کون ساسندھ،کون سی ثقافت؟/ محمد خان داؤد

کسی دوست نے طنز جیسا مشورہ دے کر کہا کہ

آپ تو بالکل سندھ کو بھول چکے ہیں،سندھ پر لکھیں سندھ کی ثقافت پر لکھیں!

اور میں نے بالکل بے خیالی سے پوچھا ،،کون سا سندھ؟،،

اس وقت میرے ذہن میں کچھ بھی نہیں تھا،پر اب جب رات کے آخری پہروں میں کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو اپنے سوال پر سوچ رہا ہوں اور مجھے یاد آر ہا ہے وہ خلیل جبران جب اس کے سامنے ایسا ہی سوال آیا تھا تو جب ہی تو اس نے لکھا تھا کہ

،،لبنان ایک نہیں ہے

لبنان دو ہیں!

ایک لبنان آ پ کا ہے

اور دوسرا لبنان میرا ہے

آپ کا لبنان الجھا ہوا معاملا ہے

اور میرا لبنان پاکیزہ حسن کی سادہ حقیقت!

آپ کا لبنان مشرق اور مغرب کے لوگوں کی تقسیم ہے

میرا لبنان پرندوں کا وہ ہجموم ہے

جو اس وقت آکاش میں نظر آتے ہیں

جب چرہا اپنے مویشیوں کو چراگاہوں کو واپس لیے جاتے ہیں

یا جب وہ سورج ڈھلتے وقت واپس آتے ہیں

کیا تم میں یہ کہنے کی جرئت ہے کہ

میری زندگی میرے وطن کی نبض میں خون کا قطرہ تھا

آنکھوں میں آنسوؤں کا قطرہ

اس کے ہونٹوں کی مسکان تھی!،،

میں یقین سے نہیں کہہ سکتا پر مجھے پکا شک ہے کہ جب میں نے کہا کہ ،،کون سا سندھ؟،،اس وقت میرے تحت الشعور میں جبران کی اس تحریرکا ان مٹا عکس ضرورموجود تھا۔اب جب میں سوچ رہا ہوں تو بس جبران ہی نہیں پر ہر حساس اورتخلیقی انسان کو یہ احساس رہتا ہوگا کہ یہ وطن اس کا وطن نہیں!

جس وطن کی باتیں بیکاؤ سیاستدان کرتے ہیں

جس وطن پر نااہل حکمران حکومت کرتے ہیں

جس وطن کے لوگ اپنے ہم وطنوں کا خون بہاتے ہیں

عورتوں کی گردنیں تیز دھار آلے سے اتار تے ہیں

اور پردیسی پرندوں کو گولیوں سے مارتے ہیں

اس لیے اس وطن کو میں اپنا وطن کیسے کہوں؟

جہاں پر غلامی ایک گالی نہیں

پر روزگار ہے!

میں اس وطن کو اپنا وطن کیسے پکاروں

جہاں محبت عبادت نہیں

پر ایک جرم ہے!

نہیں میرا وطن وہ نہیں

جس کے بیج بیج سے انسانی خون کی بدبو آئے

جس کو لومڑی کا دماغ

بھیڑئیے کا دل

اور لگڑ بگڑ جیسی بے رحمی ہے!

میرا وطن تو کوئل کی وہ کوکُ ہے

جو جنگل کے دل میں جب بھی بجتی ہے

جب وہ درخت کی شاخ سے اُڑ جا تی ہے!

میرا وطن لاڑ اور اتر کی تقسیم نہیں

وہ تو جھولے کی آکاش میں اُڑان ہے

دو نینوں کا دیکھنا ہے

دو لبوں کا بوسہ ہے!

میں اس وطن کو ڈس اون کرتا ہوں

اس سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتا ہوں

اس کو اپنے وطن کے خلاف پیدا کیا ایک محاظ سمجھتا ہوں

جس وطن میں وڈیرے شوق سے غداریاں کرتے ہیں

اور وطن فروشوں کی جھولیاں ووٹوں سے بھر دی جا تی ہیں

جہاں حقداروں کو حق کے بجائے پولیس والوں کے ڈنڈے ملتے ہیں

اور مجرم اپنی موچھوں کو تاؤ دیتے گھومتے پھرتے ہیں

یہ وطن میرا وطن کیسے ہو سکتا ہے؟

جہاں عورتوں کو بیچا جائے

اور بچوں سے مزدوری کرائی جائے

اور لاک اپ میں بے پہچ انسانوں کولٹکتی مرغیوں کے جیسے ٹانگا جائے

یہ وطن میرا نہیں

جہاں جاہل سکھُ سے رہتے ہوں

اور عالموں کو ذلیل کیا جائے

عاشقوں پر کیس درج کیے جائیں

اور مہ نوشی کو حقارت سے دیکھا جائے

اور انسانوں کا خون چوسنے کا مطلب

کامیاب کاروبار ہو

میرا وطن ببر(سندھ کا مخصوص درخت) کا کانٹا نہیں

وہ تو کانٹوں میں کھلا وہ پیلا پھول ہے

جو ہر طرف سے بچوں کو حیرت سے تکتا رہتا ہے!

میرا وطن!

چالاک بیرو کریٹ نہیں

وہ کسی چیف کا چمچہ نہیں

وہ تو ایک کیف ہے

مستی ہے

سرور ہے!

وہ سزا نہیں

وہ سزا جو کسی اچھے عمل پر ملتی ہو

جو چاہت کے جرم میں،چابک کی صورت میں

اس بچی کے جسم پر پڑے

جو بھیگے نینوں سے

پیار کا پہلا خواب دیکھتی ہے

میرا وطن قربانی کو جانور نہیں

جس کے حصے بانٹے جائیں!

میرا وطن تو ایک گیت ہے

ہوا کا جھونکا ہے

ندی میں بہتا پردیسی پھول ہے

کسی خوبصورت چھیرے پر اُڑتی بالوں کی لٹ ہے

وہ آنکھیں ہے جس کا رونے سے سرمہ گیلا ہو جائے

میرا وطن ان لکیروں کا نام نہیں

جن کو فوجی سرحدیں سمجھتے ہیں

میرا وطن تو وہ تصویر ہے

جو معصوم بچے اپنے ہاتھوں سے بنا تے ہیں

میرا وطن جھوٹا واعدہ نہیں

وہ تو ایسا وچن ہے

جو مسکراتا سوُلی پر چھڑجاتا ہے

میرا وطن مداری کا تماشہ نہیں

وہ محنت کش کے ہاتھوں کہ جیسے مقدس

اور شک سے بالا تر ہے!

اس ماں کی لولی ہے

جس کا بیٹا قتل کیا جائے

اس عورت کے ناک میں پڑا وہ نگ ہے

جس پر کالی کا جھوٹا الزام لگایا جائے!

اور اس یتیم بچے کا آنسو ہے

جسے بتایا جائے کہ

،،تمہاری امی حج پر گئی ہے،،

میرا وطن کون سا ہے؟

اس کا پتا شاید مجھے بھی نہیں

مجھے بس اتنا معلوم ہے کہ

میرے وطن کا نام،،سندھ،،ہے

وہ سندھ جو ایاز کی شاعری میں ہے

وہ سندھ جو کارونجھر کے پہاڑوں پر کوُکتے

موروں کی کوُک میں ہے

وہ سندھ جو سیوھن جاتے

اس پہاڑی موڑ پر ہے

جسے یاد کرتے حسن درس نے لکھا تھا کہ

،،تم جو آپ پرندے جیسی ہو

لکی شاہ در پر ملی

گونگی شام پہاڑوں میں ملی،،

جو رات دیر تک بھٹ شاہ پر بجتے طنبورے

کی تاروں سے اُلجھ جاتی ہے

جو کھینجر کے کنارے

پاگل چاندکے جیسے اس نوری کو تلاش کرتی ہے

جس کا تماچی کبھی بھی نہ آنے کے لیے

چلا گیا ہے

میری سندھ مارئی کی لوئی(چادر) نہیں

پر اس کا جبر کے سامنے انکار ہے

سسئی کی فریاد نہیں

پر اس کے پیروں کا زخم ہے

وہ مومل کی بغاوت ہے

وہ آخری جام ہے

جو موکھی آپ بھر رہی ہے

اور متارے اس کی لاش پر ماتم کر رہے ہیں

میری سندھ وہ لال کارپیٹ نہیں

جو آمر حکمرانوں کی آمد کے وقت بچھایا جاتا ہے

میری سندھ لاہوت کی طرف جاتی وہ اداس راہ ہے

جسے دیکھ کر لطیف نے اپنی روتی وائیاں لکھی تھیں

میری سندھ سجادہ نشین کے ہجرے میں

مجرا ہوتے ہوئے اس بوتل سے گر ایا گیا پیگ نہیں

وہ تو اس موالی کا سوُٹا ہے

جس کی مسکراہٹ دیکھ کر

دنیا کا سارا عیش و آرام

مٹی کے برتن کے جیسے ٹوٹ جاتا ہے!

تم مجھ سے میرے وطن کے بارے میں پوچھتے ہو؟

آج آؤ ،،موہن جو دڑو ،،پر دیکھو

الوپ ہوتے صبح کا آخری ستارہ

اور سنواس تڈ(ایک حشرت العرض)کی تنوار

جسے سارے ماحول کی

وحشتناک خاموشی بھی بھی چپ نہیں کرا سکتی

میرا وطن حاسد ادیبوں کی اس سازش کا نام نہیں

جو وہ قلم سے کرتے ہیں!

میرا وطن تو ان پنچھیوں کا وہ روٹھ جانا ہے

جس سے وہ بہت دور اُڑجاتے ہیں

کچھ منافقین کی کامیابیاں

میرا وطن نہیں ہو سکتیں

میرا وطن تو ایک ایسی ہار ہے

جس پر جاہلوں کی ہزارجیتیں قربان کی جا سکتیں

میرا وطن منزل نہیں

ایک سفر ہے

ایک ایسی طویل یاترا

جس کے لیے ہر راہ کا موڑ رکُ کر یہ سوچتا ہے کہ

کاش!ایک رات کے لیے ہی صحیح

پر ہ میرے پاس قیام کرے

ایک سندھ ان کا ہے

ایک سندھ میراہے

ایک وطن ان کا ہے

ایک وطن میرا ہے

اِس وطن اور اُس وطن کے بیچ میں

فرق کو بس وہ آنکھ دیکھ سکتی ہے

جو آنکھ اس فرق کو جان پائے

جو فرق کرسی اور قربانی کے درمیان ہوتا ہے

میری سندھ صدارت نہیں ہے

میری سندھ شہادت ہے

اس وقت رات جا رہی ہے

اور بہت دور کتے بھوک رہے ہیں

اور ٹھٹہ کے مکلی پر چاند ڈھل رہا ہے اور کسی گھیری سوچ میں غرق ہے

میں سوچ رہا ہوں

اپنی ا س سندھ پہ

Advertisements
julia rana solicitors london

جس کی آنکھیں نئے جنم لیتے بچے کی ماند بند ہیں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply