دوسری شادی میں حائل مسائل اور ان کا حل/حافظ محمد زبیر

کل “بچے کی غلطی” سے “گاٹ میرییڈ” کا اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا کہ جس سے دوسری شادی کے بارے ایک بار پھر بحث چھڑ گئی۔ ہمارے ہاں مذہبی طبقہ دوسری شادی کے لیے موٹیویٹ ضرور کرتا ہے لیکن اس کے مسائل اور ان کے حل پر گفتگو بہت کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی طبقے میں ایک بڑے پیمانے پر دوسری شادی کی محض خواہش ہے، عمل نہیں ہے۔ عمل اسی وقت ممکن ہو سکے گا جبکہ اس کے مسائل کو متعین کر کے ان کے حل پر بحث ہو گی ورنہ تو لوگوں کو معلوم ہے کہ دین کا حکم کیا ہے، سنت کیا ہے، لیکن دین اس کے حکم یا سنت پر عمل کرنے سے علما  بھی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، یہ وہ گیپ ہے کہ جسے فِل کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو لطیفے سنا کر یا جگتیں مار کر خوش ہو جاتے ہیں اور اپنی فرسڑیشن نکال لیتے ہیں۔ آپ لوگ بھی دوسری شادی کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے کمنٹس میں اپنے خیالات کا اظہار کریں کہ اس کے مسائل دینی سے زیادہ سماجی ہیں۔

ایک صحت مند مرد کے لیے ایک بیوی ناکافی ہے، یہ بات بہت حد تک درست ہے۔ ایک بیوی کافی ہو سکتی ہے، یہ بات بھی درست ہے، لیکن وہ خود نہیں ہوتی یا ہونا چاہتی، اپنی حرکتوں اور رویوں کے سبب، کیونکہ اس نے اپنے خاوند کو نہ  کرنی ہی ہوتی ہے، کبھی اسے دبانے اور نیچے رکھنے کے لیے، اور کبھی کسی بات کا غصہ اتارنے اور بدلہ لینے کے لیے، اور کبھی اسے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کیوں ایسا کر رہی ہے، اور کبھی فطرت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ نہ  کرتی ہے جیسا کہ حالت ِ حیض میں ہے، یا حمل ٹھہرا ہوا ہے، یا ساس نند کے کہے سنے کا غم منا رہی ہے، کبھی جوائنٹ فیملی سسٹم ہے، کبھی بچے چھوٹے ہیں تو ان کے جاگ جانے کا اندیشہ ہے، کبھی بچے بڑے ہیں تو ان کے ٹپکنے کا خطرہ ہے، لہذا موقع ہی نہیں مل رہا، اور موقع مل جائے تو بیوی کا موڈ نہیں بن رہا، لہذا پاکستانی بیوی تو مرد کو سال میں دو تین مرتبہ ہی بمشکل ملتی ہو گی، باقی تو وہ زیادہ تر کپڑوں سمیٹ ہی ضرورت پوری کرنے پر گزارا کر لیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں اس کا گزارا ہو جاتا ہے، مرد کا نہیں ہوتا۔ تو یہ مردوں کا چسکا نہیں ہے جیسا کہ بیویوں کا خیال ہوتا ہے بلکہ یہ ان کی ضرورت ہے۔

پہلا مسئلہ جو عام طور لوگ بیان کرتے ہیں اور لوگوں کا خیال ہے کہ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، وہ بیوی اور اس کے خاندان کی طرف سے سوشل پریشر ہے جبکہ بیوی کا خاندانی اسٹیٹس اچھا ہو۔ آپ کی پہلی بیوی مذہبی خاندان سے بھی ہو گی تو بھی آپ پر بہت زیادہ سوشل پریشر ہو گا کہ آپ دوسری شادی نہ کریں۔ اور یہ سوشل پریشر محض پریشر نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات آپ کو محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے دوسری شادی کر لی تو آپ کی زندگی اجیرن ہو جائے گی لہذا آپ ڈر جاتے ہیں کہ ایک مشکل یعنی سیکسچوئل فرسٹریشن سے نکل کر دوسری بڑی مشکل گھر کی تباہی کو گلے لگانا کون سی عقلمندی ہے؟

میں تو اس مسئلے کا حل یہی بیان کرتا ہوں کہ مستقل طور نہیں البتہ کچھ عرصے کے لیے جیسا کہ دو چار سال کے لیے دوسری شادی کو چھپا لیں کہ ایک دو بچے پیدا ہو جائیں تو ظاہر کر دیں کہ اس کے بعد عورت میں قبولیت کسی قدر آ ہی جاتی ہے۔ لیکن اب اس حل سے ایک دوسرا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جب آپ شادی کو کچھ عرصہ چھپائیں گے تو لازماً دوسری بیوی کے حقوق میں کوتاہی کریں گے تو آخرت خراب ہو گی۔ ایسے میں اگر آپ ایسی بیوی چاہتے ہیں جو اپنے کم حق پر راضی ہو جائے اور آپ کو اپنا حق معاف کر دے تو وہ ملے گی نہیں۔ خیر مل تو جائے گی لیکن آپ کے سوشل اسٹیٹس کی نہیں ملے گی اور شادی ناکام ہو جائے گی۔ میں نے ایسی دوسری شادیاں دیکھی ہیں کہ جن میں مردوں نے اپنے سوشل اسٹیٹس سے کافی نیچے کمپرومائز کر کے شادی کر لی لیکن ذہنی سطح ایک نہ ہونے کی وجہ سے شادی چل نہ سکی۔ اس مسئلے کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی مطلقہ یا خلع یافتہ خاتون دیکھیں، شاید وہاں آپ کو زیادہ کمپرومائز نہ کرنا پڑے اور اپنے سوشل اسٹیٹس کی مل جائے۔

تیسرا اہم مسئلہ جو میرے نزدیک سب سے اہم ہے، گھر ہے۔ دوسری شادی کرنے سے پہلے آپ کے پاس دو گھر ہونے چاہئیں، یہ ضروری ہے۔ دینی نہیں، سماجی ضرورت کی بات کر رہا ہوں۔ آپ معاشی طور مضبوط ہیں تو دوسری شادی کی صورت میں آپ کی پہلی بیوی کہیں نہیں جائے گی لیکن اگر آپ معاشی طور کمزور ہیں تو پہلی بیوی آپ کے پاس نہیں ٹکے گی لہذا دوسری شادی کا فائدہ نہیں ہو گا کہ رہے گی تو آپ کے پاس ایک ہی۔ اور یہاں اس تنخواہ میں ایک گھر بنانے میں زندگی لگ جاتی ہے چہ جائیکہ کہ انسان دو گھر بنا پائے۔ آپ کو پہلا بلکہ دوسرا رشتہ بھی اسی صورت بہتر ملے گا جبکہ آپ کے پاس اپنا گھر ہو گا۔

اور فی الحال کی صورت حال یہ ہے کہ مڈل کلاس میں میاں بیوی دونوں کماتے ہیں، ایک گھر کا کرایہ دیتا ہے جیسا کہ بیوی ہے اور دوسرا گھر کا خرچ اٹھاتا ہے جیسا کہ شوہر ہے۔ اب جبکہ آپ کرائے کے مکان میں ہوں یا مکان کا کرایہ بھی آپ کا لائف پارٹنر دے رہا ہو اور اس طرح آپ زندگی کی گاڑی کھینچ رہے ہوں تو کس طرح دوسری شادی افورڈ کر سکتے ہیں؟ اس کا حل بعض لوگوں نے یہ نکالا کہ دوسری شادی بھی ایسی ہی خاتون سے کر لی جو ملازمت پیشہ تھی اور وہاں بھی یہی ماڈل چلا لیا کہ کچھ خرچ عورت نے اٹھایا اور کچھ مرد نے۔ لیکن اس سے ایک مسئلہ تو حل ہوا البتہ دوسرا بڑھ گیا۔ اور وہ یہ کہ بیوی جب گھر کا خرچ اٹھاتی ہے تو دباتی بھی ہے تو بیوی کا یہ دباؤ اب دو گنا ہو گیا۔ تو اگر آپ اتنا ذہنی دباؤ لے سکتے ہیں تو کر لیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ شادیاں دو نہیں، تین یا چار کریں۔ دو تو مرد کو فٹ بال بنائیں گی الا یہ کہ کسی میں خوف خدا غالب ہو۔

اصل میں دوسری شادی نہ تو غریب طبقہ کر سکتا ہے کیونکہ ان کے مسائل تو کھانے پینے سے ہی نہیں نکلے۔ مڈل کلاس کے مسائل وہی ہیں جو اوپر بیان کیے ہیں کہ گھر نہیں ہے، یا ملازمت اور بزنس اسٹیبل نہیں ہے اور میاں بیوی مل کر گھر کا خرچ پورا کر رہے ہیں۔ البتہ ایلیٹ کلاس کے لوگ کر سکتے ہیں کہ جن کے ڈی ایچ اے، گلبرگ، بحریہ ٹاؤن اور ماڈل ٹاؤن وغیرہ میں دو دو کنال کی کوٹھیاں ہیں لیکن دین اور ایمان عموماً  ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں لہذا انہیں ضرورت ہی نہیں۔ مطلب، وہ دوسری شادی کے بغیر دسیوں عورتوں سے اپنی خواہش پوری کر سکتے ہیں لہذا انہیں دوسری شادی بے وقوفی معلوم ہوتی ہے۔ پہلی بھی انہوں نے دنیا کو دکھانے کے لیے کر رکھی ہوتی ہے۔ ان میں اگر کوئی دیندار ہے تو اسے آسائش اور تن آسانی کی زندگی نے بزدل بنا رکھا ہے کہ جسے وہ حکمت اور فراست سمجھے بیٹھا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مسائل ہیں لیکن تحریر لمبی ہو جائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دوسری شادی مسئلے کا حل نہیں ہے، اوور آل بات کر رہا ہوں، مسئلے کا حل تیسری اور چوتھی شادی ہے۔ جس نے تیسری اور چوتھی کرنی ہے، وہ ہمت کرے۔ دوسری والا پریشان ہی رہے گا۔ واللہ اعلم بالصواب

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply