بسمہ شاہد نے نیلی گرفتھ کی یاد تازہ کر دی/ثاقب لقمان قریشی

مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں۔ گاڑی کا ایک پہیہ بھی کام کرنا چھوڑ دے تو گاڑی رُک جاتی ہے۔ انسانی معاشرہ انسانی گروہ کا نام ہے جو مرد اور عورت سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ جن معاشروں میں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ وہی قومیں دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی پسماندگی کی بڑی وجوہات میں خواتین کے حقوق کو تسلیم نہ کرنا سرفہرست ہے۔

وطنِ عزیز خواتین پر تشدد کے حساب سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ خواتین پر تشدد کے واقعات کی خبریں آئے دن میڈیا پر نظر آتی   رہتی ہیں۔ تشدد کی بیشتر خبروں میں خواتین کو انصاف نہیں ملتا۔ جس کی وجہ سے تشدد کے واقعات مجرموں کو سبق سکھانے کے بجائے حوصلہ افزائی کا سبب بنتے ہیں۔

بعض اوقات معمولی سی نوعیت کا واقعہ تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ 1905ء میں امریکہ میں پیش آیا۔ نیلی گرفتھ نامی ایک ٹیلی فون آپریٹر ڈیوٹی سے گھر جاری تھی۔ نیلی نے محسوس کیا کہ کوئی اسکا پیچھا کر رہا ہے۔ اس نے تیز چلنا شروع کر دیا۔ پیچھا کرنے والا سمجھ گیا کہ نیلی گھبرا گئی ہے۔ اس نے نیلی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روکنے کی کوشش کی۔ نیلی پیچھا کرنے والے مردوں کے رویے  سے پہلے ہی بہت پریشان تھی۔ اس بار اس نے مقابلے کا فیصلہ کیا اور پیچھا کرنے والے مرد کی ناک پر مکا دے مارا۔ نیلی کا مکا اتنی زور سے لگا کہ مرد کی ناک سے خون بہنے لگا اور وہ مدد کو پکارنے لگا۔ نیلی کی بہادری کا یہ واقعہ آگے چل کر خواتین میں سیلف ڈیفنس کی آگہی کا سبب بنا۔ اس واقعے کے بعد خواتین نے عام کھیلوں کے ساتھ مردانہ کھیلوں جیسے کہ باکسنگ اور جو-ڈیسو (مارشل آرٹ) بھی سیکھنا شروع کیے۔ جاپانی مارشل آرٹ نے امریکہ اور برطانیہ میں چلنے والی خواتین کے حقوق کی تحریکوں میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

ہمارے ملک کے مردانہ معاشرے میں خواتین ہمیشہ سے مرد کی تنگ نظری اور ظلم کا شکار رہیں۔ خواتین کے مردوں سے مقابلہ کرنے کے واقعات کم ہی سننے کو ملتے ہیں۔

گزشتہ چند روز سے خواتین سے پرس اور موبائل چھیننے کی خبریں میڈیا پر نشر ہو رہی تھیں۔ ایک واقعے میں خاتون اپنی بوڑھی ماں کو ویل چیئر پر لے جا رہی تھی، ایک نوجوان پھرتی سے موٹر سائیکل پر آیا اور خاتون کا پرس چھین کر بھاگ گیا۔ چھینا جھپٹی میں خاتون کی والدہ ویل چیئر سے گر گئیں۔ خاتون نے ڈاکو کا پیچھا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگ نکلا۔ اس واقعے کے چار روز بعد گجرانوالہ میں بھی پرس چھیننے کا واقعہ پیش آیا لیکن یہ واقعہ پہلے والے واقعے سے یکسر مختلف تھا۔

بسمہٰ شاہد اپنی والدہ کے ساتھ یونیورسٹی کی بس کا انتظار کر رہی تھی۔ موٹر سائیکل پر سوار دو ڈاکوؤں نے بسمہٰ کا پرس چھیننے کی کوشش کی۔ ڈاکو اسلحے سے لیس تھے۔ بسمہٰ نہایت بہادری سے ڈاکوؤں سے لڑتی رہی۔ آگے بیٹھا ڈاکو پیچھے والے سے کہتا رہا کہ اسے گولی مار دے۔ ہاتھا پائی کے دوران ڈاکوؤں کا بیگ موٹرسائیکل کے ویل میں پھنس گیا اور وہ گر گئے۔ چند لمحوں میں لوگ جمع ہوگئے اور ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔

بسمہٰ کی بہادری تھوڑی احمقانہ ضرور تھی۔ کیونکہ اسلحہ سے لیس ڈاکو مزاحمت پر گولی چلانے سے دریغ نہیں کرتے۔ لیکن ہم بسمہٰ پر تحریر لکھنے پر اس لیے مجبور ہوئے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں ایسے واقعات کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جہاں عورت طاقت کا جواب طاقت کے ذریعے دے رہی ہو۔

آوارہ نوجوانوں کی چھیڑ چھاڑ اور خواتین کے ساتھ ہونے والے سٹریٹ کرائمز کی وجہ سے والدین بیٹیوں کو گھر کے نزدیک ترین سکول اور کالجوں میں پڑھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہماری ہونہار بیٹیاں گلی محلوں کے سکولوں کالجوں سے بھی اچھے نمبروں سے ڈگریاں مکمل کر لیتی ہیں۔ ڈگری حاصل کرنے کے بعد نوکری کی باری آتی ہے تو پھر یہی مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ اسی لیے  بہت سی اعلیٰ  تعلیم یافتہ لڑکیاں ہمیں گھروں میں ٹیوشن یا نزدیک ترین سکول میں پڑھاتی نظر آتی ہیں۔

ہراسانی اور لوٹ مار کے انہی واقعات کی وجہ سے لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کر پاتیں، نوکری نہیں کرسکتیں، تفریح نہیں کر سکتیں۔ مطلب ان واقعات نے ہمارے پورے سسٹم کو منجمد کر رکھا ہے۔

مسئلے کا حل خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگہی اور سیلف ڈیفنس میں ہے۔ جس طرح آج کل بچوں کو ہراسانی سے متعلق تعلیم دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو ہراسانی کے ساتھ ساتھ سیلف ڈیفنس کی تعلیم بھی دینی چاہیے۔ لڑکیاں خود بھی دوسری لڑکیوں کو ٹریننگ دینے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں یوٹیوب سے بھی مدد مل سکتی ہے۔ سکول اور کالجوں میں سیلف ڈیفنس کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ میڈیا بھی اس سلسلے میں خواتین کو مدد فراہم کرسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت سیلف ڈیفنس کو پراجیکٹ کے طور پر شروع کرے اور میڈیا اس پراجیکٹ کو بھر پور سپورٹ فراہم کرے۔ اس پراجیکٹ سے خواتین پر ہونے والے ذہنی اور جسمانی تشدد میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ وطن عزیز کو چھٹے نمبر سے نکال کر کہیں دور لے کر جایا جاسکتا ہے۔ خواتین کے مسائل میں کمی لائے بغیر نہ تو متوازن معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے اور نہ ہی ہم ترقی کرسکتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply