سماج (2) ۔ معاشرے/وہاراامباکر

آگے بڑھنے سے پہلے ایک سوال۔ سماج آخر ہے کیا؟

سماج افراد کے گروہ ہیں جو نسل در نسل ساتھ رہتے ہیں۔ کسی سماج کا ممبر ہونا انتخاب نہیں۔ کسی بیرونی ممبر کے لئے اس میں داخلہ مشکل سے ہوتا ہے۔ اپنے حلیے، لہجے، رویے، اشاروں کے علاوہ ہوٹل میں ٹِپ دینے سے لے کر جانوروں کے بارے میں خیالات جیسی چیزیں بھی فرق کا فوری بتا دیتی ہیں۔

ہماری اپنی سوسائٹی کے ساتھ تعلق وفاداری کا ہوتا ہے۔ ہم اس کے لئے لڑتے بھی ہیں، مرتے اور مارتے بھی ہیں۔ لیکن اپنی روزمرہ کی زندگی میں یہ شاذ ہی کبھی نمایاں ہوتا ہے۔ ہم سیاسی جماعتوں کی رکنیت لیتے ہیں، کتابوں کے کلب، کھیلوں کی ٹیم یا دیگر انجمنوں کا حصہ بنتے ہیں۔ کسی بھی بنیاد پر گروہ بندی ہماری فطرت ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ سماج بھی چلتا رہتا ہے۔ یہ نمایاں اس وقت ہوتا ہے جب اس کے لئے مشکل وقت ہو یا کوئی فخر والا واقعہ۔ کوئی جنگ، آفت، حملہ، بڑے لیڈر کی موت، بڑی کامیابی۔۔۔ لیکن عام دنوں میں بھی یہ ہمارے خیالات پر اثر رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور یہاں پر ایک بڑا سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا سماجی شناخت کی بنیاد پر بنے اپنے اور foreigners کے لیبل لازم ہیں؟ کیا باہمی رقابت یا شناخت کی بنیاد پر الگ سمجھے جانا فطری ہے؟
یہ وہ سوال ہیں جو بائیولوجی، نفسیات، اینتھروپولوجی میں اٹھائے جاتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ جس طرح جانداروں کا اپنا لائف سائیکل ہے، ویسے ہی معاشروں کا بھی۔ انسانی گروہ قدیم ہیں۔ اور یہ گروہ صرف انسانوں کے ساتھ خاص نہیں۔ گروہ بندی کے بارے میں انسانی سماج کی طرز کے گروہ باقی جانداروں سے کچھ جدا ہیں لیکن قدرتی دنیا ہمیں گروہی رویوں کے بارے میں بصیرت دیتی ہے۔ جانداروں کے گروہی رویے نیچرل سائنس میں زیادہ سٹڈی نہیں کئے جاتے رہے لیکن چیونٹیوں سے لے کر وہیل تک قبائلیت پسندی عام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الگ نسلوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والوں کا ایک ہی سوسائٹی کا حصہ بن جانا ۔۔ یہ جدت زراعت کے دور کے بعد آئی۔ قدیم طرزِ زندگی کے لوگوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اور اس نے بڑے معاشروں اور تہذیبوں کا وجود ممکن کیا۔ الگ نسلی اور لسانی گروہوں کا اکٹھا ہو جانا ہمارے لئے ہمیشہ آسان نہیں رہا۔ ہمارے فرق کئی بار بڑے سانحوں کا باعث بھی بن جاتے ہیں۔ نسل کشی، فسادات، قتلِ عام، ہولوکاسٹ ۔۔۔ ایک سوسائٹی کے اندر کے گروہوں کے بدترین ٹکراؤ اسی گروہ بندی کا نتیجہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچرل دنیا میں گروہی خاصیتیں دلچسپ ہیں۔ مثلاً، افریقی ہاتھی سوسائٹی بناتے ہیں لیکن ایشیائی ہاتھی ایسا نہیں کرتے۔ اور انسانوں کی سوسائٹی جس جاندار سے سب سے قریبی مماثلت رکھتی ہیں، وہ جانور نہیں جو ہمارے ساتھ جینیاتی مماثلت رکھتے ہیں۔ ٹریفک کے قوانین، پبلک hygiene، اسمبلی لائن پر کام کرنا، محنت کی تقسیم۔۔۔ یہ کیڑوں کے سماج ہیں۔
جارج برنارڈ شا نے کہا تھا، “حب الوطنی بنیاد طور پر یہ یقین ہے کہ ایک ایسا ملک ہے جو دنیا میں خاص ہے کیونکہ آپ اس میں پیدا ہوئے ہیں”۔ کیا اپنے معاشرے کے ساتھ بندھن انسان ہونے کا حصہ ہے؟ ہم اپنے گروہ سے تعلق نہ رکھنے والوں سے محتاط رہتے ہیں۔ یہ ہماری نوع کی خاصیت ہے۔ ہم نے چھوٹے گروہوں سے بڑھ کر وسیع ممالک بنا لئے ہیں۔ لیکن اپنے اور پرائے کے بارے میں ہمارا رویہ تبدیل نہیں ہوا۔ ہم باہر والوں سے دوستی کر سکتے ہیں لیکن ان کی شناخت foreigner کی ہی رہتی ہے۔
ہمارے لئے اس شناخت کی نوعیت جامد نہیں۔ لیکن اس حقیقت کو تسلیم نہ کرنا خود اپنی فطرت کا انکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشروں کی سٹڈی کا کوئی اکیڈمک شعبہ نہیں اور نہ ہی جلد ایسا ہونے کا امکان ہے۔ یہ بائیولوجی، نفسیات، فلسفے، سماجیات، اینتھروپولوجی اور تاریخ کے شعبوں میں بٹا ہے۔
تاریخ کے ماڈرنسٹ علماء اقوام کو جدید فینامینا سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں۔ اس کی جڑیں قدیم ہیں۔
کئی اینتھروپولوجسٹ اور سوشیولوجسٹ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایسا سمجھتے ہیں کہ سماج کے بغیر رہا جا سکتا ہے۔ اور سماجی تعلقات باہم فائدے کیلئے اپنے مرضی سے استوار کئے جاتے ہیں۔
لیکن نہیں، سوسائٹی کا رکن ہونا ہمارے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا رفیقِ حیات کا ملنا یا بچے سے محبت ہونا۔ یعنی اس کے ساتھ گہرے تعلق کے بغیر زیادہ سے زیادہ بھی ادھوری زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرین کے تنازعے ایک طرف، ہم اپنی سیاسی اور سماجی وابستگیوں کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھ کر خود سے آگاہ ہو سکتے ہیں اور اپنے باریک اور غیرشعوری تعصبات سے بھی۔ اور دوسروں سے بھی۔ اور یہ ہماری روزمرہ زندگی میں دوسروں سے معاملہ کرنے کیلئے ایک مفید مہارت ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply