• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • 10 دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن اور گلگت بلتستان/اشفاق احمد ایڈووکیٹ

10 دسمبر انسانی حقوق کا عالمی دن اور گلگت بلتستان/اشفاق احمد ایڈووکیٹ

مہذب دنیا میں قومی ریاستیں ایک آئین کے تحت اپنے شہریوں کو کچھ اہم حقوق مہیا کرتی ہیں جنھیں بنیادی انسانی حقوق کہا جاتا ہے اور ہر ریاست ان حقوق کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے جو وہ برقرار رکھتی ہے بقول مشہور سیاسی مفکر لاسکی کسی بھی ملک کے آئین سے بنیادی انسانی حقوق کا پتہ چلتا ہے چونکہ آئین بنیادی طور پر انسانی حقوق کا ضامن ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسانی حقوق کی تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے قبل پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانی حقوق کو تحفظ دیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ کسی عربی کو عجمی،کالے کو گورے پرکوئی برتری نہیں۔
بعد ازاں میگنا کارٹا میں بھی انسانوں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا پھر ورجینیا ڈیکلیریشن آف رائٹس 1776 میں انسانی حقوق کو تسلیم کیا گیا تھا اس لئے اس “اقرار نامہ” کو دنیا میں بنیادی حقوق کا پہلا جمہوری دستوریت کے دستاویز کی ایک عمدہ مثال کہا جاتا ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ تمام بنی نوع انسان پیدایشی طور پر برابری کے حامل ہیں جنہیں ان کے خالق نے کچھ مخصوص حقوق سے نوازا ہے جن میں زندہ رہنے کا حق، آزادی کا حق اور خوشی کی تلاش کا حق شامل ہے”۔
زمانہ قدیم میں بنیادی حقوق کا مطالبہ شہروں سے شروع ہوا یہ مڈل ایجرز کا زمانہ تھا جب یورپ میں کاروبار اور انڈسٹریز نے ترقی پائی علم اور ہنر کی اہمیت بڑھتی گئی اور لوگوں نے اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنا شروع کیا تعلیم اور شعور کے ساتھ بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد شروع ہوتی ہے.
چنانچہ ان بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے لوگوں نے خود حکومتیں قائم کیں اور اپنی منشاء سے اپنے اوپر انصاف کے مطابق حکومت کرنے کا حق عوامی نمائندوں کو دیا جس سے عام الفاظ میں معاہدہ عمرانی کہا جاتا ہے۔
امریکن بل آف رائیٹس دس ترامیم پر مشتمل ہے جو بنیادی حقوق سے متعلق ہیں اس کے بعد 1789 میں فرانس میں انسان کے حقوق کا اعلامیہ اہمیت کا حامل ہے اسی طرح جرمنی میں 1848 میں انقلاب کے بعد شہریوں کے بنیادی حقوق کا اعلان کیا گیا .
اٹھارویں صدی کے دوسرے حصے میں برطانیہ کے عوام میں نیچرل رائیٹس کی بابت بات چیت شروع ہوئی جس سے امریکہ اور فرانس کے انقلابی دور سے تشبیہ دی جاتی ہے.
جنگ عظیم اوّل سے قبل ریاست اپنے ریاستی دائرہ اختیار کے اندر جو مرضی اپنے شہریوں کے ساتھ سلوک کرے بین الاقوامی کمیونٹی زیادہ پوچھ گچھ نہیں کرتی تھی چونکہ ریاست کی اقتداراعلیٰ تقریباً مقدس سمجھی جاتی تھی مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد ساری دنیا میں پُرامن ترقی اور خوشحالی کے قیام کے لیے انسانی حقوق کو یقینی بنانا لازمی قرار دیا گیا اور لیگ آف نیشنز اور انٹرنیشنل لیبر اورگنائزیشن نے بنیادی حقوق پر قانون سازی پر زور دیا ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو تسلیم کیا گیا مگر اس کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسانی حقوق کی بابت 7 حوالہ جات بھی دئیے گئے اور بین الاقوامی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کے لیے قانون سازی شروع ہوئی جس کی ایک اہم وجہ عالمی جنگ کے درمیان رونما ہونے والے ہولوکاسٹ کا تجربہ اور جنگ کی ہولناکی تھی جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا اور انسانی حقوق کو پامال کیا گیا تھا ۔ چنانچہ انیسویں صدی کا دوسرا حصہ اور بیسویں صدی کی شروعات میں دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنے دساتیر میں انسانوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کیا۔
ان تمام ممالک کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر وہ بنیادی حقوق کی آئین میں ضمانت نہیں دیتی ہیں تو اسی صورت میں شہریوں کے حقوق کو یقینی بنانا ممکن نہیں ،نہ ہی بنیادی حقوق کی عدم موجودگی میں انسانی شخصیت کی تعمیر اور تکمیل ممکن ہو سکتی ہے۔
اس لئے 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہومین رائٹس پاس کیا جسکے ساتھ انٹرنیشنل کاویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس اور میثاق براۓ اکنامک , سوشل اینڈ کلچرل رائٹس مل کر انٹرنیشنل بل آف ہومین رائٹس کی تشکیل کرتے ہیں جن کے تحت اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے انسانی حقوق پر ایک قانونی معاہدے کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کیا ہے اور ان میں بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ سول حقوق ,سیاسی حقوق, اکنامک حقوق ,سوشل اور کلچرل حقوق بھی شامل ہیں.
آج دنیا میں انسانی حقوق پر 9 اہم بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں جو انسانی حقوق کے تحفظ اور فراہمی کےلیے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور دنیا کے اکثریتی ممالک نے ان معاہدوں پر دستخط کئے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عدم فراہمی پر جوابدہ ہیں.
حکومت پاکستان نے بھی 23 جون 2010 کو
International Covenant on
Civil and Political Rights
کی توثیق کی ہے جبکہ سترہ اپریل 2008 میں
International Covenant on Economic ,Social, and Cultural Rights
کی توثیق کی ہے؛ اسطرح 12 مارچ 1996 کو
Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination against Women
پر دستخط کیا ہے جبکہ 21 دسمبر 1966 کو ایک اور بین الاقوامی معاہدے کی توثیق کی ہے جس سے
International Convention on the Elimination of All Forms of Racial Discrimination
کہتےہیں ان کے علاوہ 20 نومبر 1990 میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے
Convention on rights of the child
کی بھی توثیق کی ہے.
جبکہ 23 جون 2010 کو
Convention against Torture and other Cruel, Inhuman and Degrading Treatment or Punishment
کی بھی توثیق کی ہے اور اس کے علاوہ 5 جولائی 2011 کو
Convention on the Rights of Persons With Disabilities .
کی بھی توثیق کی ہے.
حکومت پاکستان نے بہت سارے بین الاقوامی دستاویزات پر دستخط کئے ہیں جو معاشرے کے کمزور گروہوں کو تحفظ مہیا کرتے ہیں جن میں خواتین , بچے , اقلیتیں ، افراد باہم معذوری شامل ہیں.لیکن ان تمام بین الاقوامی دستاویزات اور معاہدوں کی توثیق کرنے کے باوجود بھی وفاق پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کو تاحال بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہےجوکہ لمحہ فکریہ ہے۔
مثلا گذشتہ 75 سالوں سے گلگت بلتستان میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کوئی آئین موجود نہیں ہے اس لئے ایک صدارتی حکم نامہ کے تحت گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کی زندگیوں کے فیصلے کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے ۔
دنیا کے جمہوری ممالک میں آئین کے مطابق ریاستی ادارے مقننہ,انتظامیہ اور عدلیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوۓ اپنے امور سر انجام دیتے ہیں مگر گلگت بلتستان دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں ریاست کے ان اہم تین ستونوں کے اختیارات کی تقسم اور چیک اینڈ بیلنس کا تصور ابھی تک قابل اطلاق نہیں ہے کیونکہ اس اہم اسٹرٹیجک خطہ کے معاملات کسی آئین کے تحت نہیں بلکہ ایک صدارتی حکم نامہ کے تحت چلاۓ جارہے ہیں جس کے تحت عوامی منتخب نمائندوں کے پاس اس صدارتی آرڈر میں ترمیم کا اختیار بھی نہیں۔
چنانچہ گلگت بلتستان کی آئینی حثیت کے تعین اور اس خطے میں صدیوں سے آباد عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر مشہور مقدمہ الجاد ٹرسٹ بنام فیڈریشن آف پاکستان کا فیصلہ سناتے ہوۓ سال 1999 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ” یہ بات سمجھ نہ آنے والی ہے کہ کن بنیادوں پر شمالی علاقہ جات ( گلگت بلتستان )کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے سے انکار کیا جاتا ہےجن حقوق کی ضمانت آئین دیتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ میں لکھا ہے کہ بنیادی حقوق کی دو اقسام ہیں پہلی قسم کے حقوق میں شخصی حقوق شامل ہیں دوسری قسم کے حقوق ملک کے شہریوں کے متعلق ہوتے ہیں۔
آئین پاکستان1973 کے تحت ارٹیکل نمبر٩،١٠،١١،١٢،١٣،١۴،٢١،٢٢،٢۴ یہ وہ ارٹیلز ہیں جو شہری اور غیر شہری کے درمیان تفریق نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ آرٹیکلز شخص کی بات کرتے ہیں جبکہ حقوق کی دوسری قسم جو کہ صرف ملک کے شہریوں سے متعلق ہیں جن میں آئین کے ارٹیکل نمبر ١۵ تا ٢٠ اور ارٹیکل ٢٣، و ٢۵ شامل ہیں ۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کے پیرگراف نمبر 14 میں لکھا ہے کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ناردرن ایریاز ( گلگت بلتستان )میں ریاست کے ادارے بحثیت
Defacto Exective, Defacto legislature
Defacto judiciary
کام کرتے ہیں اس لیے ان ارداروں کے اقدامات قانوناًدرست ہیں ۔
چونکہ اس کیس میں دلیل یہ دی گئی کہ ان علاقوں یعنی گلگت بلتستان پر
Doctrine Of De-Facto Administration
لاگو ہوتا ہے۔اور پاکستان نے گلگت بلتستان پر موثر طریقے سے کنٹرول جاری رکھا ہوا ہے اور بحثییت فرما نرواں کام کر رہا ہے اور یہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ہے اور پاکستان کے زیادہ تر قوانین ناردرن ایریاز (گلگت بلتستان)میں لاگو ہیں بشمول سٹیزن شپ ایکٹ آف پاکستان اس لیے ناردرن ایریاز کے لوگ پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح بنیادی حقوق مانگ سکتے ہیں اور ساتھ ہی وہ ٹیکس ادا کرنے اور دیگر محصولات مکمل طور پر لاگو ہو تو ادا کرنے کے پابند ہیں۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ میں لکھا ہے کہ ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس جس کا پاکستان Signatory ہے اس کے تحت بھی انسانوں کی نسل ، حیثیت اور ماخذ کے بنا ہی انسانوں کے کچھ بنیادی حقوق ہوتے ہیں۔ جس بارے میں آرٹیکل ا تا ١٠ اور ١٣ ، ١۵ و ٢١ کے بابت یونیورسل ڈیکلریشن کا حوالہ دیا جاسکتا ہے اور پاکستان کے آئین میں درج بنیادی حقوق یونیورسل ڈیکلیریشن میں درج مندرجہ بالا حقوق کی عکاسی کرتے ہیں، جو کہ انٹرنیشنل کنونشن آف سول اینڈ پولیٹیکل رایئٹس ، یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق اور امریکی کنونشن برائے انسانی حقوق کے مطابق ہیں۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ کسی ملک میں بنیادی حقوق کو صرف اس وقت معطل کیا جاتا ہے جب بیرونی جارحیت اور بیرونی خطرے کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کی گئی ہو۔
یا قومی جنگ میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لازمی ہو تاکہ لوٹ مار اور غلامی سے بچایا جاسکے، یہاں تک کہ اس کے حصول کے لئے افراد کی آزادیوں اور شہریوں کے دیگر حقوق کو قربان کیا جاسکتا ہے ۔ ایک لاطینی محاورہ ہے کہ دوران جنگ قانون معطل ہوتا ہے۔
مگر گلگت بلتستان میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ گلگت بلتستان کے حقوق کیوں معطل کردیا گیا ہے؟
حالانکہ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رایٹس کے مندرجہ بالا آرٹیکلز اور موجودہ مقدمے میں بہت مطابقت ہے اور اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ریاست جموں وکشمیر کے بارے میں فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی اور تحفظ میں بذریعہ استصواب رائے ہونی ہے اور اقوام متحدہ نے ہی یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومین رائئٹس کی سرپرستی کی ہے۔
اس لیے یہ بات طے ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح ائین پاکستان میں درج بنیادی حقوق کا مطالبہ کریں چونکہ انصاف تک رسائی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ اور یہ حق ایک آزاد عدلیہ کی غیرموجودگی میں جاری نہیں رکھا جاسکتا ہے۔
آئین کے تحت جمہوریت کے بنیادی اہم ترین رہنما اصول آزادی،مساوات،برابری،صبر،, عدل اور سماجی انصاف جنھیں اسلام نے واضح طور پر بیان کیا ہے جن پر مکمل طور پر عمل کیا جاۓ.
آئین پاکستان کے آرٹیکل 2A اور 17 کے تحت گلگت بلتستان کے لوگ اپنے علاقے پر حکومت کرنے کے حقدار ہیں اور ایک آزاد عدلیہ کے زریعے اپنے بنیادی حقوق کو لاگو کرنے کے حقدار ہیں۔
لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1999 کے فیصلے کے باوجود بھی تاحال گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب نمائندوں کو اپنے شہریوں کے لیۓ آئین سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
لیکن اس فیصلے پر گذستہ 23 سالوں سے عمل درآمد نہیں ہو سکا ۔
تو ایک مرتبہ پھر سے 17جنوری 2019 کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر دائرہ کیس سول ایوی ایشن اتھارٹی بنام سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان وغیرہ میں فیصلہ دیا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو تمام تر بنیادی انسانی حقوق فراہم کیے جائیں اور وفاق پاکستان کو حکم دیا کہ ایک نیا صدارتی حکم نامہ آرڈر 2019 کو پندرہ دنوں کے اندر گلگت بلتستان میں لاگو کریں مگر ایک بار پھر وفاق پاکستان نے سپریم کورٹ اف پاکستان کے حکم پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا ہےاور آرڈر 2018 کو گلگت بلتستان میں بدستور نافذ رکھا ہے جس کے تحت بطور چیرمین گلگت بلتستان کونسل تمام تر اختیارات وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہیں۔
تلخ سچ تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پر لاگو کئے گئے تمام تر صدارتی حکم نامے خواہ 2009 کا حکم نامہ ہو یا آرڑر 2018 ان حکم ناموں کے بنانے میں بھی گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں کی کوئی منشا اور راۓ شامل نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں کے پاس آرڑر 2018میں ترمیم کا بھی اختیار نہیں ہے ۔
گلگت بلتستان کے سپریم اپیلیٹ کورٹ اور چیف کورٹ میں گلگت بلتستان آرڑر 2018 کی Validity کو چیلنج نہیں جاسکتا ہے نہ ہی گلگت بلتستان کی اعلی عدلیہ کے پاس جوڈیشل ریویو کا اختیار ہے۔
پاکستان کے برعکس گلگت بلتستان کی اعلی عدلیہ میں ججزز کی تقرری بھی جوڑیشل کمیشن کی بجاۓ ایگزیٹو اٹھارٹی کے تحت وزیراعظم پاکستان کرتا ہے حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے 1999 کے فیصلہ میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ آزاد عدلیہ جو غیر جانبدار ، منصفانہ اور شفاف فریم ورک و انصاف اور عدل پر مبنی ہونی چاہئے یعنی ایک جوڈیشل درجہ بندی موجود ہو۔ عدالیتں اور ٹرابیونلز جنھیں افراد اور ایگزیکٹیو کے ذریعے چلائی جاتی ہو مشکل سے ہی کہا جاسکتا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے”۔
اس کے علاوہ پاکستان کے 4 صوبوں اور وفاق پاکستان کے زیر انتظام ریاست آزاد جموں و کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان کے عوام کو حق ملکیت اور حق حاکمیت بھی حاصل نہیں ہے نہ ہی آئینی تحفظ حاصل ہے ۔
چنانچہ بلتستان اسمبلی کے لیڈر آف دی اپوزیشن امجد حسین ایڈووکیٹ نے گلگت بلتستان میں حق ملکیت اور حق حاکمیت کے نام سے خالصہ سرکار اراضیات کے خلاف ایک تحریک بھی چلائی تھی لیکن یہ مسلہ حل نہیں ہو سکا ۔بقول امجد حسین ایڈووکیٹ انہوں نے حق ملکیت بل گلگت بلتستان اسمبلی میں جمع کروایا ہے لیکن اس پر پیش رفت ہونے نہیں دیا گیا۔
گلگت بلتستان کی اس تلخ صورتحال پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی آنکھوں میں غصہ دیکھا ہے وہ برملا کہتے ہیں کہ ریاست نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔
بقول سنیٹر فرحت اللہ بابر گلگت بلتستان میں 18ویں ترمیم کا نفاز اس لئے نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق ملتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں بعض ایسے قوانین کا اطلاق کیا گیا ہے جو عوام کے حقوق کے خلاف ہیں مثلا گلگت بلتستان میں شیڈول 4 اور ATA کا قانون لاگو ہیں لیکن آزاد کشمیر میں اس طرح کا کوئی قانون لاگو نہیں۔
اس طرح گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کو تحفظ دینے والے قانون سٹیٹ سبجیکٹ رول کو 1978 سے معطل کردیا گیا ہے جبکہ آزاد کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول برقرار ہے۔
اس طرح عوام کے حقوق کے خلاف قانون خالصہ سرکار جو پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور کا نوآبادیاتی کالا قانون ہے جس کے زریعے گلگت بلتستان میں عوامی اراضیات کو خالصہ سرکار قرار دیا گیا ہے اور اس مسلہ پر عوام مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن بدقسمتی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے البتہ زمینوں پر قبضوں کی ویڈیوز وقتا فوقتا منظر عام پر آرہی ہیں ۔
درحقیت گلگت بلتستان میں اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہے جو کسی روز پھٹ سکتا ہے لیکن اس مسلہ کو بروقت حل کرنے کی بجائے عوام کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے سیاسی کارکنوں کو شیڈول فور میں ڈالا جاتا ہے۔
اس وقت قوم پرست رہنما انجنیر منظور پروانہ ، مذہبی رہنما آغا علی، سماجی کارکن یاور عباس ، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حسنین رمل کے علاوہ دیگر سیاسی و سماجی کارکن شڈول فور کا شکار ہیں۔حالانکہ شیڈول 4 کا قانون بنیادی طور پر کالعدم تنظیموں کے ممبران اور دہشت گردوں کے لئے بنایا گیا ہے ۔
اس کے علاوہ MPO اور تعزات پاکستان کے دفعات کے تحت سیاسی کارکنوں کو بغاوت کے مقدمات میں بھی نامزد کیا جاتا ہے ، جو انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن غلام شہزاد آغا بھی انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت گذشتہ چار سالوں سے شیڈول 4 کا شکار ہیں۔ شہزاد آغا کا کہنا ہے کہ ایک سال قبل گلگت بلتستان اسمبلی کے 8th سیشن میں گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر امجد زیدی نے رولنگ دیا تھا کہ رکن اسمبلی کو فوری طور پر 4th شیڈول سے نکالا جائے. مگر انتظامیہ نے گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر کی رولنگ کو نظرانداز کیا اور ان کا نام تاحال شیڈول 4 میں موجود ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی کتنی با اختیار ہے؟
حالانکہ آئین پاکستان کے ارٹیکل 2A میں واضح طور بیان کیا گیا ہے کہ ریاست عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے اپنے پاور اور اتھارٹی کو استعمال کرتی ہے لیکن گلگت بلتستان میں نظام اس کے برعکس چل رہا ہے۔
بقول مشہور فلسفی ژاں ژاک روسو “انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جدھر دیکھو وہ پایہ زنجیر ہے”۔
ان الفاظ کے ساتھ روسو اپنی کتاب معاہدہ عمرانی ” شروع کرتا ہے۔روسو نے بلاشبہ انسانی آزادی ،مساوات ،حکومت جمہوریہ کو انسان کا حق ثابت کیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ معاہدہ عمرانی کے رو سے تمام شہری برابر ہیں اور قدرتاً ہر شخص آزاد پیدا ہوا ہے اس لیے یہ کہنا کہ غلام کی اولاد غلام ہوتی ہے گویا اس کے انسان ہونے کے وجود سے انکار کرنا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاست انسانوں کے حقوق تخلیق نہیں کرتی ہے بلکہ حقوق کو تسلیم کرتی ہے مگر گلگت بلتستان کے عوام کے ان بنیادی حقوق کو تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہےجس کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ حاصل نہیں اس لیے عام طور پر گلگت بلتستان سر زمین بے آئین کہلاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاق پاکستان نے گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت حکومت آزاد کشمیر سے حاصل کیا ہے اور اس بابت گلگت بلتستان کے عوام کی مرضی و منشاء پوچھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی تب سے آج تک گلگت بلتستان میں بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ حاصل نہیں ہے
لہذا اب وقت کا تقاضا ہے گلگت بلتستان کے عوام کی محرمیوں کا ازالہ کیا جائے اور جس طرح معاہدہ کراچی کے تحت ریاست آزاد جموں وکشمیر کو ایک آئینی نظام کے تحت بنیادی جمہوری حقوق اور قومی تشخص دیا گیا ہے اس بنیاد پر تا تصفیہ مسئلہ کشمیر آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 اور اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 80 کی روشنی میں گلگت بلتستان کے عوام کو بھی آزاد جموں و کشمیر کی طرح بذریعہ لوکل اتھارٹی حکومت قائم کرنے کا اختیار دیا جائے اور ایک عمرانی معاہدہ کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق و فرائض کا تعین کیا جائے تاکہ گلگت بلتستان میں تیزی سے ابھرتی ہوئی سماجی اجنبیت کا خاتمہ ہو اور 75 سالہ محرمیوں کا بروقت مداوا ہو سکے چونکہ موجودہ معروضی حالات میں دن بدن ریاست اور عوام کے درمیان خلا بڑھتا جا رہا ہے جس سے ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور بعدازاں اس کا ازالہ کرنا ممکن نہیں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply