ہیں۔
سنو میں چلا گیا تو یہ فصیل شہر گر جائے گی۔
یہ وطن اس کی محبت، اس کے ساتھ گندھے چاہتوں اور عقیدتوں کے رشتے کیسے
کیسے معجزوں کو تخلیق کرتے ہیں۔تم جاننا چاہتے ہو تو لو سنو۔
عظیم دیوار کہاں ہے
یہ تو لوگوں کے دلوں میں بستی ہے ۔

سچ تو یہ ہے کہ اس کی باقیات، اس کی نشانیاں، اس کی قلعہ نما کوٹھڑیاں ، اس کی برجیاں ،اس کے سگنل ٹاورز اور رکاوٹی دیواریں صرف اینٹ ، چونے، پتھروں کا آمیزہ ہی نہیں ان میں چین کی طویل ثقافتی زندگی کی جھلک بھی ملتی ہے ۔
طرز تعمیر کے امیرانہ قابل فخر قومی ورثے جس میں بیک وقت آرٹ کی فنکاریاں، رنگوں کی بوقلمونیاں اور حسن کے لشکاروں کی دلفریبیاں دامن دل کو پکڑ پکڑ کر کہتی ہیں۔
‘‘ کہاں جاتی ہو بیٹھو یہاں اور دیکھو ہمیں ۔ ’’

تاریخ بتاتی ہے کہ کیاسلطنتیں، کیا بادشاہتیں ، کیاعام و خاص ،کیا امیر و غریب سبھوں نے اس میں اپنا اپنا حصّہ ڈالا۔ اورآنے والی نسلوں اور حکمرانوں کو بتایا کہ انہیں بھی اس قومی ورثے کو چار چاند لگانے ہیں تاکہ دنیا چین اور چینی لوگوں کی عظمت کو سمجھ سکے۔ اس کے سب سے مشہور اور خوبصورت حصّے پہلے چینی بادشاہ 220-206 قبل مسیح ہی میں بنے۔ موجودہ حصّے منگ اور Qing سلطنتوں کے مرہونِ منت ہیں ۔

فضا میں جیسے یکدم ہی بہت سے قہقہوں کی پھلجھڑیاں پھوٹیں۔شور ہنگامہ دو بسیں دیوار پار کے پارکنگ ایریا میں آکر رکی تھیں۔ کائنات کی رنگا رنگی سارے میدان میں بکھر گئی تھی۔ ماحول رنگین تو پہلے ہی تھا۔ اب تو گویا چار چاند لگنے والی بات ہوگئی تھی۔بھانت بھانت کی بولیاں ہوا میں بکھر رہی تھیں۔
انڈونیشیا اور ملائشیا کے ٹولے تو باقاعدہ پھڑپھڑاتے جھنڈوں تلے لام ڈور کی صورت نظر آئے تھے۔سچی بات ہے حج کے دنوں کی یاد تازہ ہوگئی تھی۔نیوزی لینڈ اور جرمنی کے چقندر رنگے جب ہنستے کھلکھلاتے میدان میں داخل ہوئے۔ ہمارے قریب آکر موٹی موٹی عورتیں بیٹھیں۔سچی بات ہے انہیں خاموش نظروں سے دیکھنا بھی دلچسپ شغل تھا۔ افریقہ والوں کی بھی پوری بس خالی ہوئی تھی۔وہ تو خیر سے ‘‘آپ اپنی پہچان ہیں ہم’’کے مصداق بندے کو کِسی قسم کے مغالطے میں پڑنے ہی نہیں دیتے۔کھلا کھلا اشتہار ہیں۔

ہمارے سامنے ایک چینی خاندان آکر بیٹھ گیا تھا۔ میاں بیوی ایک بچہ نانا نانی۔ تین سال کا بچہ چار بڑوں کا وہ کھلونا تھا جس کے ناز اٹھاتے وہ سرشاری میں ڈوب ڈوب جاتے تھے۔ عمران بتا رہا تھا کہ چین میں خاندانی نظام کی بنیادیں بہت گہری ہیں۔والدین کا بہت خیال اور احترام کیا جاتا ہے ۔چونکہ بچہ ایک ہی پر پابندی تھی اس لیے اس میں دادا دادی،نانا نانی، ماں باپ کی جان ہوتی ہے۔کِسی چھوٹی موٹی بیماری میں بچہ اگر اسپتال جاتا ہے تو ساتھ چار بندوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔

میں نے دائیں جانب دیکھا ۔بہت دور چوٹی تک عمودی سیڑھی پر ایک ابنوہ امنڈا پڑا تھا۔
میرے قریبی بینچ پر ایک نوجوان آکر بیٹھا ہے جس کے ہاتھوں میں ایک بڑی سی کتاب تھی۔ کتاب پر ایک ایسے منظر کی جھلک نظر آئی جس نے مجھے بے کل کردیا ۔ میں فی الفور اٹھ کر اس کے پاس گئی اور اُسے چند لمحوں کے لیے کتاب دینے کی درخواست کی۔ بیبا بچہ ہی لگتا تھا کہ کسی قسم کا کوئی سوال جواب کے بغیر کتاب میرے ہاتھوں میں تھما دی۔یہ ایک پکچر بُک تھی ۔
ٹائٹل پر گُنگ کرنے والا ،دل کو تھامنے والا ایک منظر جگمگا رہا تھا۔ عظیم دیوار کے سمیتائی Simataiحصّے کا ایک سین ۔کتاب کو کھولا ۔اندر کے دونوں صفحوں پر پھیلے ٹائٹل کور والے منظر کے ساتھ چار پانچ لائنوں کا تعارف بھی درج تھا۔صفحات سین کی چھوٹی سی چھوٹی تفصیل کو اُجاگر کررہے تھے ۔ گویا فوٹو گرافر کے کمال فن کی داد رہے تھے گویا تخلیق کار کے گیت گا رہے تھے۔
عظیم دیوار کا یہ سیمیتائی Simataiوہ حصّہ تھاجو بیجنگ کے نزدیک منگ سلطنت کے زمانے میں بنایا گیا ۔یہ ایک دلنواز سُر کی طرح آپ کے اندر کو زیر و زبر کرتا اور کسی بے انتہا خوبصورت گیت کی لے کا سا تاثر دیتا ،دھڑکتی سانسوں کو منجمند کرتا ہوامحسوس ہوتا ہے ۔

ایک کہاوت بھی درج تھی کہ سمیتائی کا یہی وہ عمودی حصّہ ہے جو عظیم دیوار کا حیرت انگیز عجوبہ ہے ۔یہ پہاڑوں کی ڈھلانی پاتال سے اوپر اٹھتا، پہاڑوں کی چوٹی تک جاتا اور وہاں سے پھر عمودی صورت وادیوں میں گرتاہے ۔میں نے ورق پلٹا۔ اگلا منظر پچھلے والے کو مات دے رہا تھا۔کچھ حصّے ایسے تھے جو رات کے عکاس تھے جنہیں دیکھتے ہوئے بندہ کائنات کے تخلیق کار کی صناعی پر عش عش کر اُٹھتا ہے ۔۔نام بھی تھے ۔کہیں‘‘ بادلوں کی سیڑھی’’ اور کہیں ‘‘جنت کا پُل’’۔ہونٹوں پر ہنسی بکھری۔ دونوں صفحوں پر بکھرا ہوا سین آنکھیں پھاڑتا اور سوال کرتا تھا۔
‘‘تو یہ جنت کو مانتے ہیں۔ پل صراط سے گزر کر ہی بندہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔’’
بادلوں کی سیڑھی والا حصّہ بہت تنگ نظر آتا تھا۔ اور اس کی مشابہت من و عن سیڑھی ہی کی طرح تھی۔ جس پر چڑھ کر جنت کے پُل پر پہنچا جاتا ہے۔ پار گہری وادیاں تھیں ۔
اگلا صفحہ پلٹا۔منظر پھر دونوں صفحوں پر پھیلا ہوا تھا۔
دیوار کے اِس Huanghuachengوالے حصے کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔ منگ کے زمانے کا یہ حصّہ ٹاؤنJiudureمیں واقع ہے۔بیجنگ سے کوئی 65کلومیٹرپر یہ قدیمی حصّہ خوبصورت جھیل کے گرد واقع ہے ۔ گرمیوں میں یہ جنگلی پھولوں سے بھر جاتا ہے۔اسے نام بھی یہی دے دیا گیا ہے ۔

Huanghuacheng کا مطلب پیلے پھولوں کا شہر ہے ۔ کیا منظر تھا ؟ لاہور اپریل مئی میں املتاس کے پھولوں سے بھرا کس قدر خوبصورت لگتا ہے ۔ کچھ ایسا ہی منظر اُس وقت میرے سامنے تھا کہ جس نے نگاہوں کو ساکت کر دیا تھا ۔ پھولوں اور شاہ بلوط سے بھرا ہوا ۔

سچی بات ہے اِسی جگہ کے دو منظر اگلے صفحات پر بھی تھے ۔ ایک میں یہ ڈریگون کی طرح نظر آیاجو نیلے آسمان کی وسعتوں میں پرواز کرنے والا ہو ۔ دوسرے میں قلعہ کا منظر تھا ۔ YaoZiyu اس قلعے میں سکالرنامی درخت جسے چھونے سے برکتیں ملتی ہیں۔میں نے چار سطروں والے حصے فوراً موبائل میں قید کیے اور آگے بڑھنے کے لئے ورق پلٹے ۔

میری تو آنکھیں پھٹ گئیں ۔ دونوں صفحوں پر پھیلے ایسے منظر تھے کہ خوبصورت آرٹ ورک ہیروں کی طرح جگمگا رہا تھا ۔ یہ حصّہ دیوارJinshan کے چھوٹے بڑے پہاڑوں پر بنی ہوئی ہے ۔ جو Luanping اورMiyun کے درمیان حد فاصل ہے ۔ اس کے واچ ٹاورز اور وہ بھی انواع و اقسام کے ، خطاطی والی اینٹیں کیا کمال کی چیزیں تھیں ۔

واچ ٹاورز کی تعمیری انفرادیت، وہ بھی مختلف النوع اوپر سے یوں لگتے تھے جیسے روشنی کے مینارہوں ۔ سنگلاخ پتھروں میں سے جھلکیاں مارتا شاہانہ کروفربندے کو سحر زدہ کرتا تھا۔
کتاب اور اِس کے تصویری منظروں نے مجھے اپنے آپ میں جکڑ لیا تھا ۔ سچی بات ہے میں تو گردوپیش سے بے نیاز تھی ۔

دفعتاً نوجوان میرے سر پر آکر کھڑا ہوگیا تھا۔ سارے وجود نے جیسے جھٹکا سا کھایا۔ اُسے یوں سر پر کھڑے دیکھ کر بدحواس سی احمقوں کی طرح دیکھنے لگی تھی ۔لڑکے نے کتاب لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے ۔ ملتجی نظروں سے اُسے دیکھتے اور منمناتے ہوئے التجا کی کہ وہ چند لمحے اور مجھے دیکھنے دے ۔ لڑکے نے اپنی ساتھی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ اُسے بلا رہی ہے ۔
‘‘ ہائے کیسے واپس کی ۔ کہوں گی دل پر پتھر رکھ کر ۔’’ واپس کرتے پُوچھا کہ کہاں سے خریدی تھی ۔لڑکا تو جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا۔ ایک طرح چھینتے ہوئے بھاگنے لگا تھا۔دیوار کے اس طرف کتنی دیر تو میں سوگواری ہی میں بیٹھی رہی ۔ کمبخت نے یہ بھی بتانے کی تکلیف نہیں کی کہ اس نے کہاں سے خریدی ہے ؟ چلو بیجنگ میں کوشش تو کروں گی ۔ خود کو دلاسا دیا ۔

اور جب میں اپنے سامنے دور آسمان کی نیلاہٹوں کو چھوتی اِس درّے نما دیوار کو دیکھتی تھی جس پر عشاق والہانہ انداز میں چڑھتے نظر آتے تھے ۔ مجھے کچھ عرصہ قبل پڑھی ہوئی ایک نظم یاد آئی تھی ۔ یہ ایسی ہی تھی جیسی ہمارے ساحر لدھیانوی نے تاج محل پرہمارے اور اپنے جیسے لوگوں کے لیے لکھی تھی۔
اِک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
یہ بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔
چینی غلاموں کے پاس
اپنے ملک کی حفاظت کے لئے
اپنی ہڈیوں اور پٹھوں کے پتھر
توڑنے کے لئے ہی تو ہیں
یقیناً یہ عظمت کی لو دیتی بلند دیوار
ان سب کی حفاظت کرتی ہے ؟
یا شاہوں کی۔۔

اور میرے اندر نے کہا تھا۔ یہ ماؤ جیسے زیرک نے کیسی اوندھی بات لکھی۔بھلا ایسے حفاظتی حصاروں سے غریبوں کا کیا لینا دینا۔حملہ آوروں سے انہیں کیا ڈر؟نہ پیسہ پاس، نہ ہیرے جواہر،نہ قیمتی سازوسامان ۔متراں نے دو وقت کی روٹی ہی تو کھانی ہوتی ہے وہ تو مل ہی جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

باتھ روم جانے کا تجربہ بھی مزے کا تھا ۔ ہمارے ہاں کی عام فوجی بیرکوں کی طرح باتھ روم اسی انداز کے پارکنگ ایریا میں ڈھلان پر بنے ہوئے تھے ۔ ایک لمبی قطار میں کوئی پندرہ اور وہ سب کے سب زمینی ۔ ایک کا دروازہ کھولتی وہ منہ چڑاتا دوسرے کا کھولتی وہاں وہی سین ۔ تپ چڑھ گئی۔پھپھولے پھٹنے لگے۔
‘‘کمبختویہ تم محنت کشوں کے گٹے گوڈے تو سب ٹھیک ٹھاک ہی ہوں گے کہ تمہارے درد دل رکھنے والے لیڈروں نے تمہیں کھانے پینے کی خالص اشیاء دینے کی کوشش کی ۔ کسی نے اگر کوئی دو نمبری کرناچاہی تو اُسے پھاہے لگانے میں پل نہیں لگایا ۔ مگر یہ ہم بد قسمت لوگ جو اپنے عیاش اور ذات کے پُجاری حکمرانوں کے باعث ناقص غذاؤں اور جعلی دواؤں کے پُروردہ جوانی میں ہی بوڑھے ہو جاتے ہیں۔
اب تمہیں کیا بتاؤں کہ ہمارے غریب پر جوانی تو بس ایک لہر کی مانند آتی اور گزر جاتی ہے ۔ تو اب ہمارے گٹے گوڈے اِس قا بل کہاں کہ میں اِس زمینی چولہے پر بیٹھوں اور ان کا کڑاقہ بجواؤں۔بہرحال اس اوپر والے کا احسان ہی تھا ناکہ آخری ایک دانہ غالباً سوغات یا تحفے کے طور پر رکھا ہوا تھا ۔ چلو شکر شکر کہا ۔
چین زندہ با دکا نعرہ بھی لگایا ۔
جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply