گندہ کھیل سی پیک اور معیشت کھا جائے گا /اظہر سید

آجکل بعض اینکرز بطور فیشن گزشتہ چار سال کے دوران 30 ارب ڈالر سے زیادہ کے لئے جانے والے غیر ملکی قرضوں کا ذکر اس رِقت آمیز انداز میں کرتے ہیں کہ حساس دل لوگوں کو رونا آ جاتا ہے جب جذبات کی شدت میں بیان کرتے ہیں کہ تمام ملکی اثاثے رہن رکھے جا رہے ہیں اور غیر ملکی قرضوں کے انبار لگا دیے گئے ہیں، ایسا لگتا ہے دو آنسو تو ضرور بہا دینا چاہئیں ،ہمارا تعلق ہر گز مسلم لیگ ن سے نہیں ،ہم آمریت کے خلاف جدوجہد اور عوام کے حق رائے دہی کی سیاست کی وجہ سے ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کو پسند کرنے والوں میں سے ہیں لیکن جب سے میاں نواز شریف کو اشرافیہ نے اسی طرح ہدف پر رکھ لیا ہے جس طرح کبھی محترمہ بینظر بھٹو کو رکھا تھا تو ہماری ہمدردی خود بخود میاں نواز شریف کے ساتھ منسلک ہو گئی ہے  ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اگر دوبارہ اپنی سنہری تاریخ کی طرف لوٹ آئے اور موجودہ پالیسی سے رجوع کر لے تو ہم دوبارہ سے پیپلے بن جائیں گے ۔

ہم معاشی مفکرین کا ذکر کر رہے تھے جو حب الوطنی کے بے پناہ جذبات ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں اور طوطے کی  طرح رٹایا ہوا سبق نجی چینلز پر احسن طریقے سے پڑھتے ہیں کہ پاکستان کو غیر ملکی قرضوں کے جال میں پھنسا دیا گیا ہے اور پاکستان” ہمارے منہ میں خاک ڈوب گیا ہے ”،ان مفکرین کو جو لوگ غیر ملکی قرضوں کا بریف فراہم کرتے ہیں وہ بھی بلا کے کایاں ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اینکرز طوطے ہیں اور انہیں جو چوری دی جاتی ہے کھا کر یہ وہی کچھ عوام کو بتائیں گے جس کا سبق انہیں رٹایا گیا ہے ،بریف دینے والے شاطر انہیں دوسرا بریف نہیں دیتے جس میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کا ذکر ہوتا ہے اور اس میں بتایا جاتا ہے کہ غیر ملکی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کو کتنے پیسے واپس کئے گئے ہیں ۔ آسان لفظوں میں چار ارب ڈالر کی ادائیگی کیلئے چار ارب ڈالر کا قرضہ لیا جاتا ہے اس طرح غیر ملکی قرضوں کا حجم اتنا ہی رہتا ہے جتنا قرضوں کی ادائیگی سے قبل ہوتا ہے، مزید آسان لفظوں میں حکومت نے چار سال میں اگر 30 ارب ڈالر کا غیر ملکیتی قرضہ لیا ہے تو 30 ارب ڈالر کا قرضہ ادا بھی کیا ہے اس طرح قرضوں کا حجم آج 63 ارب ڈالر ہے جو چار سال قبل 57 ارب ڈالر تھا فرق اتنا پڑا ہے کہ سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوا گیا ہے۔

ایک اور حقیقت جو مفکرین کی کم علمی کی وجہ سے سامنے نہیں آتی وہ معیشت کا حجم ہے اور اس کے تناسب سے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ہے پاکستان اس وقت دنیا کے ان چند خوش قسمت ممالک میں سے ایک ہے جن پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ معیشت یا جی ڈی پی کے 65 فیصد کے لگ بھگ ہے مفکرین جن ملکوں کی مثالیں دے کر آٹھ آٹھ آنسو روتے ہیں وہاں غیر ملکی قرضوں کا بوجھ وہاں کی جی ڈی پی کے 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے تمام مغربی ممالک بے پناہ غیر ملکی قرضوں کے بوجھ کے نیچے ہیں لیکن وہاں افراتفری نہیں ،کسی ادارے کے کارپوریٹ مفادات نہیں اس لئے وہاں سرمایہ کار بھاگ بھاگ کر جاتے ہیں ۔

امریکی معیشت تو چینی بیل آؤٹ پیکج نہ دیں تو دیوالیہ ہو چکی ہے جبکہ بھارتی معیشت پر بھی غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 97 فیصد ہے لیکن وہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔ کوئی آرمی چیف معیشت پر سیمینار نہیں کرتا نہ کوئی ڈی جی آئی ایس پی آر معیشت بُری نہیں تو بہت اچھی بھی نہیں کا بھاشن نہیں دیتا۔

اینکرز مفکرین ہیں ۔ بے پناہ مصروف ہوتے ہیں ۔ انہیں فرصت کے اوقات میسر نہیں کہ وہ تھوڑا ورک کر لیں ذ را آئی ایم ایف ،عالمی بینک یا پھر اپنی وزارت خزانہ یا پھر اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر نظر ڈال لیں جس سے انہیں شائد چند باتوں کی خبر مل جائے ۔عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کے ماموں نہیں اور نہ ہی عالمی ریٹنگ ایجنسیوں کے ساتھ کوئی رشہ داری ہے ۔ وہ سب پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بتدریج بہتر کرتے جا رہے ہیں اور معاشی شرح نمو کو بھی گزشتہ چار سال میں مسلسل بہتری کی طرف سفر قرار دے رہے ہیں لیکن پاکستان کے مچھندر اور لال بجھکڑ نہیں مانتے اور سارے گناہ نواز شریف کے ذمہ لگا رہے ہیں۔ معاشی تباہی کا ذمہ دار نواز شریف اور اسحاق ڈار کو قرار دے رہے ہیں ،شیطان کے بچوں نے تیزی سے ابھرتی ہوئی پاکستانی معیشت کو روکنے کی کوشش کی ہے ۔ وزیر خزانہ کو برطانیہ کے ہسپتال میں جعل سازی سے دل کا مریض بننے پر مجبور کر دیا ہے” اس طرح کی جعل سازی کبھی جنرل مشرف نے بھی کی تھی ہسپتال میں بیمار پڑنے کی تصویر جاری کی اور پھر علاج کے بہانے بیرون ملک روانگی اور وہاں حسینوں کے ساتھ ٹھمکے ۔

پاکستانی معیشت کو چند چیلنجز درپیش ہیں لیکن اس کا تعلق حکومتی معاشی پالیسوں سے زیادہ بیرونی عوامل کا ہے ایک اور معاملہ جس کا تعلق ہر گز نواز شریف سے نہیں وہ غیر ملکی سرمایہ کاری ہے پاناما ڈرامہ کے آغاز سے اب تک پاکستان سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے فرار کا جو عمل شروع ہوا وہ تاحال جاری ہے صرف حصص بازار سے 14 ارب ڈالر کا سرمایہ فرار ہو چکا ہے جبکہ جو ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان آ رہی تھیں وہ بھی موجودہ افراتفری کی وجہ سے رُک گئی ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

جب ترسیلات ِ زر کے اہداف پورے نہ ہو سکیں جب برآمدات کم ہو جائیں اور جب غیر ملکی سرمایہ کار واپس جانا شروع کر دیں تو اس وقت بیرونی ادائیگیوں کا اَن دیکھا بوجھ اٹھانا ہوتا ہے۔
پاکستان میں جو گندہ اور غلیظ کھیل حب الوطنی کے نام پر شروع کیا گیا ہے یہ معیشت کو کھا جائے گا ۔ کمزور معیشت والے ممالک بھکاری کہلاتے ہیں جن کی خارجہ پالیسی دوسرے ملکوں کے اشارے پر بنتی ہے ہم نے اسی طرف سفر شروع کر دیا ہے ۔حب الوطنی کا جو فراڈ شروع ہوا ہے یہ پاک چین تعلقات کو کھا جائے گا ۔ یہ گندہ کھیل بہت جلد معیشت کو بھی کھا جائے گا۔ غدار بنانے کا گندہ کھیل ختم نہ کیا گیا ملک سول نافرمانی کی طرف چل نکلے گا ۔اس وقت پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کیلئے فنڈز حاصل کرنا پڑ رہے ہیں لیکن سی پیک کی تیزی سے تکمیل کا عمل موجودہ عارضی معاشی بحران کو ختم کر دے گا توانائی بحران کے خاتمہ سے پاکستانی مصنوعات عالمی مارکیٹ میں بہت بڑا حصہ حاصل کر لیں گی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی واپسی سے بیرونی ادائیگیوں کا موجودہ بوجھ بھی ختم ہو جائے گا لیکن اگر یہ گندہ کھیل ختم نہ ہوا تو یاد رکھیں سارا بوجھ ادارے کو اٹھانا پڑے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply