• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نیل کے سات رنگ(جنجوید سے فرار، جنگل میں شکار، مورنی میں واپسی)-قسط12/انجینئر ظفر اقبال وٹو

نیل کے سات رنگ(جنجوید سے فرار، جنگل میں شکار، مورنی میں واپسی)-قسط12/انجینئر ظفر اقبال وٹو

میں نے وہیں کھڑے کھڑے لاشعوری طور پر اپنے دائیں پاؤں کی ایڑی پریو ٹرن لیا لیکن اس اجنبی نے کوئی حرکت نہ کی۔ میں نے آہستہ سے ایک قدم لیا مگر گولی چلنے کی کوئی آواز نہ آئی میں نے دوسرا قدم لیا پھر بھی گولی میرے دماغ کو چیرتی ہوئی نہ گزری۔ میں آہستہ آہستہ ایک ایک قدم لیتے ہوئے تھوڑا پیچھے آگیا تھا مگر خلاف توقع اس اجنبی محافظ نے اپنا ہتھیار ابھی تک استعمال نہیں کیا تھا۔ہر قدم پر لگتا تھا کہ ابھی نعرہ جنجوید بلند ہو گا اور اس کے ساتھ ہی میرے جسم سے خون کے فوارے بلند ہونا شروع ہو جائیں گے۔ شاید وہ ابھی میرے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگا پایا تھا۔ میں اب تیزی سے واپسی کے راستے پر چلنے لگا تاکہ اس پتھر کے مجسمے میں جنجوید کی روح آنے سے پہلے پہلے اس کی رینج سے دور بھاگ جاؤں۔ اور پھر اپنے آپ کو نسبتاً کم بلندی والی پہاڑی ڈھلوان پرلڑھکا لیا اور نیچے آتے آتےچند قلابازیاں کھانے کے بعد ریت پر لیٹے سکیورٹی والوں کے پاس کسی پتھر کی طرح آگرا ۔

سکیورٹی والے واپسی پر میری اس طرح کی لینڈنگ کی توقع نہیں کر رہے تھے اس لئے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔میرا جسم پسینہ پسینہ ہورہا تھا اور میں خوف کے مارے کچھ بول نہیں پا رہا تھا۔ بڑی مشکل سے میں نے ان سے پانی مانگا لیکن پانی کی بوتلیں تو گاڑی میں رہ گئی تھیں،ایک سکیورٹی والے نے جلدی سے ریت کے دریا میں کوئی ایک فٹ گہرا اور دو فٹ قطر کا گڑھا کھودا تو اس میں صاف ستھرا پانی نتھر آیا جو اس نے میرے جسم پر ڈالنا شروع کردیا۔پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو ملا کر ان میں پانی بھر کر میرے منہ کے ساتھ لگا دیا جو میں نے فوراً  پی لیا۔ پانی سے سیر ہونے کے بعد میں ریت پر ہی لمبا ہو کر لیٹ گیا۔ میں نے انہیں اوپر موجود خطرے سے آگاہ کردیا۔ ان میں سے دو نے میرے ساتھ فوراً پوزیشنیں سنبھال لیں جبکہ باقی دہ شاہ جی کی تلاش میں دائیں طرف والی پہاڑی کی طرف دوڑ پڑے۔ ان کا انچارج ہماری اس حرکت پر خوش نہیں تھا اور یوں بِلا اجازت ہمارے بلندی پر اکیلا چڑھنے پر بہت شور مچا رہا تھا۔ اس نے فورا ً سائٹ وزٹ ختم کرکے واپسی کا حکم دے دیا تھا۔تاہم شاہ جی کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ سکیورٹی والے شاہ جی کے پیچھے پہاڑی کے اوپر جانے سے ہچکچا رہے تھے۔اور نیچے سے ہی ان کو ڈھونڈ رہے تھے۔میرا اندازہ تھا کہ شاہ جی اپنی رفتار کے حساب سے اس وقت چوٹی کے دوسری طرف اتر کر ‘نارتھ ساؤتھ نومیڈ کوریڈور” کی طرف والی جگہ کا جائزہ لے رہے ہونگے۔

سکیورٹی انچارج نے مجھے گاڑی میں واپس جانے کا کہا تھا مگر میں شاہ جی کو ساتھ لئے بغیر وہاں سے ہلنے کو تیار نہیں تھا۔اسی کشمکش میں آدھا گھنٹہ اور گزر گیا اور ہماری پریشانی بہت بڑھ گئی ۔میں نے سکیورٹی والوں کو پہاڑی کے دوسری طرف سے گاڑی لے جا کر دیکھنے کا کہا مگر وہ کوئی رسک لینے پر تیار نہیں تھے۔ سورج آہستہ آہستہ نیچےسرک رہا تھا اور درختوں کے سائے بہت لمبے ہو گئے تھے۔درے پر دوسری طرف کی پہاڑی کا سایہ آنے سے روشنی ختم ہوگئی تھی ۔سکیورٹی والوں کا کہنا تھا کہ اگر کچھ دیر تک شاہ جی کا سراغ نہ ملا تو پھر ہمیں واپس جانا ہوگا۔میں شاہ جی کی خبر ملنے تک واپس جانے سے انکاری تھا اور اب ہمارے درمیان زور زور سے بحث شروع ہو گئی تھی کہ  اتنی دیر میں درے سے کافی دور شاہ جی ریت کے دریا میں خراماں خرامان چلتے ہوئے واپس آتے نظر آئے۔وہ سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے اور کبھی کبھی کھڑے ہو کر کسی پہاڑی کے پتھروں کی  ساخت کا جائزہ لینا شروع کر دیتے۔ سکیورٹی والوں کی جان میں جان آئی اور وہ شاہ جی کو لینے کے لئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہم ریت کے دریا میں دھنستے ، گرتے اور دوڑتے جلدی سے گاڑیوں میں آکر بیٹھ گئے اور ڈرائیوروں نے گاڑیاں بھگا دیں۔

شاہ جی پریشان ہورہے تھے کہ معاملہ کیا ہے۔ میں انہیں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی تفصیل بتا ئی تو وہ بھی پریشان ہوگئے۔ تاہم وہ بتا رہے تھے کہ الحمدللہ ان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔شام کے ساڑھے چھ بج رہے تھے۔ سات بجے تک سورج غروب ہو جانا تھا اور پھر اندھیرا ہو جاتا ۔ہمارے ڈرائیور کوشش کر رہے تھے کہ اندھیرا چھانےجانے سے پہلے پہلے ‘مورنی ‘ قصبے کے زیادہ سے زیادہ قریب پہنچ جائیں جو کہ ہم سے دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔

سورج غروب ہو رہا تھا اور ہم ایک دفعہ پھر ‘دریسا’ گاؤں میں سے گزرنا شروع ہو گئے تھے۔ مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میں ‘ہالہ” کیلئے اس کی گڑیا اس کے تباہ شدہ سرخ اینٹوں والے مکان کی ‘کنس’ سے نہیں اٹھا سکا تھا۔اس کے بابا کی قبر پر مٹھی بھر مٹی بھی نہیں ڈال سکا تھا۔ شاید وہ کسی اجتماعی قبر میں مدفون تھے جس کا ہمیں پتہ نہیں تھا۔ میں پہاڑی کے اوپر بیٹھے جنجوید سے اس اجتماعی قبر کی جگہ ہی پوچھ لیتا۔یا شاید وہ مجھے اتنا ہی بتا دیتا کہ ان کی لاش کو جلایا تو نہیں گیا تھا۔مگر وہ تو پتھر کا مجسمہ بن کر ہی کھڑا رہا تھا۔تاہم شاہ جی مطمئن تھے کہ انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق ‘ہالہ’ کے لئے ‘دریسا’ گاؤں کی کچھ تصویریں بنا لی تھیں –ہمیں یقین تھا کہ وہ جامنی کپڑے پہنے اب بھی ‘مورنی’ قصبے میں اپنے ٹھیلے پر بیٹھی ہماری واپسی کا انتظار کر رہی ہوگی تاکہ ہماری آنکھوں میں اپنے ‘دریسا ‘ کا عکس دیکھ سکے۔

گاڑی کے اندر ماحول میں بہت خاموشی چھائی تھی۔ ہم نے شاید اس وزٹ پر آکر غلطی کی تھی یا اس کو بہت آسان سمجھ لیا تھا۔ لیکن زمینی حالات اس سے بہت مختلف تھے۔ ڈرائیور اپنی گاڑیوں کو سکیورٹی والی گاڑیوں کے پیچھے ٹائروں کے نشانات کے اوپربہت توجہ سے بھگا رہے تھے۔اچا نک ماحول میں زوردار فائر کی آواز گونجی اور ساری گاڑیاں ایک ساتھ رک گئیں۔کچھ سکیورٹی والے ہاتھوں میں گنیں لئے ایک طرف بھاگے ،وہ زور زور سے ایک دوسرے کے ساتھ بات کر رہے تھے اور ہاتھ سے جھاڑیوں کی طرف اشارہ کرہے تھے۔ انجینئر حماد بھی گاڑی سے نیچے اترا اور ایک طرف بھاگتے ہوئے فائر کرنا شروع کر دیے۔ ہمار ا ڈرائیور بھی نیچے اتر گیا تھا اور میں اور شاہ جی گاڑی میں بیٹھے نعرہ جنجوید سننے کا انتظار کرنے لگے۔ ہلکے ہلکے اندھیرے میں’ دریسا’ کے جنگل میں فائرنگ کی آواز آس پاس کے جنجوید کو ہماری طرف متوجہ کر سکتی تھی اور وہ اکٹھا ہو کر ہم پریلغار بھی کر سکتے تھے۔اجتماعی قبر میں لیٹے ‘دریسا’ گاؤں کے گبھرو جوان بھی اس بے جا   شور سے تنگ آکر قبر وں سے اٹھ کھڑے ہو سکتے تھے ، وہ ہمیں جنجوید سمجھ کر نقصان بھی پہنچا سکتے تھے۔ میں شاید انہیں “ہالہ” کا حوالہ دے کر بچ سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے ان میں سے کوئی ہم سے ‘مورنی’ قصبے میں پناہ گزین اپنے جگر کے ٹکڑوں کو ملنے کے لئے جانے کے لئے ہمارے ساتھ گاڑی میں جانے کی ضد کرتا،ہم ابھی تک سمجھ نہیں پائے تھے کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔

فائرنگ تھمنے کے بعد اب حماد گاڑی میں واپس آکر بیٹھ گیا۔ وہ بہت فرسٹریٹڈ تھا۔ سکیورٹی والوں نے ایک نایاب جانو ر کو اپنی گاڑی کے دوسری طرف جھاڑیوں میں دیکھ کر اس کا شکار شروع کر دیا تھا۔جانور تو بھاگ نکلا مگر فائرنگ سے نا  صرف ہمارے لئے خطرہ بڑھ گیا بلکہ اس شکار کے دوران بہت سا قیمتی وقت بھی ضائع ہو گیا ۔ہمیں جلد از جلد اس جنگل سے نکل کر ‘مورنی’ واپس پہنچنا تھا۔

گاڑیاں ایک دفعہ پھر چل پڑی تھیں – ہم سکیورٹی والوں کی بے وقوفی سے پریشان تھے۔ہمیں اس وقت ‘الجنینہ’ واپس پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن ہم اس کی بجائے جنجوید کے گھر میں شکار کھیلنے کے بعد ‘مورنی’ واپس جارہے تھے۔ ایک دفعہ پھر اس کے پاؤں چھونے کے لئے۔

‘جبل مورنی’ دور سے ہی نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔اندھیرے میں وہ اور بھی پُراسرار لگ رہی تھی میں اس کے کان میں سرگوشی کرنا چاہتا تھا کہ ہم نے ڈیم کے لئے جگہ پسند کر لی ہے۔ اب یہاں ‘جبل مرہ’ سے تحفتاً بھیجا گیا پانی ذخیرہ ہوگا۔ جو کتنے جوان خوابوں اور امیدوں کی آبیاری کرے گا۔اب اس علاقے میں کوئی پانی کی وجہ سے ایک دوسرے کا گلہ نہیں کاٹے گا۔شاید وہ یہ خوش خبری سن کر اٹھ کھڑی ہوتی – ہم جیسے جیسے اس کے قریب ہورہے تھے خطرے سے دور ہو رہے تھے۔ آخر رات کے نو بجے کے قریب ہم اس کی قدم بوسی کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر ‘مورنی’ کے مرکزی سکوائر میں آرُکے تھے۔میں نے شاہ جی کے ساتھ ‘ہیری پوٹر” کے قلعے میں ڈنر کرنے کا پروگرام بنا لیا تھا۔ہم تھوڑی دیر کے لئے اپنے آپ کو اس ماحول میں جذب کرنا چاہتے تھے تاکہ دن بھر کےسنسنی خیز واقعات سے اپنے ذہن کو ہٹا سکیں۔شاید اس قلعے میں ہم پھر ڈنر نہ کر سکیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

شاہ جی کی آنکھیں ‘ہالہ’ کو تلاش کر رہی تھیں تاکہ اس بے چین لڑکی کو اس کے گاؤں کی جھوٹی موٹی خوش کُن خبریں سناسکیں۔ ہم اس کو اس کی گڑیا کا سلام پہنچانا چاہتے تھے۔ اس کے بابا کی قبر پر ڈالے جانے والی مٹی کے بارے میں بتانا چاہ رہے تھے۔’دریسا’ کی گلیوں اور اس کے جانوروں کے بارے میں بتانا چاہ رہے تھے، لیکن وہ غائب تھی۔ اتنی دیر میں اغبش بھی ادھر آپہنچا جس کے پاس ‘ہالہ” کے حوالے سے کچھ اچھی خبر نہیں تھی ۔
جاری  ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply