مولا جٹ/محمود اصغر چوہدری(فلم ریویو)

دی لیجنڈ آف مولا جٹ ہمارے علمی فنی تفریحی اور تحقیقی جمود کا بہترین شاہکار ہے یہ فلم ثابت کرتی ہے کہ ہم آج بھی جہالت میں اسی مقام پر کھڑے ہیں جہاں تینتیس سال پہلے کھڑے تھے فرق صرف اتنا آیا ہے کہ ہم اب اپنی جہالت کو پھیلانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور بہترین سرمایہ کاری کا استعمال کرتے ہیں۔

اردو بولنے والوں سے جس طرح پنجابی زبان کے لہجے اور تلفظ کا ستیا ناس کروایا گیا ۔ وہ اپنی مثال آپ ہے۔
فلم میں ایک ایک ڈائیلاگ اور ایک ایک سین ناظرین کو تشدد ، قتل و غارت گری اور بد امنی کی ترغیب دیتا ہوا نظر آتا ہے ۔

ہیروئین کو ہمیشہ کی طرح ایک آبجیکٹ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کا کام صرف اپنے ہیرو کو لبھانے ، اسے خوش کرنے اور اس کے غصے والے موڈ کو بہتر بنانے کا ہے وہ اپنے ہیرو کی محبت میں اتنی مری جا رہی ہے کہ اس سے تذلیل کا یہ ڈائیلاگ مشہور کروایا گیا ہے کہ
اینہاں نوں دس میں تیری پکی پکی معشوق ہاں ۔۔

فلم کے سین اتنے مضحکہ خیز ہیں  کہ پوری کہانی میں وہ واحد عورت ہے جو اکھاڑا دیکھنے آتی ہے باقی کوئی عورت سین میں نظر نہیں آتی ۔

ہیرو ہر وقت شراب کے نشے میں دھت رہتا ہے پھر بھی ہیرو ہے ۔ اس کا لباس ، اور دیگر سپاہوں کے لباس سلطنت روما سے لئے گئے ہیں ۔ تمام مردوں کو داڑھی اور لمبی لمبی زلفوں میں دکھایا گیا ہے بلکہ ولن تو باقاعدہ بالوں کی پونی بناتا ہے

ہیرو ہر وقت بدلے کی آگ میں جلتا رہتا ہے ۔ ہر دوسرے سین میں مردوں کا کام عورتیں اٹھانا ہے۔
فلم میں اس دفعہ رائٹر نے اپنی کاوش سے ایک عورت کو سردار بنا کر عورتوں کو اہمیت دینے کی کوشش کی ہے البتہ اسی عورت سے یہ شہرہ آفاق ڈائیلاگ کہلوایا گیا ہے،
کہ” سرداری کی پگ اس  کے سر پر سجتی ہے جس کی دہشت سے دشمن کی ہر عورت بانجھ ہوجائے” ۔۔ کمال ہے ویسے دشمن کی بھی عورت ہی بانجھ ہو کیا ؟گھٹیا جملہ ہے۔

نئی نسل کو پیغام دیا گیا ہے کہ آپ کو سردار بننے کے لئے سمجھدار ،معاملہ فہم یا زیرک سیاستدان نہیں ہونا چاہیے بلکہ دہشتناک خوفناک اور جابر ہونا چاہیے ، سیدھا یہ ہی لکھ دیتا کہ اسے وردی میں ہونا چاہیے۔
ولن کے منہ سے یہ جملے نکلوا ئے گئے
“میں قتل ہونا چاہنا واں ۔۔ اپنا پنڈا وکھوں وکھ ویکھنا چاہنا واں” ۔

تاریخ گواہ ہے کہ پرانی مولا جٹ فلم نے نا  صرف پاکستانی سینما انڈسٹری کا بیڑا غرق کیا تھا بلکہ پنجاب کی ایک پوری نسل تباہ کردی تھی۔

اگر کسی کو یقین نہیں آتا  تو ذرا گجرات کے کسی بھی نواحی گاؤں میں گجروں اور منڈی بہاؤ الدین کے کسی نواحی گاؤں میں جاٹوں کی دشمنیوں کی داستانیں سن لے ان کے ہر نوجوان کی خواہش ڈائیلاگ اور مکالمہ یہی ہو گا ۔” قتل ہونا چاہنا واں” ۔۔ اور پھر یہی جملہ ہے جس نے خاندانی ہونے کا معیار بدل دیا ۔ اب تعارف یہ نہیں ہے کہ فلاں آدمی نیک سیرت ہے با اخلاق ہے اب پنجاب میں پچھلے تیس سال سے تعارف یہی تھا کہ ان کے خاندان کا بیر اتنے سال سے چل رہا ہے انہوں نے اتنے زیادہ لوگ قتل کئے ہیں۔

پنجاب کے میلوں میں ، بیٹھکوں میں ، محفلوں میں اور اداروں میں کبھی سیف الملوک ، ہیر رانجھا اور بابا فرید سنے اور سنائے جاتے تھے لیکن پچھلے تیس سال سے یہی گفتگو ہونا شروع ہوگئی کہ یاد ہے وہ واقعہ فلاں چودھری کا جب تھڑا دیا گیا تھا ، جب فلاں کی چھاتی پر  فائر مارا گیا تھا ، جب فلاں کے ٹوٹے ٹوٹے کئے گئے اور جب فلاں کے گھر میں گھس کر اس کی پٹائی کی گئی ،جب فلاں عورت کا۔۔۔”

اس ثقافت نے گجرات کا وہ حلیہ بگاڑا کہ وہاں اب ڈاکٹر ، لکھاری ، شاعر ادیب اور بزنس مین بننے کی بجائے ہر گھر میں ایک ایسا نوجوان پایا جاتا ہے جو چھاتی پھیلا کر کہتا ہے کہ “قتل ہونا چاہنا واں “۔۔۔ اور اس کی اس خواہش کی تکمیل کے بعد باقی ساری برادری کے نوجوان پھر یورپ برطانیہ ا ور امریکہ آکر پناہ لینے اور پیسہ کمانے کی دوڑ میں شامل ہوجاتے ہیں کہ اب مخالفوں کے اس نوجوان کی بھی خواہش پوری کر ہی دی جائے جو سینہ پھیلا کر کہتا ہے ۔۔ او کوئی میری گردن کا بل نکالے اور جسم کو پھینٹی لگائے ۔

یہ پرانی مولا جٹ فلم کا کمال تھا کہ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں وہی شخص اچھا لگا جو زیادہ بدتمیز غصیلہ اور بد اخلاق ہو پھر چاہے وہ ڈاکٹر ہویا ادیب ، وہ پولیس انسپکٹر ہویا کوئی سرکاری آفیسر ، وہ لکھاری ہو یا قاری ، وہ کوئی جلالی پیر ہو یا شعلہ بیان مولوی ہمیں وہی ہیرو لگا جو دوسروں پر رعب ڈال سکے۔

اس کا اثر ہماری سیاست پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ ہمیں ہر وہ لیڈر اچھا لگا جو تعمیر کی بجائے تخریب پر کمال کا ڈائیلاگ بول سکے اور دنیا سے مکالمہ کرنے کی بجائے ٹکر لینے کا نعرہ لگائے۔

پچھلی مولا جٹ کا عذاب ہم نے تین دہائیوں تک بھگتا اب اس مولا جٹ کی خرابیاں جانے اور کتنے سال تک دیکھنے کو ملیں۔

دی لیجنڈ آف مولا جٹ اپنے بچوں کو بالکل نہ دکھائیں یہ میرے پنجاب کا کلچر نہیں ہے ۔ پنجاب مہمان نوازی ، سخاوت ، دوستی اور محبت کا کلچر ہے ۔ اگر بچوں کو کوئی اچھی فلم ہی دکھانا چاہتے ہیں تو انہیں منا بھائی ایم بی بی ایس دوبارہ دکھا لیں کہ وہ سمجھ سکیں کہ عزت کا معیار اچھا ڈاکٹر بننے میں ہے غنڈہ بننے میں نہیں۔ اگر انہیں دکھانا چاہتے ہیں تو نیٹ فلیکس پر “دی سوئمر “ دکھائیں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ ملک چھوڑنا بھی پڑ جائے تو خوابوں پر سمجھوتا نہیں کرتے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ویسے حیرت ہے نا کہ فٹ بال کے ہر ورلڈ کپ میں پاکستان کا بنا ہوا فٹ بال استعمال ہوتا ہے اور پاکستان کی  اپنی قابل ذکر فٹبال ٹیم ہی نہیں۔۔۔ کیونکہ ہر نوجوان بانہیں پھیلا کر اپنا تعارف یہی کرانا چاہتا ہوگا ۔۔۔ “کوئی میری دھون دا ول کڈے” ۔۔ کوئی میری گردن کا بل نکالے ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply