ناممکنات کی طبعیات کیا ہے؟-محمدشاہزیب صدیقی

دماغ کے ذریعے کسی شے کو حرکت دینے کو سائنسی زبان میں ٹیلے کینیسس (telekinesis) کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی افسانوی قوت ہے، جس کو پانے کے خواب قدیم انسان صدیوں سے دیکھتا آیا جبکہ جدید دور کا انسان بھی اس کی کاوشوں میں مصروف رہا ہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکی فوج نے میری لینڈ میں ایک لیبارٹری قائم کی، جہاں اُن کی کوشش تھی کہ فوج کا ایک ایسا دستہ تیار کیا جائے جو محض دماغ کے قوت سے سویت یونین کو ناکوں چنے چبوا دے اور سویت یونین کے ٹھکانوں میں گھُس کر خفیہ معلومات چُرا لے۔ یاد رہے کہ اس عمل کے دوران اُن امریکی فوجیوں نے میری لینڈ کی لیبارٹری میں ہی موجود رہنا تھا لیکن اُن کی روح/شعور یہ تمام عوامل انجام دیتے۔ یہ تمام تجربات کافی خفیہ رکھے گئے عوام الناس کو ان کے متعلق تب معلوم ہوا جب سن 2017ء میں سی آئی اے نے اس پراجیکٹ سے منسلک 1 کروڑ 20 لاکھ ڈاکومنٹس پبلک کیے۔ ان کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پراجیکٹ کا نام سٹار گیٹ تھا اور پچیس سال تک یہ تجربات کیے جاتے رہے لیکن بعد ازاں تمام تجربے ناکام ثابت ہوئے، جس کے بعد اس پراجیکٹ کو محض پیسوں کا ضیاع قرار دے کر بند کردیا گیا۔ جس دوران امریکی فوج پراجیکٹ سٹار گیٹ پر پیسے اُڑا رہی تھی تو اس وقت امریکی تعلیمی ادارے پرنسٹن میں بھی کچھ تحقیقات ہورہی تھیں کہ ہمارا دماغ کسی واقعے پر کیسے اپنا اثر چھوڑ سکتا ہے؟ مثلاً اگر ہم کسی سکے کو ہوا میں اچھالتے ہیں تو اس کے ہیڈ یا ٹیل آنے کا چانس 50،50 فیصد ہوتا ہے لیکن ان تجربات میں جانچنے کی کوشش کی گئی کہ انسان دماغ کے ذریعے سکے کو ہیڈ یا ٹیل میں لانے کی کوشش کرسکتا ہے یا نہیں؟ ادارے نے 28 سال میں 17 لاکھ تجربات انجام دئیے اور سن 2007ء میں ان تجربات کو بند کردیا گیا۔ تجربات کرنے والی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہمارا دماغ واقعات کو بدلنے کی انتہائی خفیف سی صلاحیت رکھتا ہے (یعنی دس ہزار بار میں سے صرف ایک بار ایسا ہوسکتا) لیکن سائنسدانوں نے ان تجربات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اس “خفیف” سی صلاحیت کو بھی مسترد کردیا کیونکہ ان تجربات سے حاصل ہونے والے ڈیٹا پر جب کچھ سائنسدانوں نے تحقیق کی تو انہیں شک ہوا کہ ڈیٹا میں معمولی سی رد و بدل کرکے اپنی مرضی کے نتائج لانے کی کوشش کی گئی ہے، جس کے بعد ٹیلے کینیسس کے حامیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ بہرحال ٹیلے کینیسس کے حامی یہ مانتے ہیں کہ یہ عمل فزکس کے قوانین کی نفی کرتا ہے مثلاً ایک انسان ایک ہارس پاور تک انرجی پیدا کرسکتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسانی دماغ جو 0.2 ہارس پاور تک استعمال کرتا ہے، اس کے ذریعے آپ کسی دیوہیکل بحری جہاز کو ہِلا دیں؟ اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ مختلف سائنسی نظریات یہ پیشنگوئی کرتے ہیں کہ کائنات میں چار بنیادی قوتیں موجود ہیں۔ پہلی قوت سٹرانگ نیوکلئیر فورس ہے جو ایٹم کے نیوکلئیس میں ایک ہی چارج کے حامل پروٹانز کو باندھ کر رکھتی ہے۔ دوسری قوت ویک نیوکلئیر فورس ہے، جس کی وجہ سے ایٹمز میں بِیٹا ڈیکے ہوتا ہے اور تابکاری خارج ہوتی ہے۔ تیسری قوت گریوٹی جبکہ برقی مقناطیسی فورس کائنات کی چوتھی بنیادی قوت ہے یعنی کائنات کا نظام ان چار قوتوں سے ملکر چل رہا ہے۔ یہاں پھر اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم دماغ سے پیدا ہونے والی قوت کو ان میں سے کہاں فِٹ کریں گے؟ الغرض بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ٹیلے کینیسس کے نہ ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔
نوٹ: اس مضمون کو ترتیب دینے کے لئے میچیو کاکُو کی کتاب “ناممکن کی طبیعات” سے مدد لی گئی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply