کاربن ایمیشن اور علاقائی اثرات/محمد ہاشم

عصر حاضر میں گلوبل وارمنگ بلاشبہ دنیا کے لئے سب سے اہم اور قابل فکر مسئلہ ہے۔ دنیا ایک اوون کی شکل اختیار کر رہی ہے اور انسان اس میں آہستہ آہستہ گلتا جا رہا ہے۔ سمندروں کی سطح اوپر آنے سے کئی ساحل اور جزائر پانی میں ڈوب گئے ہیں اور جزائر مالدیپ، جزائر غرب الہند (کیریبین جزائر) سمیت کئی ممالک کو اپنی بقا کی فکر لاحق ہو رہی ہے۔

گلوبل وارمنگ کی سب سے بڑی اور اہم وجہ کاربن ایمیشن ہے۔ جس کی وجہ سے گرین ہاؤس ایفیکٹ پیدا ہورہا ہے اور دنیا کا درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ درجہ حرارت میں اس خطرناک اضافے کی وجہ سے گلیشیئرز پگھلنے لگے ہیں اور سمندروں کی سطح میں غیر معمولی اضافے کے ساتھ سمندروں کے درجہ حرارت میں بھی اصافہ ہورہا ہے۔ بارشوں، ہیٹ ویوز اور قحط سالیوں سے انسانی بقا کو خطرات لاحق ہونے لگے ہیں۔

کاربن ایمیشن میں سب سے اہم کردار فوسل فیول (پیٹرولیم مصنوعات، گیس، کوئلہ) کے  استعمال کا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ انڈسٹریز میں استعمال ہونے والے یہ عوامل جس قدر اہم ہیں اتنے ہی خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹیشن، ہیوی انڈسٹری اور بجلی کی پیداوار میں سب سے زیادہ فوسل فیول کا استعمال ہوتا ہے اور یہی عوامل سب سے زیادہ کاربن ایمیشن کا باعث بن رہے ہیں۔

دنیا میں کاربن ایمیشن کے حصہ داروں میں پہلے نمبر پر چین دوسرے پہ امریکہ اور تیسرے پہ انڈیا ہے۔ چائینہ دنیا کے کاربن ڈائی آکسائڈ کی پیداوار کا تقریباً 30 فیصد حصہ دار ہے اور امریکہ کا حصہ تقریباً 15 فیصد ہے۔

چائینہ اس وقت دنیا میں ایک بہت بڑی معاشی طاقت بن کر ابھرا ہے جس کی پیداواری انڈسٹری کا حجم اتنا بڑا ہے کہ ستمبر 2022 میں چائینہ نے دنیا کو 323 بلین ڈالر کی مصنوعات بر آمد کی ہیں۔ دنیا کی بڑی انڈسٹریز اور کئی ملٹی نیشنل کمپنیز یورپ اور امریکہ سے چائینہ شفٹ ہو چکی ہیں جہاں ان کو سستی انرجی اور سستی افرادی قوت میسر ہے۔ چائینہ دنیا بھر کے لئے پلاسٹک کے سلپرز سے لے کر جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعات اور ہیوی مشینری تک تیار کر کے بیچ رہا ہے اور ان کے سرفہرست خریداروں میں جنوبی کوریا، جاپان اور امریکہ شامل ہیں۔ یورپی ممالک یہاں تک کہ انڈیا جس کی چائینہ سے شدید چپقلش ہے وہ بھی چائینہ سے اربوں ڈالرز کی مصنوعات خرید رہے ہیں۔ چائینہ دنیا کی جی ڈی پی میں تقریباً 18 فیصد کا حصہ دار ہے۔ اس قدر بڑی پیداواری انڈسٹری اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی کے ہوتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائڈ کی پیداوار میں پہلا نمبر چائینہ کا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

چین اپنی اس معاشی ترقی اور پیداواری طاقت میں اضافے کے نشے میں جس قدر انرجی کا استعمال کر رہا ہے اتنی ہی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یورپ اور امریکہ جتنی چیزیں چین سے خریدتے ہیں اگر وہ خود بنانے لگیں تو ان کے کاربن ایمیشن کا انڈیکس چین کو پیچھے چھوڑ دے۔

چین کے علاؤہ بھارت کی بڑھتی ہوئی آبادی، وہاں کی انڈسٹری اور انرجی کی پیداوار کے لئے استعمال ہونے والے فوسل فیولز سے بھی آلودگی میں بے تحاشا اصافہ ہو رہا ہے۔ بھارت میں بڑی انڈسٹری اور بجلی کے پیداوار کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور زراعت کا شعبہ بھی کاربن ڈائی آکسائڈ کی پیداوار میں اصافے کا باعث بن رہے۔

پاکستان کی ہمسائیگی میں دو ممالک چین اور انڈیا واقع ہیں جو دنیا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی پیداوار میں پہلے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔ ہم جہاں دو اطراف سے اوون کے دہکتے راڈز میں پک رہے ہیں وہاں پچھلے کئی سالوں سے ہم نے اپنے ملک کو اندر سے بھی بھٹی کی طرح دہکانا شروع کیا ہوا ہے۔ درختوں کی بے بہا کٹائی کی وجہ سے جنگلات میں خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ ہم دنیا کے ان ممالک میں سے ہیں جو فی کس آبادی کے حوالے سے سب سے کم جنگلات پر مشتمل رقبہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاؤہ دنیا جہاں انرجی کے حصول کے لئے سولر انرجی اور الیکٹرک ٹرانسپورٹ کی طرف جا رہی ہے وہاں ہم اب بھی کوئلے والے پاور پلانٹس اور خستہ حال فرسودہ نرانسپورٹ سسٹم کا استعمال کر رہے۔ ساہیوال کا کوئلے کا پاور پلانٹ لاہور سمیت بھارتی پنجاب تک ہوائی آلودگی پھیلانے کا باعث بن رہا ہے۔ اس سال ہم نے اپنی تاریخ کے ایک بہت بڑے سیلابی آفت کا سامنا کیا اور آدھا ملک اس سیلاب سے شدید متاثر ہوا۔ ہمارے گلیشیر پگھل رہے جس سے میٹھے پانی کے ذخائر میں کمی کے ساتھ بے وقت کے سیلابی ریلے جانی اور مالی نقصان کا باعث بن رہے۔

یہ سچ ہے کہ ہم بھارت اور چین کے ہمسائے ہونے کی وجہ سے بھی اس آفت سے متاثر ہو رہے لیکن ہم اپنی طرف سے اقدامات اٹھا کر اس مصیبت سے اپنے آپ کو کافی حد تک محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بھوٹان کی مثال لے لیں جو دنیا میں شاید ان چند ممالک میں سے ہیں جو کاربن نیگیٹیو ہے۔ چین اور انڈیا کے ساتھ ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو اس آفت سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ جنگلات کی حفاظت اور اضافے پر بھرپور توجہ دینے کے لئے اپنے قوانین تک میں اس نقطے کو شامل کیا اور آج بھوٹان اپنے جنگلات اور جنگلی حیات کو مذہبی حد تک محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

گلوبل وارمنگ ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لئے انفرادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر ہنگامی اقدامات اٹھانا نہایت ضروری ہے۔ دنیا کے وہ لوگ اور وہ ممالک جو اس مسئلے سے نظریں چراتے ہیں ان کے لئے بارباڈوس کی وزیر اعظم “میا موٹلی” کا کلائمیٹ چینج کانفرنس میں کی گئی تقریر کا وہ جملہ بانگ درا ہے جس میں وہ کہتی ہے کہ تم میں سے جس کسی کو بھی لگتا ہے کہ وہ محفوظ ہیں تو ان کو کورونا وائرس کے حالات سے سبق سیکھنا چاہئے کہ دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہیں جہاں آپ دنیا کی ترقی میں حصہ دار ہیں وہاں آپ کو آفات اور مسائل کا بھی نہ چاہتے ہوئے بھی حصہ بننا پڑے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply