• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اردو میں تاریخ گوئی اور داستان گوئی کی روایت اور فن/ اوّل حصّہ -احمد سہیل

اردو میں تاریخ گوئی اور داستان گوئی کی روایت اور فن/ اوّل حصّہ -احمد سہیل

تاریخ گوئی اور داستان گوئی ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہوئے انھیں ایک دوسرے سے مہمیز بھی کیا جاسکتا ہے۔ اور دونوں کا خمیر یکساں  طور پر گندھا ہوا ہے۔ اس کا اثر ہندوستانی اور پاکستانی  ڈرامہ اور تھیڑیکل میدان پر گہرا نظر آتا ہے۔ داستان گوئی اور تاریخ گوئی کی نظری مبادیات کو تین نکات میں منقسم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ راوی- قصّہ گو کی صورت میں ایک کہانی یا داستان میں موجود ہوتا ہے۔
۲۔ زبانی داستان گوئی، تاریخ گوئی ، رویت، اساطیر تاریخ اور ثقافت کے روایتی سلسلے ہوتے ہیں۔
۳۔ داستان گوئی، الفاظ، تصاویر اور آواز کے زیر وبم کے ذریعے سے واقعات کو برجستگی سے ابلاغ کرتے ہیں۔

فنِ تاریخ گوئی سے مراد کسی شعر، مصرع یا نثر کے حروف کے ابجد سے کسی واقعہ کی تاریخ کا برآمد کرنا ہے۔ یہ روایت اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی ہے۔ جو شعر برآمد ہو اسے ‘مادہ’ یا مادۂ تاریخ’ کہا جاتا ہے۔ فارسی و اردو میں یہ ‘تاریخ’ اور عربی میں قطعہ تاریخ اور ترکی میں یہ ‘رمز’ بھی کہلاتا ہے۔ اردو میں یہ روایت کئی صدیوں سے جاری ہے مگر اب اس کا رواج اردو سے عدم واقفیت کی بناء پر کم ہوتا جا رہا ہے۔ تاریخ گوئی بامعنی الفاظ کے ذریعے کسی واقعے کی تاریخ، بحساب ابجد نکلا لنا ہے۔ اور تاریخ کو حتمی طور پر متعین کیا جاتا ہے۔ یہ تاریخ دن مہینہ سال ایک جملے یا مصرعے سے اخذ کی جاسکتی ہے۔۔ اسے ” مادہ تاریخ ” کہا جاتا ہے۔ کبھی کبھار یہ پیچیدگی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ اور ” تاریخ گوئی” کی ہیت کا مخاطبہ تشکیک اور ابہام کا شکار ہوکر ” معمہ گوئی” کی شکل بھی اختیار کرکے چیستانی سوال کی صورت میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ داستان گوئی کا دہلی میں سب سے زیادہ چرچا رہا اور یہاں داستان گوئی کے فن  کو ایک پرفارمنس آرٹ کے طور پر رواج دیتے ہوئے، داستان کے بیانیہ اظہار کو خلقی اور نیا رنگ عطا کیا۔ اور یہ فن ارتقا ء کی منازل طے کرتا رہا۔ روایت ہے کہ ایک نشست میں میر تقی میر نے بھی داستاں گوئی کے جوہر دکھائے تھے۔ داستان سے اپنی گہری دلچسپی کا اظہار اپنے خطوط میں ملتا ہے۔ مگر غدر کے ہنگامے کے بعد داستان گوئی کا فن اٹھ کر لکھنؤچلا گیا۔ اور پھر یہ فن اودہ اور رام پور کے دربار میں ” داستان گویاں” کے نام سے معروف ہوا۔ اس کے علاوہ مرثیہ گوئی کے زیر اثر داستان سرائی میں حرکات اور سکنات، لب ولہجہ اور اعضاء  اشارے اور جنبش سے داستان گوئی میں تنوع پیدا ہوا۔

یگانہ نجمی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے ۔ “پچھلی صدی میں داستان نگاری کا فن عروج پر نظر آتا ہے ۔اس زمانے میں جو داستانیں منظر عام پر آئیں ان میں خواجہ سگ پرست ، شہزاد جانِ عالم کی سواری ، حمام بارد گرد وغیرہ شامل ہیں ۔بلا شبہ تمام داستانیں انسان کو زمانے کے پیچ وخم اور مصیبت واکرام میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لئے نصیحت ہیں۔

ڈاکٹر گیان چند جین لکھتے ہیں” حکمائے یونان کے بقول قصہ گوئی کا فن شاعری اور موسیقی کی دیویوں سے بھی قدیم تر ہے۔ ممکن ہے بعض لوک کہانیاں پانچ ، دس ہزار سال پیشتر وجود میں آچکی ہوں” قصہ گوئی اور داستان کا فن اردو زبان میں عربی اور فارسی کے توسط سے پہنچا ہے۔

عربی کے مشہور افسانے الف لیلہ، السندباد، حاتم طائی کو تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کیا جا چکا ہے۔ عربوں میں زمانہ جاہلیت میں یہ فن بہت مقبول تھا ڈاکٹر گیان چند دوسری جگہ لکھتے ہیں” عرب میں داستان گوئی باضابطہ ایک فن تھا جو عہد جاہلیت میں عروج پر تھا۔ چاندنی رات میں کھانے کے بعد شائقین حضرات ریت پر اکٹھا ہو جاتے تھے،سامر(قصہ گو) قصہ سناتا تھا اجرت میں اسے کھجوریں دی جاتی تھیں”(اردو کی نثری داستانیں،ص:41)یہ عرب سے منتقل ہو کر ایران پہنچا ،وہاں اس نے فارسی لبادہ اختیار کیا پھر ایرانی تجار اور سیاحوں کے ذریعہ اس نے ہند کی سرزمین پہ قدم رکھا۔ اردو داں طبقہ نے اس فن کا پُر جوش اور پُر تپاک انداز میں آگے بڑھ کر استقبال کیااور اسے عروج و بلندی کے معراج پر پہنچایا۔

سہیل بخاری کے بقول دراصل پورے ایشیائی ادب کا مزاج عاشقانہ ہے اس لیے داستان بھی محبت کے جذبے سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتی تھی۔ داستان کے ہیرو کے لیے ضروری ہے کہ اس کے لیے کسی ایسی ہستی کا انتخاب کیا جائے جو مافوق الفطرت عناصر اور کم سے کم عمال، وزراء اور امراء کی شکل میں پیش کیے جائیں کیوں کہ ہیرو کو عوام سے بالاتر اور محکم تر پیش کیے جانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ہیرو میں چند انتہائی صفات ہوتی ہیں۔ وہ بے پناہ حسن کے ساتھ ساتھ وفا کا پتلا بھی ہوتا ہے ۔ ہیروئن عاشق کے لیے یہاں تک ایثار کرتی ہے کہ والدین کو چھوڑ کر اس کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے ۔ داستان ”بیثرن و منیثرہ“ میں منیثرہ کی جرأت مندانہ صلاحیتوں کی بنا پر روایتی اقدار کے باوجود اپنے عاشق کے لیے ہمت و جرأت کا اظہار ملتا ہے ۔ دیو، دیونی اور بھوت پریت کا ذکر تقریباً کسی نہ کسی صورت میں کم و بیش ہر داستان میں ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی آتشی خلقت ہے جو عموماً مشاہدے میں نہیں آتی مگر ان کا وجود تحریر و تقریر میں موجودہوتا ہے ۔ گویا آنکھوں سے نہیں دیکھا کانوں سے سنا ہے ، ذہنوں میں ان کا وجود جاگزیں ہے اور انھیں غیر معمولی قوتوں کا حامل سمجھا جاتا ہے ۔”۔ داستانوں کے پلاٹ میں زیادہ تنوع نہیں ہوتا۔ تمام قصے کچھ ان خطوط پر چلتے ہیں کہ ہیرو کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اسے راہ میں بہت سے حوادث، دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تمام مصائب کا وہ مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے اور فتح یاب ہوتا ہے ۔ جہاں تک داستان کی اصل غایت کا تعلق ہے وہ کہانی کی غایت سے مختلف نہیں۔

زیادہ تر داستانوں کے موضوعات ہلکے پھلکے عشقیہ و تفریحی ہوتے ہیں۔ کچھ داستانیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں اخلاق آموزی، تہذیب نفس، عالمانہ دقیقہ سنجی، مذہب اور تخلیق پر زور دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ تمام باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور داستان کی اصل غایت میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔ داستانی تکنیک کو کلچرل، اخلاقی اور دیگر مسائل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ سننے والے یا پڑھنے والے ان داستانوں کو درس آموز کلیات کے طور پر شعوری یا لاشعوری طور پر ذہن نشیں کر سکیں۔ داستانوں میں اخلاقی تعلیم یا مذہبی عناصر بھی موجود ہوتے ہیں یعنی معلمین اخلاق اورمذہب کے  علمبرداروں   نے بھی داستان کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا ہے ۔ ان کے ایسا کرنے کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ اخلاق و مذہب کے مبادیات تفریحی مطالعہ کے طور پر آسانی سے سمجھائے جا سکتے ہیں۔ تفریح اور عشق کا التزام کسی نہ کسی داستان میں ضرور ملتا ہے ۔ اس کے علاوہ عجائب نگاری کی بہت زیادہ کوشش ہوتی ہے ۔ طلسم و سحر، نیرنگ و فسوں پر دفتر کے دفتر سیاہ کر دیے جاتے ہیں۔

بقول صغیر افراہیم داستان دراصل زندگی اور اس کی حقیقتوں سے فرار کا دوسرا نام ہے ۔ خواہشات کی تکمیل جب حقیقی عنوان سے نہ ہو پاتی تو تخیل کے سہارے ان کو پورا کرنے کی کوشش کی جاتی اس لیے انسان جب اپنے حالات سے فرار حاصل کرتا تو عموماً داستانوں کی دنیا میں پہنچ کر ذہنی و قلبی سکون حاصل کرتا۔ سہیل بخاری کے بقول دراصل پورے ایشیائی ادب کا مزاج عاشقانہ ہے اس لیے داستان بھی محبت کے جذبے سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتی تھی۔

داستان گوئی دراصل براہ راست لوگوں کے سامنے پیش کیا جانے والا فن ہی ہے، داستانوں کے پلاٹ میں زیادہ تنوع نہیں ہوتا۔ تمام قصے کچھ ان خطوط پر چلتے ہیں کہ ہیرو کسی مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اسے راہ میں بہت سے حوادث، دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ تمام مصائب کا وہ مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے اور فتح یاب ہوتا ہے ۔ جہاں تک داستان کی اصل غایت کا تعلق ہے وہ کہانی کی غایت سے مختلف نہیں۔ زیادہ تر داستانوں کے موضوعات ہلکے پھلکے عشقیہ و تفریحی ہوتے ہیں۔ کچھ داستانیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں اخلاق آموزی، تہذیب نفس، عالمانہ دقیقہ سنجی، مذہب اور تخلیق پر زور دیا جاتا ہے ۔ لیکن یہ تمام باتیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور داستان کی اصل غایت میں ان کا شمار نہیں ہوتا۔ داستانی تکنیک کو کلچرل، اخلاقی اور دیگر مسائل کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ سننے والے یا پڑھنے والے ان داستانوں کو درس آموز کلیات کے طور پر شعوری یا لاشعوری طور پر ذہن نشیں کر سکیں۔ داستانوں میں اخلاقی تعلیم یا مذہبی عناصر بھی موجود ہوتے ہیں یعنی معلمین اخلاق اور علمبرداران مذہب نے بھی داستان کو اس مقصد کے لیے   استعمال کیا ہے ۔ ان کے ایسا کرنے کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ اخلاق و مذہب کے مبادیات تفریحی مطالعہ کے طور پر آسانی سے سمجھائے جا سکتے ہیں۔ تفریح اور عشق کا التزام کسی نہ کسی داستان میں ضرور ملتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply