ذہن کی آزادی (Mind Upload)/وہاراامباکر

ہم ایک لامحدود کائنات میں موجود ہیں جو طبعی قوانین میں بندھی ہوئی ہے۔ اور اور میں ہمارا شعور گوشت پوست کے بنے فانی جسم میں قید ہے۔

ٹیکنالوجی اور جدتوں کے اس تیزرفتار دور میں کیا ایسا ممکن ہو سکے گا کہ اسے اس قید سے آزاد کروایا جا سکے؟ یہ وہ utopia ہے جس کا خواب کئی لوگ اگلی بڑی منزل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
ذہن کو ڈیجیٹل دنیا میں لے جا کر جسم کی قید سے آزاد ہو جانے کا یہ تصور mind uploading کا ہے۔
کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ اور اس کا مطلب کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
ذہن کیا ہے؟ اس کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ یہ ہمارے شعور اور ذہانت کا مجموعہ ہے جو کہ ہمارا تصورات، آگاہی اور خواب ممکن کرتا ہے۔
ذہن کی اپ لوڈنگ کا ہائپوتھیسس ہماری اس اندرونی دنیا کو کمپیوٹر تک منقتل کر کے شعور کو simulate کرنا ہے۔ تاہم اس تصور کے ساتھ کچھ بالکل بنیادی نوعیت کے مسائل ہیں۔
اس کا امکان تین assumptions کو درست فرض کئے جانے پر قائم ہے۔
پہلا مفروضہ physicalism کا ہے۔ اس کے مطابق ذہن کا وجود دماغ کے سٹرکچر اور بائیوکیمسٹری میں ہے۔
دوسرا مفروضہ scanability کا ہے۔ اس کے مطابق کسی روز ہم دماغ کو اچھا سمجھ لیں گے اور ایس ٹیکنالوجی بنا سکیں گے جو دماغ کے ہر پہلو کا ڈیجیٹل کلون بنا سکے۔
تیسرا مفروضہ computability کا ہے۔ اس کے مطابق کمپیوٹر سافٹ وئیر اس قابل ہو سکے گا کہ یہ ذہن کا میزبان بن سکے۔ یعنی کہ دماغ میں شعور سمیت کچھ بھی ایسا نہیں جو کو کمپیوٹر پر سمولیٹ نہ کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔
ان تینوں مفروضوں پر سائنسدانوں اور فلسفیوں میں گرم گرم (اور اکثر جذباتی) بحث رہتی ہے۔ ان کے درست ہونے پر اتفاق نہیں ہے۔
اور چونکہ کئی بنیادی سوالات غیرحل شدہ ہیں، اس لئے ان موضوعات پر بات سے ہمیشہ کسی نہ کسی کی ناراضگی کا خدشہ رہتا ہے۔ ابھی کیلئے ہم ان تینوں کو اس مضمون کے آخر تک درست سمجھ کر آگے بڑھتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ ایک دماغ چکرا دینے والا انتہائی پیچیدہ بائیولوجیکل سٹرکچر ہے۔ ایک کھرب نیورون جن میں ایک ملین ارب کنکنشن ہیں جو کہ ایک ہزار سگنل فی سیکنڈ بھیج رہے ہیں۔ یہ ہر سیکنڈ میں ہونے والے 1000000000000000 ایونٹ ہیں۔
اگلی چیز یہ کہ اس میں صرف نیورون ہی نہیں ہیں۔ سپورٹ کرنے والے اربوں دوسرے خلیات ہیں۔
میکرو سطح پر، دماغ کو مختلف حصوں میں بانٹا جاتا ہے جن میں ہر ایک کا اپنا کام ہے۔ سانس لینے، دل کی دھڑکن کی تال میل کے علاوہ بہت سے اضطراری افعال کا کنٹرول بھی ہے۔
دماغ کا سب سے ترقی یافتہ حصہ اس کی سب سے باہری تہہ نیوکورٹیکس ہے۔ یہاں پر منصوبہ بنانے ، سوچنے، امیدوں اور خواہشات کی صلاحیتوں کے مرکز ہیں۔ دماغ میں “آپ” کہاں پر ہیں؟ یہ واضح نہیں ہے۔ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ precuneus کورٹیکس جیسے علاقے شعور پر زیادہ اثرانداز ہوتے ہیں۔ لیکن کئی علاقے ملکر نیٹورک بنا سکتے ہیں اور ایسے کام کر سکتے ہیں جو اکیلے کوئی بھی نہ کر سکتا۔
دماغ کے بلڈنگ بلاک بھی سادہ نہیں ہیں۔ نیورون محض تاریں نہیں ہیں۔ یہ انفارمیشن کو پراسس بھی کرتے ہیں اور تبدیل بھی کرتے ہیں۔ ان کے جوڑ (synapse) سے سگنل ایک نیورون سے اگلے میں منتقل ہوتا ہے۔ یہاں پر سینکڑوں کیمیکل سگنل کے لئے ریسپٹر پائے جاتے ہیں۔ اور یہاں پر بھی بیرونی اثر ہو سکتا ہے۔
ہمیں اس سب کے کام کرنے کی بنیادی سمجھ تو ہے اور ہم اچھے طریقے سے چھوٹے سکیل پر ان کے behavior کو سمجھتے ہیں۔ لیکن دماغ میں اعصابی سگنل کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔
ہارمون بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ مثلاً، سیروٹونن ہمارے موڈ پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یا ہسٹامین ہمیں سیکھنے میں مدد کرتا ہے۔
دماغ پر دوسرے اعضاء بھی اثر کرتے ہیں۔ اس میں آنتوں کے بیکٹیریا سے لے کر دل کے اعصاب بھی شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سسٹم شروع میں پیچیدہ لگتا ہے اور جتنا زیادہ آپ اس کے بارے میں سیکھتے جاتے ہیں، آپ کو معلوم ہوتا جاتا ہے کہ یہ اس سے زیادہ پیچیدہ ہے جتنا کہ اس سے پہلے خیال تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلیات اور گوشت اور کیممیکلز کی آپس میں جڑی اس گمبھیر پیچیدگی کو کمپیوٹر میں کیسے لایا جائے؟ اس کے لئے ہمیں ایک ماڈل کی ضرورت ہے جس کو ہم ڈیجیٹل دنیا میں سمولیٹ کر سکیں۔ یہ کسی قسم کا scan ہو گا۔
بدقسمتی سے ہماری سکیننگ ٹیکنالوجی، جیسا کہ fMRI، اتنے اچھے نہیں کہ ان کی بنیاد پر ایسی کوشش کی جا سکے۔ لیکن ایک مختلف طریقہ ہے جو لیا جا سکتا ہے۔
دماغ کو کاٹ کر پتلے ٹکڑے کئے جائیں اور ان کو ہائی ریزولیوشن والی الیکٹرون مائیکروسکوپ کی مدد سے سکین کیا جائے۔ اس کی مدد سے خلیات اور کنکشنز کا ٹھیک نقشہ بن سکے۔
سن 2019 میں سائنسدانوں نے چوہے کے دماغ کے ایک مکعب ملی میٹر کو کامیابی سے سکین کیا تھا۔ (یہ ریت کے بڑے ذرے کے برابر ہے)۔ اس میں ایک لاکھ نیورون تھے۔ ایک ارب سائنیپس تھے اور چار کلومیٹر لمبا اعصابی ریشہ تھا۔
اس ایک مکعب ملی میٹر کے دماغ کو پچیس ہزار ٹکڑوں میں کاٹا گیا۔ اس میں پانچ الیکٹرون مائیکروسکوپ پانچ مہینے تک اس سے مسلسل ڈیٹا نکالتی رہیں۔ یہ دس کروڑ تصاویر تھیں۔ تین مہینوں میں ان کو اکٹھا کر کے تھری ڈی ماڈل بنایا گیا۔ اس مکمل ڈیٹا سیٹ نے 2 ملین گیگابائیٹ کی جگہ لی۔
انسانی دماغ کا سکین کرنے کیلئے ایسا کام دس لاکھ مرتبہ کرنا ہو گا۔ یہ کہنے میں آسان لگے لیکن کرنے میں نہیں۔
زیادہ مشکل یہ ہے کہ سمولیشن کے لئے ہمیں اس سے چھوٹے بلڈنگ بلاک کو بھی شامل کرنا پڑے۔ ان میں اربوں پروٹین ہیں اور کئی انفرادی مالیکیول بھی جو خلیاتی behavior پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
ایسا ممکن ہے کہ اس کو سٹور کرنے کیلئے اتنی ڈیجیٹل سٹوریج کی ضرورت پڑے جو دنیا کے تمام موجودہ ڈیٹا سنٹرز کی کل کیپیسٹی سے زیادہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ والے مسائل تنگ کرنے والے تو ہیں لیکن ایک بڑا مسئلہ تو ابھی باقی ہے۔ اس تمام ساکن نقشے کو ایک متحرک شے میں کیسے بدلا جائے؟
اگر ہمارے پاس سائنپیس کی سطح کا بھی تمام سکین موجود ہو، ہمیں اب وہ قوانین اور اصول درکار ہیں جو اس وائرنگ کی ڈایاگرام کو متحرک کرتے ہیں۔ اس میں کیمیائی بائیڈنگ اور الیکٹروڈائنامکس کے مختلف قانون شامل ہیں۔ انہی کی مدد سے سمولیشن شروع کی جا سکتی ہے۔
دماغ جامد شے نہیں۔ یہ ایک مائیکروسیکنڈ سے اگلے میں تبدیل ہو رہا ہے۔ بصارت، سوچ اور ایکشن سب وقت میں اس کے ارتقا کا نتیجہ ہے۔
اور ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ایسا اصولی طور پر بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اور ہماری ٹیکنالوجی اصل ذہن بنا سکتی ہے یا نہیں۔
اس کا تعلق اس مسئلے کی نیچر سے ہے۔ کیا دماغ اور ذہن صرف پیچیدگی ہی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو بہت سا کام کئے جانا اس کو حل کر سکتا ہے۔
لیکن کیا یہاں پر پیچیدگی کی الگ ہی قسم کی تہہ ہے جس کو ہم حل نہیں کر سکتے۔ کیا “کُل” اپنے اجزاء سے زیادہ ہے؟ (یہ ایک عام مسئلہ ہے) اور اس طریقے سے جس کا اس وقت ہمیں کوئی اندازہ نہیں؟
اگر ایسا ہے تو بہتر سکین کرنا ہمیں اس کے کام کرنے کے علم میں بہت زیادہ مدد نہیں کر سکے گا۔ اور صرف اجزاء کا بتا سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہمارے پاس اچھا نقطہ آغاز ہے۔ بہت کچھ نامعلوم ہے اور ذہن کی اپلوڈنگ تک پہنچنے کیلئے کئی نئی اچھوتی جدتوں کی ضرورت ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہم مستقبل میں ترقی کی رفتار کا اندازہ لگانے کے بارے میں اچھے نہیں۔
بہترین کیس یہ ہو سکتا ہے کہ بس بہت سا کام اور ٹھیک حل درکار ہوں گے۔ اور لازمی نہیں کہ ہم ہر آخری خلیے اور مالیکیول کو بھی سمولیٹ کریں۔ ایسا ممکن ہے کہ اس مسئلے کو سادہ کیا جا سکے۔ probability کے ماڈل بنائے جا سکیں۔ اور دماغ کے behavior کو نسبتاً سادہ سسٹم سے سمولیٹ کیا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو اگرچہ ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ ذہن اپ لوڈ کرنا ممکن ہو گا یا نہیں لیکن سائنس میں اس سمت میں تحقیق بڑی دلچسپ ہو سکتی ہے۔ اور ہم اس تحقیق سے ٹیکنالوجی میں کئی قسم کی نئی اختراعات کر سکتے ہیں اور اپنے بارے میں بھی کئی نئی چیزیں سیکھ سکتے ہیں اور ۔
۔۔۔۔۔۔۔
اور بالفرض اگر ایسا کرنا ممکن ہو گیا تو اس کے نتائج بڑے اور حیرت انگیز ہو سکتے ہیں۔ یہ کائنات میں ہمارے مستقبل کو بدل سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذہن کا کامیاب اپ لوڈ کئے جانا فنکشنل لافانیت ہو گی۔ یہ کاپی اس وقت تک وجود رکھے گی، جب تک ڈیلیٹ نہیں کر دیا جاتا۔ اور اگر اس میں کوئی بھی خرابی آتی ہے تو ساتھ ہی ذہن میں بھی خرابی پیدا ہو جائے گی۔ یہ ہمیشہ رہنے والی ناقابلِ بیان اذیت بھی ہو سکتی ہے، کوئی پاگل پن بھی یا نہ ختم ہونے والا اعصابی دورہ بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلا سوال یہ کہ کیا اپ لوڈ ہونے والا یہ ذہن آپ ہی ہوں گے؟ یہ سوال مشکل مسائل کی الگ ہی پٹاری ہے۔ غالباً ایسا نہ ہو، لیکن ہم فی الحال کے لئے فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ڈیجیٹل ذہن کم از کم ایسا محسوس کرتا ہے کہ یہ آپ ہی ہیں۔
خیر، جیسے بھی ہے۔ آپ کے ذہن کی کاپی ایک مکمل طور پر نئی زندگی شروع کرے گی۔ اور یہ آپ کی زندگی کے درمیان میں بھی ہو سکتا ہے۔ آپ دونوں بیک وقت موجود ہو سکتے ہیں۔
جب آپ ڈیجیٹل آنکھ پہلی بار کھولیں گے تو کیا احساس ہو گا؟ بائیولوجیکل جسم کا ساتھ ہونا اچھی بات ہے اور ہمیں اس کی عادت ہے۔ کھانا، پیار، تکلیف، تھکن ۔۔۔ یہ ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ بائیولوجیکل جسم کے بغیر ایسے تصورات؟ ڈیجیٹل دنیا میں ان کا ہونا لازم نہیں۔
لیکن پھر اگر محبت ایک بٹن دبا کر آن یا آف ہو جائے تو پھر یہ اپنے معنی ہی کھو دیتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ آپ نئے غیرمعمولی تجربات کی تلاش کریں۔ بورنگ وقت کو فاسٹ فارورڈ کر دیں؟ سورج کی سطح پر چلنا چاہیں؟ ماضی کی دنیا کی سمولیشن کریں اور ڈائنوسارز کے ساتھ وقت گزاریں؟
وقت کے ساتھ آپ کے تصورات اور ترجیحات تبدیل ہوتے جائیں گے۔ اور یہ ذہن اپنے بارے میں تبدیلیاں بھی کر سکیں گے۔ ایسی یادداشت کو ختم کر دینا جو تنگ کر رہی ہو۔ اپنی شخصیت میں مرضی کی ترمیم۔ کینہ پروری، کاہلی یا نشے کو چھوڑنے کے انتخاب پر عمل بٹن دبانے سے ہو جائے گا۔
بائیولوجی کی قید کے بغیر ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ آپ کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہو سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس سب کے دوران میں آپ کی ترجیحات اپنی موجودہ شخصیت سے اس قدر بدل چکے ہوں گے کہ شاید ان میں آپ کی کچھ بھی رمق باقی نہ رہے۔
آپ ایس پراجیکٹس پر کام کر سکیں گے جنہیں ایک شخص کی زندگی سے زیادہ کا عرصہ درکار ہو۔ سائنسدان نئی دریافتیں کر سکیں گے۔ مہم جو خود کو خلائی جہاز میں اپ لوڈ کر کے خود کو pause کر لیں گے اور ہزاروں سال کے سفر پر نکل جائیں گے۔
اور ہر ڈیجیٹل ذہن انسانیت کی بہتری کیلئے کام نہیں کرے گا۔ جھگڑے، جرائم، طاقت اور اثر حاصل کرنے کے چکر بھی ہوں گے۔ بڑی سلطنتیں بنانے اور طاقتور ہونے کیلئے بھی لامحدود وقت ہو گا۔
کئی لوگ اپنے لئے مال و دولت اور ساز و سامان کے ذخیرے اکٹھے کرنے کا کام کریں گے۔ اور ان کا مقابلہ اپنے جیسے دوسرے ذہنوں کے ساتھ ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ڈیجیٹل ذہن جتنا زیادہ عرصہ رہیں گے، ان کی گوشت پوست کے سادہ انسانوں سے ہمدردی اور تعلق شاید کم ہوتا جائے۔
تاریخ کے بدترین لوگ بھی اس طرح ہمیشہ کی زندگی پا سکیں گے اور موت ان سے چھٹکارا نہیں دلا سکے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یا شاید نہیں۔ ہمارے ذہن خود ہی لافانیت کے لئے نہیں بنے۔ ڈیجیٹل ذہن جامد ہو جائیں گے اور بوریت کا شکار ہو جائیں گے اور کسی وقت میں اس سب سے ریٹائر ہو جانے کا فیصلہ کر لیں گے۔ وہ ہر چیز کا تجربہ تو کر چکے ہیں۔ سینکڑوں یا ہزاروں سال کی فراغت؟ یہ شاید بالکل بھی پرکشش نہیں لگے گی۔
شاید تب بھی ہم ڈیلیٹ ہو جانے کا انتظار یا پھر انتخاب کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ اس ویڈیو سے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply