سِمسن جاوید کی صحافتی خدمات/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

کچھ نام اپنی ذات و عرفان میں معتبر ہوتے ہیں۔ان کی ہمہ گیریت کا راز فن و شخصیت اور محنت شاقہ کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔دنیا میں کوئی بھی انسان ماں کے پیٹ سے عزت ، شہرت ، دولت اور ناموری لے کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ اسے دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ہی حاصلات و ثمرات کے لیے تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ وقت اور حالات جیسے جیسے اسے آگے بڑھنے کی تحریک و اجازت دیتے ہیں وہ پرورش کے مدارج اور تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوتاجاتا ہے ۔ فوق الفطرت قوت کے بغیر انسان نہ تو آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ اپنی کامیابی سے دوسروں کو متاثر کر سکتا ہے۔اسے ہر حال میں قانونی قدرت پر انحصار اور ایمان رکھنا پڑتا ہے۔

تب کہیں جا کر اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے کہ ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے الگ الگ صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔ جیسے دنیا بھر میں  مختلف مشاغل   ہیں، اسی طرح نعمتیں بھی طرح طرح کی ہیں۔

ہر انسان کا اندازِ  فکر الگ الگ ہے۔ مثلاً  کوئی فلکیات پر ریسرچ کر رہا ہے ، کوئی غذائی اجناس کی قلت پوری کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے ، کوئی میڈیسن کے علم پر شِفا کے لیے تحقیق کر رہا ہے ، کوئی سیاست کے میدان میں سرخروئی   کے لئے محنت کررہا ہے ، کوئی پرندوں اور حیوانوں کی نسلوں کو بچانے کے لئے سرگرم ہے، کوئی تخلیق تحقیق اور تنقید میں مصروف ہے۔الغرض ہر انسان کسی نا  کسی کام میں مشغول نظر آتا ہے۔ وہ شب و روز محنت کی چکی میں پسِتااور زندگی آسان بنانے کے لئے نت نئی دریافتوں کو منظر عام پر لا رہا ہے۔ ان سب چیزوں کا دارومدار اثر قبولیت اور دلچسپی کے ساتھ جُڑا  ہے۔البتہ لگن اور محنت اس چیز کا فیصلہ کرتی ہے کہ اسے کس مشغلے سے زیادہ پیار ہے۔ پھر وہی مشغلہ اس کی پہچان اور فن کو عزت و احترام دیتا ہے۔اسے کامیابی و کامرانی عطا کرتا ہے۔
اس ضمن میں تعلیم و تربیت شخصیت کی تعمیر کا سب سے بہترین پیمانہ ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ انسان کو حقوق و فرائض کا درس دے کر ایسے موڑ پر کھڑا کر دیتا ہے جہاں اس کا نام ، فن اورعزم شہرت کے گراف پر نظر آتا ہے۔ ان خوش نصیب ناموں میں سِمسن جاوید کا نام بھی تابندہ روایت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

مجھے فاضل دوست کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے وقت بے حد خوشی و مسرت محسوس ہو رہی ہے۔کیونکہ محسوسات اور جذبات کے بغیر انسان کی ہر کوشش ناکام ہو جاتی ہے۔البتہ جب قوت جذبہ انگڑائی لیتا ہے تو وہ ہر رکاوٹ اور دیوار کو مسمار کر دیتا ہے۔

میرے تجربات و مشاہدات کے مطابق فاضل دوست کی شخصیت ہمہ جہت اصناف کی عکاسی کرتی ہے۔وہ ایک نڈر صحافی ، بلند پایہ کالم نگار ، بیانیہ طرز کے کالم نویس ، ڈرامہ نگار اور شاعر ہیں۔مذکورہ صفات کے باوجود ان کی سچی اور کھری پہچان صحافت کا شعبہ ہی ہے جس کی بدولت انہیں انفرادی مقام حاصل ہے۔

اگر ان کی علمی ادبی اور صحافتی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے انسٹیٹیوٹ آف جرنلزم اسلام آباد سے بیچلر ڈگری ان جرنلزم اور بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے ایجوکیشن میں گریجوایشن کی۔

صحافت سے دلچسپی اور محبت کا عالم یہ ہے کہ 1982ء میں زمانہ طالب علمی میں ہی ماہ نامہ “سفیر شائع کرنے لگے تھے۔اسی ذوق نے انہیں محنت اور لگن کے باعث مزید لکھنے پر اکسایا۔ادب دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے وہ مزید اخبار و رسائل سے وابستہ ہو گئے۔انہوں نے زیادہ تر کالم نگار ، بطور آڈیٹر اور چیف ایڈیٹر خدمات سر انجام دی  ہیں۔ اگر ان کی صحافتی خدمت کا سفر گنا جائے تو آزمائشی عدد یعنی   40 کا ہندسہ  ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ ان چالیس سالوں میں ان کی باقاعدہ طور پر صحافتی میدان میں مشق ،محنت اور ریاضت شامل ہے۔

وہ جب تک پاکستان میں رہے زیادہ وقت صوبہ بلوچستان کوئٹہ میں گزارا۔ وہاں پر ہی اپنی علمی، ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کو فروغ دیتے رہے۔ اب ان کی صحافتی خدمات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔روزنامہ نعرہ و حق کوئٹہ / بلوچستان انچارج اقلیتی ایڈیشن 1990، بطور ایڈیٹر ماہنامہ بوئے مادر ان کوئٹہ 1998_1992، کالم نگار سب ایڈیٹر روزنامہ آفتاب کوئٹہ/ اسلام آباد ، آڈیٹر روزنامہ سورج / کوئٹہ ، چیف ایڈیٹر روزنامہ کندن/ کوئٹہ ، بطور ایڈیٹر ماہنامہ صدائے پاک دل/ کوئٹہ ، ریڈیو پاکستان /کوئٹہ ، پاکستان ٹیلی ویژن /کوئٹہ ،روزنامہ اسپیکر گجرات اور لندن کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ،کالم نگار ہفت روزہ آگاہی کراچی، کالم نگار روزنامہ جنگ لندن ( گل وخار باعنوان ) 2011 ء سے ، بانی و چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹر نیو کا سل کرسچن نیٹ ورک لندن اور ہفت روزہ کرسچئن دی نیوز الرٹس کے چیف ایڈیٹر ہیں۔

ان کے کالم سیاسی اور کرنٹ ایشوز پر مبنی ہوتے ہیں۔
وہ ایک نڈر ، بےباک ، بے لوث اور دلیر صحافی ہیں۔ انہوں نے علمی و ادبی حلقوں میں اپنی کارکردگی کے باعث اپنی پہچان خوب بنائی۔ ملکی و غیر ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ظلم اور بربریت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی ایشوز پر عقابی نظر رکھتے ہیں۔متحرک اور سرگرم صحافی ہیں۔  مختلف ویب سائٹ پر بھی باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں۔ اگر اس بات کا مذہبی، معاشرتی اور شرعی لحاظ سے موازنہ کیا جائے تو ظلم اور جبر و تشدد کسی بھی سرزمین پر ہو وہ گناہ شمار ہوتا ہے۔

ایک سچا اور ایماندار صحافی ہمیشہ صدائے احتجاج ہوتا ہے۔ وہ اپنی قوم کے مسائل ایوان بالا تک پہنچاتا ہے، تاکہ ترجیحی بنیادوں پر انہیں حل کیا جائے۔مسائل سے نمٹنے کے لئے ہموار راستے بنائے جائیں۔جرائم کی شرح روکنے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر روک تھام کی جائے۔اس پیش رفت میں سِمسن جاوید نے سینکڑوں کالم لکھے ہیں جن میں ہمیشہ انہوں نے نا انصافی ، ظلم و ستم ، قومی اور عالمی مسائل کی نشاندہی کرکے ارباب اختیار کے سامنے پیش کیا ہے۔

میں نے 2011 ء میں باقاعدہ طور پر روزنامہ آفتاب کوئٹہ/ اسلام آباد میں باعنوان “پس پردہ ” کے نام سے کالم لکھنا شروع کیے۔ اس وقت سے تاحال مجھے سمسن جاوید کے نام سے شناسائی ہے۔ اب تک میں ان کے سیکڑوں کالم پڑھ چکا ہوں جس میں مظلوموں کی آہ و پکار ، بے بسوں کی آواز ، اور حقوق و فرائض کی استدعا شامل رہی ہے۔ انہوں نے خاندان کی کفالت کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بھی پوری ایمانداری اور احسن انداز سے پورا کیا ہے۔صحافت کو اپنا منصب سمجھ کر اپنی تحریروں کے ذریعے قارئین بلکہ ارباب اختیار تک اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ انہیں صحافت کے میدان میں مختلف سوشل ادبی اور سماجی تنظیموں نے مختلف ایورڈذ دیے ہیں جو ان کی محنت اور بے لوث خدمت کا نتیجہ ہے۔انہیں آل پاکستان کرسچن رائٹرز گلڈ نے ادبی ایوارڈ سے نوازا، اسی طرح سیالکوٹ پریس کلب نے بھی ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں ایورڑ دیا۔ اس کے علاوہ پریس کلب آف پاکستان یو کے لندن کی طرف سے 2022 میں بہترین صحافی کا ایوارڈ برسٹن کی میر نے انسانی حقوق کے ایشوز اٹھانے پر اچیومنٹ ایوارڈ دیا ، لندن سینٹ کی طرف سے بھی انہیں انسانی حقوق کی ترجمانی کرتے ہوئے ایوارڈ دیا گیا ۔ادبی تنظیم ساکواہ اور سمواہ اٹلی کی طرف سے بھی انہیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔

میں فاضل دوست کو بہترین صحافی ، عمدہ مضمون نگار ، منفرد ڈرامہ نگار اور انسانی حقوق کا ترجمان قرار دیتا ہوں۔ان کی خدمت اور فن کو نہ صرف صحافت کے میدان میں یاد رکھا جائے گا بلکہ علم و ادب کے میدان میں بھی ان کی خدمات معزز قارئین کو یاد دلاتی رہے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں ان کا قلم ظلم و ستم کے خلاف مسلسل صدائے احتجاج رہے اور وہ انسانیت کی بقا اور جدوجہد میں انسانی حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے مزید لکھنے کی کوششیں تیز کریں۔
صحافتی خدمات کا متمنی :

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply