مبالغہ آرائی/جمیل آصف

اکثر لوگ معاشی، سماجی، روحانی اور نفسیاتی نقصان جس چیز سے اٹھاتے ہیں
وہ ہے کسی فرد، ادارے یا گروہ کی جانب سے کسی بھی سیاسی معاشی یا سماجی معاملے میں ‘مبالغہ آرائی سے اس موضوع کو بیان کرنا  ۔

سوشل میڈیا کی بدولت دنیا سمٹ کر ایک موبائل کی صورت آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے ۔جنہیں کبھی بنفس نفیس  دیکھا  نہ  پرکھا، سنا اور نہ  ہی کبھی کسی قسم کا معاملہ کیا ۔
مختلف صورتوں میں مختلف کارہائے زندگی سے متعلق میدانوں میں اپنی خدمات پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

پُرکشش انداز میں اپنی شخصیت، اپنے کام کرنے کے انداز، لفظوں کے چناؤ سے بہترین طرز تحریر کے سحر سے وہ آپ کو متوجہ کرلیتے   ہیں ۔چاہے وہ آن لائن مختلف اشیاء فروخت کرنے والے ہوں، یا فلاحی کاموں میں سماجی کردار کے حامل زمین جائیداد کی صورت آپ کے منافع بخش سرمایہ کاری کی ترغیب دینے والے ہو یا موٹیویشنل سپیکر کے طور پر زندگی میں آپ کو “ہاں تم کرسکتے ہو” کا چورن بیچنے والے ۔

دیکھا جائے تو ان کے کردار سے لے کر الفاظ تک میں مبالغہ آرائی کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہوتی ہے ۔جھوٹی کہانیاں، نوسربازوں کی طرح آپ کو گمراہ کرکے آپ کے جذبات کے ساتھ ساتھ آپ کو مالی نقصان پہچانے کے لیے کوئی نہ کوئی پھندا تیار کرتے نظر آتے ہیں ۔

طریقہ کار سب کا ایک ہی جیسا ہے ۔پہلے اچھی اچھی تحاریر سے یہ خود کو پارسا، ذہین اور درد دل رکھنے والا متعارف کرواتے ہیں ۔پھر جب حلقہ اثر بڑھ جاتا ہے تو سماجی خدمات پر منبی سرگرمیوں سے اپنی شخصیت کا تاثر مزید گہرا کرتے چلے جاتے ہیں ۔

پھر اس کے بعد مختلف قسم کے کاروبار کے مشورے کے ساتھ میدان میں اصل مقصد کے ساتھ نمایاں ہو جاتے ہیں ۔اور پھر مبالغہ آرائی کرنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال کرتے ہیں ۔وہ ہر باشعور فرد دیکھتا رہتا ہے ۔اس کی زندہ مثال پراپرٹی بزنس میں منافع جات کی مبالغہ آمیز شرح بتا کر سوشل میڈیا پر موجود صارفین کو گمراہ کرنا اس وقت ٹاپ ٹرینڈ میں جا رہا ہے ۔

کل ایک صاحب نے بحریہ ٹاؤن میں صرف ایک دن کی فروخت پر 10 لاکھ کا منافع ایک کسٹمر کو دلوانے کا دعویٰ کیا ۔جو انتہائی حیران کن رہا ۔ اور لوگوں سے خوب عزت افزائی سمیٹی ۔ہم میں سے بیشتر افراد محفوظ سرمایہ کاری اور اچھے مستقبل کے لیے تگ و دو کرتے ہیں ۔لیکن بیشتر افراد نے کبھی کاروبار، اس کے طریقہ کار کو سمجھا نہیں ہوتا ۔ اس لیے وہ ایسے افراد کی ترغیبات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔اور پھر تمام عمر کف افسوس ملتے رہتے ہیں ۔

سمجھنے کی بات ہے کہ کاروبار ایک آرٹ ہے جس کے مختلف پہلو ہیں ۔بہت باریکیوں کے ساتھ ایک طویل وقت کے بعد نفع نقصان برداشت کرکے مارکیٹ میں جگہ بنانے کا نام ہے جس میں مخالف سے مقابلے کے حوصلے کے ساتھ مستقل مزاجی بنیادی حیثیت رکھتی ہے ،جس میں کم ہی افراد کامیاب ہو پاتے ہیں ۔

اس لیے شارٹ کٹ کے چکر میں چرب زبان افراد پھر بروکر بنتے ہیں مختلف سکیموں کو آپ کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ۔ ان کے لیے اب سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں وہ آسانی سے کسی نا کسی کو اپنے زیر دام لا سکتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

تو ایسے افراد سے جو شوشل میڈیا پر آپ کو ایسے منافع بخش پروجیکٹ دکھائیں ان سے خود بھی بچیں اور اپنے سرمایہ کو بھی محفوظ رکھیں ۔اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر خود سے کوشش کریں تاکہ ایک کاروبار پروان چڑھ سکے جو آپ کی نسلوں تک کو مستفید کرتا رہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply