آؤٹ کاسٹ/ عبداللہ زکریا

اگر ہاشم خان کو ایک لفظ میں بیان کرنا ہو تو ہم سمجھتے ہیں کہ انگریزی کے لفظ آؤٹ کاسٹ سے بہتر کوئی لفظ نہیں ۔وہ خود سر ،خود رائے ،منہ  پھٹ ،غصیل اور نہ جانے کیا کیا مشہور ہیں ۔ہماری ان سے صرف دو ملاقاتیں ہیں لیکن یہ شیڈز ہمیں تو دکھائی نہیں دیے ،ہاں وہ بے دریغ سچ بولتے ہیں۔پنجابی میں ایسے شخص کے لئے ایک بڑا خوبصورت لفظ ہے “سچار”۔ موجودہ زمانے میں ایسا آدمی سوسائٹی میں مس فٹ ہی رہتا ہے سو وہ ہیں ۔ہم سائیکو انا لسٹ نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اگر ایک ذہین اور اہل آدمی کو اس کا جائز مقام نہیں ملتا ہے تو اسکی شخصیت میں ایک تلخی ضرور در آتی ہے اور پھر شریانوں میں دوڑنے والے اس کڑوے پن کو زبان پر آتے دیر نہیں لگتی ہے ۔یہ اس شخص کا دفاعی میکنزم ہی نہیں ،سوسائٹی سے ایک طرح کا انتقام بھی ہے ۔

ہاشم خان کی زندگی ایک دُکھتا ہوا پھوڑا ہے اور وہ گوکہ اس کے بارے میں کم ہی بات کرتے ہیں لیکن ذہین آنکھوں میں چھپی ہوئی اداسی دور سے دیکھی اور پڑھی جا سکتی ہے ۔ان میں ذہانت اور صلاحیت کی کمی نہیں تھی لیکن وسائل موجود نہیں تھے ،اس لئے ایک مدرسے میں پڑھنے کے لئے بھیج دیا گیا ۔خدا جانے اس سیلن زدہ ماحول میں انھوں نے اپنے آپ کو کیسے بچائے رکھا ۔مدرسوں کی ہوا میں تو سانس لینے کی بھی آزادی نہیں ہوتی ہے ۔وہاں ایک باغی ذہن نے خود کو انتشار سے کیسے بچایا ہوگا ،ہم اسکا تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں ۔وہ یہ ذہنی جبر قبول نہیں کر پائے اس لئے ان کے ہم مسلک انھیں روز دائرہ اسلام سے خارج کرتے رہتے ہیں لیکن انھوں نے کبھی بھی نہ تو منافقانہ روش اختیار   کی اور نہ کوئی سمجھوتا کیا ۔مدرسے میں تو جیسے تیسے دن گزر گئے لیکن جب اعلیٰ  تعلیم کا سوال اٹھا تو پھر وہی وسائل کا رونا ۔وہ جامعہ ملیہ سے اس لئے گریجویشن نہیں کر سکے کہ انکے پاس فیس بھرنے کے لئے پیسے نہیں تھے ۔جس اسلامی ادارے میں وہ پارٹ ٹائم کام کر رہے تھے ،انھوں نے ایڈوانس دینے سے منع کر دیا ۔پیٹ بھرنے کے لئے اخبار میں نوکری کی لیکن نوکری کرنے کے لئے جن “صلاحیتوں “ کی ضرورت ہوتی ہے ،وہ ان میں مفقود ہیں ۔ان “صلاحیتوں “کا اہلیت اور قابلیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔نوکری میں کامیابی کی پہلی شرط ہی عزت نفس کی قربانی ہے ،خاص طور سے جب آپ کے “باس” کی انا اس کی اہلیت سے بہت بڑی ہو ۔

یہاں تو طرفہ تماشا یہ تھا کہ ماتحت کے اندر وہ چنگاری تھی جو آگے چل کر باس کے خرمنِ اقتدار کو جلا سکتی تھی ۔یہ کہانی اخبار در اخبار دہرائی گئی ۔نوکریاں جاتی رہیں ۔ روز کنواں کھودنا پڑا چاہے پانی نکلے یا نہ نکلے ۔اس عرصہ میں انھوں نے ایک اچھا کام یہ کیا کہ اپنے کینوس کو بڑا کرنے کی کوشش کی ،سو انگلش سیکھی ،عالمی لٹریچر پڑھا ،ورلڈ سینما دیکھا ،مختصراً یہ آنے والی جنگ کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح تیار کیا ۔اسکا نتیجہ یہ ہے کہ وہ آج انٹرنیشنل کمپنیوں کے لئے کام کر رہے ہیں اور معاشی خوشحالی کے ساتھ ساتھ خود مختار بھی ہیں ۔اب انھیں کسی کے چشم و ابرو اور پیشانی پر پڑنے والے بل کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ۔

یہ اتنی لمبی تمہید ِ غیر دل پذیر اس لئے باندھنی پڑی کہ ان کے افسانوں کا مجموعہ “کہانیوں سے پرے “ہمارے ہاتھ میں ہے اور انکے افسانوں کو سمجھنے کے لئے یہ پسِ منظر بہت ضروری ہے ۔وہ اپنے ہر افسانے میں موجود ہیں ۔ہمیں نہ تنقیدی بصیرت کا دعوی ہے اور نہ ہم افسانوں کے حسن و قبح پر معروضی گفتگو کر سکتے ہیں ۔ایک زمانے میں ہم کرشن چندر کے دیوانے تھے اور عرصہ تک اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ اردو افسانہ پریم چند سے شروع ہو کر کرشن چندر پر ختم ہوجاتا ہے ۔خیر لاعلمی کے بھی اپنے فائدے ہیں ۔انتظار حسین کے ہم قائل ،انکی کی نثر کے قتیل لیکن انکے افسانے نہیں پڑھ پاتے ہیں ۔دراصل ہمارے علم کا دائرہ اتنا محدود ہے کہ ابسٹریکٹ پینٹنگز،پکے راگ ،نثری نظمیں اور علامتی افسانے ،چھوئے بغیر گزر جاتے ہیں ،اس لئے ہمارے تبصرے کو ایک عام قاری کے تاثرات کے طور پر پڑھا جائے ۔اردو کے سند یافتہ ناقدین کی بیش تر تحریریں ویسے بھی ہمارے پلے نہیں پڑتی ہیں اور کبھی کبھی تو ہمیں لگتا ہے کہ بروزِ قیامت انھیں سزا کے طور پر اپنی تحریریں پڑھنے کے لیے کہا جائے گا ۔کہانیوں کے پرے “پڑھا تو یک گونہ انبساط محسوس ہوا کہ ہم ان افسانوں سے ریلیٹ کر سکتے ہیں ۔

پہلا افسانہ “فردوسِ حزیں “ کشمیر کے تناظر میں ہے ۔ہاشم خان نے تین سال کشمیر میں ایک اخبار کے ساتھ گزارے ہیں ،انھیں زمینی صورتحال کا علم ہے ،اس لئے یہ افسانہ ان افسانوں سے مختلف ہے جو عموماً کشمیر کے تعلق سے لکھے گئے ہیں ۔اسکا Protagonist بھی اخبار میں کام کرتا ہے ،اس لئے ہم نے مذاق میں ان سے پوچھ لیا “hopefully یہ آپ کی آپ بیتی نہیں ہے “انکا جواب اور بھی دلچسپ تھا ۔کہا کہ “پاپ بیتی “ہے ۔اس افسانے کی سب سے خاص بات ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اصل افسانہ وہ ہے جو لکھا نہیں گیا ہے ۔بین السطور پڑھنے کے لئے بہت کچھ ہے ۔

دوسرا افسانہ “سروجنی “ایک المیہ داستان ہے ۔یہ اس بد نصیب کی کہانی ہے جسکی سب سے بڑی خطا اس کی ذات ہے اور استحصال جس کا مقدر ۔ایسی ہزاروں کہانیاں مشرقی یوپی کے دیہاتوں میں مل جائیں گی (ہم مشرقی یوپی سے ہیں بھی ہیں اور دیہاتی بھی ہیں ،اس لئے تیقن سے صرف اس کے بارے میں بات کر سکتے ہیں ،ہو سکتا ہے یہ جسمانی استحصال ہر جگہ ہوتا ہو )یہ کہانی ان معنوں میں الگ ہے کہ یہاں استحصال نہ ہوکر حقیقی محبت کا معاملہ ہے۔پریمیوں کے اس جوڑے کو نہ تو ذات کی پروا ہے اور نہ مذہب کی ۔ایسے عشق کا جو انجام ہوتا ہے وہی ہوا۔کہانی میں ایک ٹو سٹ بھی ہے ۔آخر میں سروجنی اشرف کو ریجیکٹ کر دیتی ہے ۔کہانی کے اس اختتام کو اس طور سے بھی پڑھا جا سکتا ہے کہ یہ صدیوں کے جبر کا بدلہ اور انتقام ہے ۔ہمیں ہاشم خان سے اس کہانی کے تعلق سے صرف ایک شکایت ہے ۔ اس میں ہمیں اس زبان کا فلیور نہیں ملا جو مشرقی یوپی کے گاؤں میں بولی جاتی ہے ۔ہوسکتا ہے کہ افسانے کے “فارم “ ان کے ہاتھ باندھ دئے ہوں ورنہ راہی معصوم رضا کے ناول “آدھا گاؤں “ کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ہمارا خیال ہے کہ اس ناول کی مقبولیت میں اس کی زبان کا ہاتھ سب سے بڑا ہے ۔

“جنازہ خوں گشتہ زندگی کا “ کا پسِ منظر ایک بار پھر کشمیر ہے ۔protagonist رجنی کے سر نیم “کول “ سے افسانے کی پہلی لائن میں ہی یہ اسٹیبلش ہو جاتا ہے ۔اس کہانی کو اگر آج کے تناظر میں پڑھا جائے تو اس کی معنویت اور بڑھ جاتی ہے ۔اس کہانی میں کئی اور کہانیاں ہیں جو متوازی طور پر چلتی رہتی ہیں ۔کچھ انڈر کرنٹ ہیں جنھیں محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ہاشم خان نے بڑی جرات کی کہ ایک مڈل کلاس عورت کی اسٹرگل کو موضوع بنایا ورنہ ہمارے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں نے ایک “خاص طبقے “ کی عورت کو ایسا گلیمرائز کر دیا ہے کہ اب عام عورتوں میں میں ہمارے قاری کی دلچسپی بہت کم رہ گئی ہے ۔(یہ ہمارا خیال ہے )

اگر ہاشم خان کو جاننا ہے تو “للا للا لوری”پڑھنا لازمی ہے ۔میرا خیال ہے کہ یہ ہاشم خان کی اپنی کہانی ہے ۔شاید یہ کتھارسس کا عمل رہا ہو جس نے ان سے یہ کہانی لکھوائی ۔اپنی پوری زندگی ،اپنی ساری رائیگانی ،انھوں نے اس کہانی میں انڈیل دی ہے ،یہانتک کہ اس میں ان کے اندر کا چھپا ہوا تنقید نگار بھی جگہ جگہ موجود ہے ۔غالب کو وہ بہت فیسی نیٹ کرتے ہیں ۔غالب پوری کہانی کا اٹوٹ حصہ ہیں ،اقبال کے تعلق سے بھی ایک دلچسپ تبصرہ موجود ہے ۔فیض کو وہ گریز کا شاعر بتاتے ہیں ۔صحافتی زندگی کے تلخ تجربات سے انھوں نے اس کہانی کے لئے بہت مواد کشید کیا ہے ۔الغرض ہمیں تو یہ پوری کہانی انکی آپ بیتی لگتی ہے ،بس فرق اتنا ہے کہ اسے فکشن کے طور پر لکھا گیا ہے ۔

“کہانیوں سے پرے “ بڑے فنکارانہ انداز میں خط کی شکل میں لکھی گئی ہے ۔دو محبت کرنے والو ں کے خط جو انکی زندگی میں نہیں پہنچتے ہیں ۔یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ اصل رائیگانی کیا ہے ۔ہم ساری زندگی اپنے بچوں سے کچھ نہ کچھ چھپاتے رہتے ہیں ،شاید یہ کہانی پڑھ کر ہمارے اندر وہ اخلاقی جرات پیدا ہوسکے کہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ اصل رائیگانی کیا ہے ۔”فنکارانہ “ کا لفظ ہم نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ یہاں انکا “کرافٹ “ عروج پر ہے ۔ایک خط جس جملے پر ختم ہوتا ہے ،دوسرا خط بعینہ اسی جملے سے شروع ہو تا ہے ۔یہ تکنیک نہ صرف دو نوں کے دلی ربط کو ظاہر کرتی ہے بلکہ ایک خط کو دوسرے خط سے مربوط بھی رکھتی ہے ۔۔

“المیہ “ کا اختتام بڑا ڈرامائی ہے اور شاید یہ اختتام ہی اصل المیہ ہے ۔کہانی اس طرح ختم ہوگی ،یہ ہمارےوہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ پوری کہانی میں ایسا کوئی “کلیو” نہیں ہے جو اس انجام کی طرف اشارہ کرتا ہو ۔اس طرح کے ڈرامائی انجام ہمیں منٹو کے یہاں ملتے ہیں ۔غیر متوقع اختتام بہت دنوں تک اس افسانے کو ذہن میں محفوظ رکھے گا ۔

“صوفی “ میرا پسندیدہ افسانہ ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ افسانہ ہاشم خان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا ۔صوفی کا تانا بانا بنتے ہوئے یقیناً ہاشم کے دماغ میں فلم “Sophie’s choice “گھوم رہی ہوگی ۔یہ افسانہ بھی choice کے اسی بنیادی اصول کے ارد گرد گھوم رہا ہے جو فلم میں صوفی کو درپیش تھا۔(آشوز کنسٹرکشن کیمپ میں صوفی کے پاس ایک ہی چوائس تھی ،وہ اپنی بیٹی اور بیٹے میں سے کسی ایک کو ہی بچا سکتی تھی ۔وہ بیٹا منتخب کرتی ہے )افسانے میں جب صوفی اور protagonist یہ سین ڈسکس کرتے ہیں تو صوفی اس کی توجیہ کچھ اس طرح کرتی ہے “میرے خیال میں صوفی اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ یہ دنیا اس کی بیٹی جیسی خوبصورت وجود کے لائق نہیں رہ گئی ہے “

یہ کہانی ختم ہو کر بھی ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ ایک دائمی خلش چھوڑ جاتی ہے اور یہی اس کی سب بڑی خوبی ہے ۔اس کہانی میں بھی ہاشم خان کے شیڈز دکھائی دیتے ہیں ۔

“کہانیوں سے پرے “ کی زبان کو لیکر کئی لوگوں نے اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ افسانے کی زبان نہیں ہے ۔ہم صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ہر ادیب کا حق (prerogative)ہے کہ وہ اپنے ٹول خود چنے ۔اسے کس زبان میں لکھنا چاہئے ،یہ فیصلہ اس کے سوا کوئی اور نہیں کر سکتا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ یہ زبان جو آج افسانے کی زبان نہیں کہی جا رہی ہے کل کو افسانے کی زبان بن جائے ۔ہاشم خان نے اس معاملے میں بھی کوئی کمپرومائز نہیں کیا اور وہی زبان لکھی جو وہ لکھنا چاہتے تھے ۔اور کچھ نہیں تو کم از کم اس جرات رندانہ کے لئے داد بنتی ہے ۔باقی فیصلہ وقت پر چھوڑ دیتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پوسٹ اسکرپٹ :ہم نے جان بوجھ کر کچھ افسانے چھوڑ دیے۔باقی لوگ بھی تو کچھ کام کریں
افسانوں کے بارے میں تفصیلی رائے سے پر ہیز کیا اور صرف اشارات دیے ۔احساسِ تشنگی امید ہے ،لوگوں کو دریا تک لے جائے گا ۔
بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply