مولانا آزاد رحمۃ اللّٰہ علیہ کو خراج عقیدت/محمد ہاشم خان

خاکسار اب تک کی زندگی میں صرف تین محیر العقول عظیم ہستیوں علامہ ابن تیمیہؒ، مرزا اسداللہ خان غالبؔ دہلویؒ اور محی الدین ابوالکلام آزادؒ سے ’متاثر‘ ہوا ہے(پیغمبرانہ نفوس و اصحاب رسولؐ اس سے مستثنیٰ ہیں، نیز دیگر تاریخ ساز ہستیوں کی کسی بھی طور نفی یا ان کی توہین مراد نہیں، نعوذ باللہ من ذالک)۔ متاثر اس معنیٰ میں کہ بعض اوقات انہیں’آئیڈیالائز‘ کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ یہ سوچ کر حیران ہو رہے ہوں گے کہ اول و آخر تو فکری و اعتقادی طور پر ہم مشرب و ہم مزاج تھے لیکن یہ غالبؔ جیسا رند روسیاہ درمیان میں کہاں سے آگیا؟ تو عرض یہ ہے کہ یہ آپ ابھی نہیں سمجھیں گے، فی الحال بس اتنا سنیں کہ غالبؔ نے فریاد کی؎
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادی پر خار میں آوے
فریاد غالبؔ نے کی تھی، اس خود شناس غالبؔ نے جس نے کہا تھا’تجھے میں ولی سمجھتا جو نہ بادہ خوار ہوتا‘، فریاد اس بے نیاز و انا شناس غالبؔ نے کی تھی جس نے کہا تھا ’الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہو‘۔ وہ غالبؔ داد رسی چاہتا تھا اس خدائے بزرگ و برتر سے جس نے کہا ’ادعونی استجب لکم‘۔ غالبؔ نے پکارا اور ساتھ میں دلیل بھی دی ’آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہو میں‘۔ اللہ میاں کی بارگاہ میں دلیل قبول ہوئی، فریاد کو عز و شرف حاصل ہوا اور غالبؔ کے وادی پرخار میں آبلہ پائی کے لیے مولانا آزادؒ کو بھیج دیا جس سے تا حیات و بعد از حیات اپنے بھی خفا رہے اور بے گانے بھی ناخوش کیوں کہ ان کی طبیعت زہر ہلاہل کو قند کہنے پر آمادہ نہیں ہوسکی۔ وہ طبیعت جو کسی ایک طرف ذرا سی بھی مائل ہوتی تو کیا کچھ ہاتھ میں نہیں ہوتا۔ آپ تصور کریں کہ پیری مریدی کی ایک کائنات ہے اور وہ کائنات اشارہ سرمژگاں کی منتظر ہے۔ آپ نے دنیاوی جاہ و جلال، حشمت و شوکت، نعمت و صولت کو دیکھا جو قدموں میں پڑی تھیں، اور پھر ایک نظر چرخ نیلی فام کو دیکھا، نگاہ عرش سے پرے ایک مکان تک پہنچی، صدائے ہاتف کان چوم گئی ’ابوالکلام!ہم نے اس آرام و آرائش کے لیے تجھے نہیں پیدا کیا ہے، اس کے لیے تو کروڑوں لوگ پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ہم نے تیرے لیے کچھ اور مقدر کر رکھا ہے ’ ٱذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُۥ طَغَىٰ‘۔
انہوں نے مریدوں کو غور سے دیکھا، اور بہت محبت سے کہا میرے بھائی یہ میرا مطلوب نہیں اور قسم واللہ، اللہ کو مقصود بھی نہیں۔’خدا حافظ میرے بھائی۔‘ اللہ کے بندے نے آزری، صنم گری، دریوزہ گری سب چھوڑ دی اور پھر وہ فرعون وقت (برطانوی سامراج/ برٹش گورنمنٹ) کے خلاف برسرپیکار ہوگیا اور تا عمر اسی مصاف میں مجاہد بے بدل کی حیثیت سے رہا۔سیاست و معاشرت کی وادی پُرخار میں خاک پھانتا رہا، عزت و محبت سے بھی ہم کنار ہوا اور ذلیل و خوار بھی ہوا۔ عزت و محبت تو اس کی اپنی کمائی ہوئی تھی، ذلت و خواری اس پر مسلط کی گئی تھی۔ شعور سے عاری مسلمان تھے جو ’اذہب انت و ربک‘ کی سرکشی میں مبتلا تھے، علی گڑھ کے لونڈے تھے، شیراز کے ’لولو مکنون‘ کی صورت، جو اپنے مقعد کے تحفظ کی پوزیشن میں نہیں تھے اور جن کے باپوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ کس کے پاپ ہیں لیکن وہ کالک پوتنے کے لیے بے تاب تھے۔ انہیں مثل غلمان نوخیز ساقیوں میں سے ایک مختار مسعود بھی تھے جن کو اس بات کا ملال تھا کہ وہ مولانا کے چہرے پر کالک نہیں پوت سکے۔
یہ شدید جذباتی کشمکش، سیاسی اختلال و بحران اور سماجی افراتفری کا وہ دور تھا جب تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی اور علی گڑھ پر لیگیوں کا قبضہ تھا، مولانا آزاد کی مخالفت سب سے زیادہ ہوئی کیونکہ وہ تقسیم ہند کے مخالفین کے ہراول دستے کی قیادت کر رہے تھے۔ جولائی 1945 کا وہ شرمناک واقعہ بھی پیش آگیا جس پر مختار مسعود کو ملال تھا۔ مولانا شملہ کانفرنس سے دہلی جا رہے تھے جب ان کی ٹرین علی گڑھ اسٹیشن پہنچی تو یونیورسٹی کے طلبا نے اسے روک لیا اور مولانا کے سیلون میں داخل ہو کر ان کی شان میں ہر ممکن گستاخی کی۔ جب بعد میں وائس چانسلر سر ضیاء الدین نے انہیں معذرت کا خط لکھا تو مولانا نے جواباً تحریر فرمایا کہ انہیں طالب علموں سے کوئی شکایت نہیں ہے، وہ بے قصور ہیں۔ قصور در اصل ان سیاسی رہنماؤں کا ہے جو طلبا کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ تھی امام الہند کی اعلیٰ ظرفی اور ایک بلند کردار، پیکر صبر و استقامت سے اسی رویے کی امید تھی۔ (لا تثريب عليكم اليوم) اذهبوا فأنتم الطلقاء۔
کاش مختار مسعود کو معلوم ہوتا کہ جس یونیورسٹی میں وہ مولانا آزاد کے چہرے پر کالک پوتنے کی خواہش رکھتے تھے وہ یونیورسٹی پاکستان نہیں جا سکی۔ اب وہ مولانا آزاد کے رحم و کرم پر تھی۔ایک اکیس سالہ لونڈے اور اس جیسے ان تمام لونڈوں کو اپنی اس سیاہ ترین غلطی کا احساس اس لیے نہیں ہوا کہ ان کی پرورش و پرادخت برٹش گورنمنٹ کے وفادار غلام کے طور پر کی گئی تھی۔ ایک آزاد ذہن کو ذلیل کرنے کا اس سے بہتر طریقہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ غلام ذہنوں کو اس کے پیچھے لگا دیا جائے۔ ہمارے یہاں ایک کہاوت ہے کہ خان صاحب کو مارنا ہے تو چمائن کے ہاتھ میں چپل تھما دو۔ انگریز سرکار اور لیگی رہنماؤں نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ دوسری طرف وہ بطل جلیل تھا جو بزبان غالب سمجھا رہا تھا؎
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرا آگے
اے ایم یو اسی لیے قائم کی گئی تھی کہ انگریز آقا کو تعلیم یافتہ مسلم غلاموں کی فوج فراہم کرسکیں اور عندالضرورت اس نے فراہم بھی کیا۔ سرسید کے الفاظ ہیں ’’میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ۔۔۔۔۔ہمارا فرض ہے کہ ہمیشہ انگلش گورنمنٹ کے وفادار دوست رہیں اور اپنی آسودگی اور سلامتی اور ملک کی بہتری اسی میں سمجھیں کہ انگلش گورنمنٹ ہندوستان میں مضبوط و قائم رہے۔‘‘ سرسید مرحوم کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے غلام فیکٹری کو جاری رکھا۔ پیداوار بڑھتی گئی اور کھپت بھی۔
مسلم لیگ کے بانیوں میں نواب وقار الملک بھی شامل تھے۔ انہوں نے انگریزی سامراج کو غلاموں کی فوج فراہم کرنے کے منشور کو آگے برھاتے ہوئے مارچ ۱۹۰۷ میں کالج کے طلبا سے خطاب میں فرمایا’ پس تمہارے دل میں ہر وقت جو ایک خیال موجزن رہنا چاہئے کہ اس سلطنت کی حمایت کرنا تمہارا قومی فرض ہے۔۔۔۔۔۔ تم یقین کرو کہ تمہاری یہ دوڑ دھوپ اس لیے ہے کہ تم ایک دن تاج برطانیہ پر (اگر اس کی ضرورت ہو) اپنی جانیں نثار کرو اور انگریز سپاہیوں کے ساتھ مل کر اس سلطنت کے مخالفوں اور دشمنوں کے ساتھ کلّہ بکلّہ لڑو۔ اگر یہ خیال تم نے ذہن نشین رکھا تو مجھ کو امید ہے تم اپنی قوم کے لیے باعث فخر ہوگے اور آئندہ نسلیں تمہاری شکرگزار ہوں گی اور تمہارا نام ہندوستان کی انگریزی حکومت کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔‘ (مسلمانوں کا روشن مستقبل ص ۳۷۱۔۳۷۲)
مختار مسعود کا تعلق غلاموں کی اسی نسل سے تھا جنہیں انگریز سپاہیوں کے ساتھ مل کر ہندوستانیوں سے لڑنا تھا۔ کلائی میں تلوار اٹھانے کی طاقت نہیں تھی سو کالک پوتنے کا خیال بصورت ملال تمام عمر موجود رہا۔جب کہ اس کے برعکس مولانا آزاد نے کہا تھا:
’’ایک چراغ جو روشن ہوکر کبھی نہیں بجھتا وہ حریت صحیحہ کا چراغ ہے۔‘‘ یہ ۱۴۔۱۹۱۳ کی بات ہے اور تب تک بالخصوص ۱۹۰۶ میں مسلم لیگ کے قیام کے بعد انگریز وفاداروں کی اچھی خاصی فوج تیار ہوچکی تھی۔ مولانا آزاد سے نفرت کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ انہوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی بلکہ انہوں نے واضح لفظوں میں اسے یہودیوں کے مطالبے کے ہم مثل قرار دیا تھا ’ مزید برآں پاکستان کی تجویز شکست خوردگی کی علامت نظر آتی ہے اور ایک قومی وطن کے قیام کے متعلق یہودیوں کے مطالبے سے مماثلت رکھتی ہے۔‘
مولانا کی سرسید، لیگ، محمد علی جناح اور قیام پاکستان کی مخالفت فکری و سیاسی تھی ذاتی نہیں۔ نظریہ پاکستان کے مکمل ہونے کے ساتھ ہی مولانا کی یہ مخالفت بھی ختم ہوگئی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی پر قیامت خیز وقت آیا۔ اس پر پاکستان بنانے کا الزام تھا اور شرپسندوں نے اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کا پروگرام بھی بنا لیا تھا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالعلیم (سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کا یہ اعترافی بیان قابل غور ہے۔
’خدا بھلا کرے پنڈت جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین کا کہ ان بزرگوں کی وسعت قلب و نظر اور اصابت فکر نے اس ادارے کو نہ صرف مکمل تباہی سے محفوظ رکھا بلکہ اس کی فلاح و بہبود کے لیے ایسی صورتیں پیدا کیں جن سے یہ امید ہوئی کہ اس کا مستقبل ماضی سے زیادہ شاندار ہوسکتا ہے۔‘‘ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آزادی سے قبل کے اے ایم یو اور آزادی کے بعد کے اے ایم یو میں کتنا فرق ہے۔
مولانا آزاد اپنی زندگی میں بھی اپنے دم خم پر زندہ تھے اور مرنے کے بعد بھی اپنے ہی دم پر زندہ ہیں۔ وہ اپنے پیچھے نہ تو جماعت اسلامی جیسی کوئی تنظیم چھوڑ کر گئے ہیں، نہ ہی اے ایم یو جیسا کوئی ادارہ اور نہ مدنی خانوادہ۔ پھر بھی وہ زندہ ہیں اور وہ زندہ رہیں گے ایسے جیسے ابن تیمیہؒ سات سو سال بعد زندہ ہیں، جیسے غالب دو سو سال بعد زندہ ہیں اور دونوں کی مقبولیت کا چراغ مزید روشن ہوتا جا رہا ہے۔
نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا
کیوں کر کہوں، لو نام نہ ان کا مرے آگے
غالبؔ

Facebook Comments

محمد ہاشم خان
لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں (مصنف افسانہ نگار و ناقد کے علاوہ روزنامہ ’ہم آپ‘ ممبئی کی ادارتی ٹیم کا سربراہ ہے) http://www.humaapdaily.com/

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply