ابنارمل کردار: منزہ احتشام گوندل

(محترمہ منزہ گوندل کی یہ خوبصورت تحریر چونکہ “مکالمہ” پہ شروع ہوئی ایک بحث کے حوالے سے نہایت اہم ہے، اس لیے بشکریہ “ایک روزن” شائع کی جا رہی ہے۔ ایڈیٹر)
انسان کی تاریخ کئی ہزار سال قدیم ہے۔ ان ہزاروں سالوں کے دوران انسان مسلسل اپنی ذات، ہستی نیسی کے متعلق سوچتا، پوچھتا، اور غوروفکر کرتا آیا ہے۔ اس دوران ہزاروں ثقافتیں تبدیل ہوئیں۔ مذہب بدلے، فکروں کو عروج وزوال آئے، زبانیں پیدا اور ناپید ہوئیں۔ جغرافیائی تبدیلیاں آئیں۔ زندگی ،لہجہ ،وقت، ہر لحظہ تغیر وتبدل کا نام ہے۔ جب ہم موجودہ تاریخ کو اٹھا کر بنظرِ غائر دیکھتے ہیں تو یہ انکشاف پاتے ہیں کہ موجودہ زمین کے اوپر موجود ہر طرح کے تہذیب وتمدن کا اصل گہوارہ یونان ہے۔ آج دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں جتنی بھی تبدیل شدہ اشکال میں موجود ہیں۔ یونان ہی سے ماخوذ ہیں میری اس بات کی تصدیق ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ:

’’ہم یونانی سماج سے اپنے سماج کی طرف آئے تھے اور اب مناسب ہوگا کہ بعض نکات کے تاریخی پسِ منظر کے صحیح ادراک کے لئے ایک دفعہ پھر ماضی کی جانب سفر کریں۔‘‘(۱)

لہٰذا جب ہم اپنی تہذیب وتمدن کے صحیح فہم کے لئے ماضی کے اوراق الٹتے ہیں تو فلاطینوس سے ہوتے ہوئے افلاطون، ارسطو اور سقراط تک جا پہنچتے ہیں۔ جن کے افکار آج بھی مختلف زمانی معاشروں کی بنیادوں میں گارے کی طرح گندھے ہوئے ہیں۔ مرد اور عورت زندگی کا اٹوٹ انگ ہیں۔ روئے زمین پر موجود نسلِ انسانی کے مشترکہ وارث اور ایک ہی ساتھ ایک ہی جیسے حالات میں زندگی کاآغاز کرنے والے مطلق العنان کہ جنہوں نے زمین کے اوپر انسان کی نسل کو بڑھاوا دیا۔ مگر کیا وجہ تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ عورت پست اور رزیل ہوتی گئی۔ اس کا درجہ اور مقام گرتا گیا۔ اس کاسماجی ڈھانچہ کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا۔ کمزوری، بے وقوفی، نادانی، کم عقلی، بے وفائی کے سارے لاحقے اس کے نام کے ساتھ چسپاں ہوتے گئے اور اس کے بالمقابل تمام تراعلیٰ اقداراور خوبیوں کے حامل الفاظ مرد کے لئے مخصوص ہوتے گئے۔ اگر ہم اس سماجی ناانصافی کا کھوج لگانے نکلیں تو اس کے کھرے بھی یونانی دانش کے اندر جاکر نکلتے ہیں۔ جہاں ارسطو جیسے نابغہ کھڑے کہہ رہے ہیں کہ ’’عورت اس لئے عورت ہے کہ وہ مرد کی طرح بہادر اور جنگجو نہیں‘‘ اور صورتحال اسی طرح چلتی رہتی ہے۔ عورت کے کردار کے حوالے سے اصل انقلابی تبدیلی اس وقت آئی جب فرائڈ کے نظریات کا دورہ دورہ یورپ کے اندر عام ہوا اور عورت کو تحلیلِ نفسی یا نفسیاتی سطح پر مطالعے کے قابل گردانا گیا۔ وگرنہ اس سے قبل تک تو عورت کو جانوروں کے کھاتے میں ہی رکھا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ تصور باطل ایک ’’کلیشے ‘‘کی شکل اختیار کرچکا تھا کہ عورت ناقص العقل ہے۔ فرائڈ کے تصورِ تحلیل نفسی اور الیکٹرا کمپلیکس کے بعد عورت کی بطور انسان شناخت کو تسلیم کرلیا گیا مگر اس کے باوجود بھی اس کے کردار کی وہ صورت سامنے نہ آسکی جو مرد کوحاصل تھی۔ مثال کے طور پر ہم جب ’’عرب کی قدیم شاعری بالخصوص’’سبعہ معلقہ ‘‘کو پڑھتے ہیں توزمانۂ جاہلیت کے عربوں کے فخر ومباہات سے آگاہی ہوتی ہے۔ عرب کس بات پر فخر کرتے تھے ان میں سے ہر شاعر کا یہ دعویٰ تھا کہ اس سے بڑھ کر جوانی میں کسی نے لہو لعب نہیں کیا۔ اس سے بڑھ کر پورے بلادِ عرب میں کسی نوجوان نے بدکاری کے مویشی نہیں چرائے اور ہر شاعر کا خیال تھا کہ وہ بدکاری میں اس مقام تک پہنچا جہاں تک کوئی دوسرا نہ گیا تھا اور یہ کہ پورے بلاد عرب میں اس سے بہتر اپنے ’’آلہ تناسل ‘‘کا استعمال کرنے والا کوئی دوسرا نہیں۔
جہاں مردوں کو اپنی نام نہاد بدکاری پر فخرتھا وہاں عورتوں کے حالات اس کے بالکل اُلٹ تھے۔ ایک چلتی،پھرتی، سوتی جاگتی، ہنستی روتی مخلوق ہونے کے باوجود اس کی حیثیت محض ایک گائے یا بکری جتنی تھی جو کھونٹے کیساتھ بندھی رہتی تھی اور ہر طرح کی خواہشات کی تکمیل جس کے لئے شجر ممنوعہ تھی اور سبھی ہم عصر تہذیبوں کے اندر یہی حالات تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کی حیثیت کو بھی تسلیم کیا جانے لگا۔ اگرچہ آج عصر موجود تک بھی عورت اور مرد کے درمیان صننفی امتیاز کی یہ دیوار موجود ہے ۔آج بیسویں صدی کے جدید ترین دور میں بھی مرد کو بہت سی رعائتیں حاصل ہیں جن سے عورت محروم ہے۔ عورت پر جتنی اخلاقی، مذہبی، قانونی، سماجی پابندیاں ہیں مرد ان سے مستثنیٰ قرار پاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شادی سے قبل بھی ہر قسم کے جنسی تعلقات کو اپنے لئے روا رکھتے ہوئے بھی مرد بیوی کے نام پر ایک دوشیزہ کا طلبگار ہوتا ہے اور یہ وہ معاشرتی رویہ ہے جس کے پیچھے ہزاروں سالوں کی پرانی دانش کا رفرما ہے۔
ہمارے ہاں عموماً عورت کے کردار کو جبر اور ضبط کے معیار کے حوالے سے جانچا، پرکھا اور تسلیم کیا جاتا ہے۔ معاشرے کے اندر خاندان، رشتہ داروں، باپ ، بھائیوں اور شوہر کے نزدیک وہ عورت اعلیٰ وارفع کردار کی مالک گردانی جاتی ہے جو اپنی تمام تر جنسی، جذباتی اورنفسیاتی خواہشات کو دبا کر ایک ہی مرد تک محدود رکھتی ہے۔ اس دباؤ اور جبر کے نتیجے میں وہ کس طرح کی تباہ کن نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کی شکار ہوتی ہے اس کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہیں کی بجز طِب کے اور طب میں بھی بالخصوص نفسیات اور ہومیو پیتھی نے خاص طور پر عورت کے جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا ادراک کرکے ان کاحل پیش کیا ہے۔ جرائم کی دنیا میں ’’مردوں ‘‘کی حد تک مجرموں کے نفسیاتی نوع کے مطالعے ضرور کئے گئے ہیں مگر عورت کو یا تو وہ ’’ڈائن ‘‘یا ’’چڑیل‘‘ کہہ کر یورپ جیسے انتہائی ترقی یافتہ معاشروں میں بھی زندہ جلایا گیا یا پھر فاحشہ ، بدکردار ، بدمعاش اور زانیہ کہہ کر راندہ درگارہ اور سنگسار کی گئی۔
آج بھی ہمارے اخبارات اس نوع کی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں کہ ’’عورت نے آشنا کے ساتھ مل کر خاوند کو قتل کرڈالا‘‘
کبھی یہ سرخی یوں پڑھنے کو ملتی ہے۔
’’غربت سے تنگ آکر ماں نے تین معصوم بچوں کو قتل کردیا‘‘
اور اس نوع کے ہزاروں واقعات ہیں جن میں عوت قتلِ انسانیت کی سطح پر اُترتی ہے۔ آخر ایک انسان اپنی انسانی anatomy سے کیوں کر گِر جاتا ہے۔ ان وجوہات کا پتہ لگانا نفسیات کا کام ہے۔
اپنے اس مضمون میں چند حقیقی اور چند تخلیقی نسوانی کرداروں کا جائز ہومیو پیتھی فلاسفی آف میڈیسن کی روشنی میں لوں گی۔
ان حقیقی کرداروں کا تعلق بھی ادب سے ہے اور تخلیقی کردار تو جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ہیں ہی ادب کی کرشمہ سازی۔ اس مقالے کا مقصد انسانی بالخصوص نسوانی کرداروں کا نفسیاتی اور طبی مطالعہ ہے۔ ہمارے ارد گرد کتنے ہی بے شمار کردار ہیں جو دراصل مریض ہیں مگر ہم انہیں غلط، بدکردار اور ناقابل توجہ گردانتے، اور ان پر لعنت ملامت کرتے ہیں۔ اگر اس نوع کے لوگوں کا تفصیلی معائنہ اور مطالعہ کرکے ان کا علاج کیاجائے تو معاشرے کے اندر سے اَسّی فیصد جرائم کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

فرائڈ نے انسانی نفسیات کو جنس کے ساتھ جوڑا ہے۔ اول اول فرائڈ پر بے پناہ طعن وتشنیع ہوئی اور ان کو گالیوں سے نوازا گیا مگر فرائڈ کا فرد کی تمام تر نفسیات اور کردار کی تشکیل کو جنس کے ساتھ جوڑنا بے جا نہیں تھا بلکہ یہ ایک بہت بڑا تھیسس تھا اس کی تفصیل سے گریز کرتے ہوئے میں صرف چند مثالیں پیش کروں گی ۔ جو کہ ہومیو پیتھک فلاسفی آف میڈیسن کی ذیل میں آتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امبر اگر یشیا میں لڑکی کا شرم وحیا چھپا ہوا ہوتا ہے۔سنِ بلوغت میں جب فطری طور پر لڑکی میں جنسی خواہش ابھرتی ہے تو اس کی تین سٹیجز ہوتی ہیں یا تو وہ کھلم کھلا جنسی تعلقات استوار کرتی ہے اور فطری ضروریات کی تکمیل شروع ہوجاتی ہیں ۔
یا وہ چوری چھپے اپنا کام کرتی رہتی ہے (Masterbation)اور سٹافی سیگیریا Staphisagria بن جاتی ہے۔خود لذتی اور تخیل سے کام لینے والی عورت کو یہ نفسیاتی مسئلہ بن جاتا ہے کہ وہ غصے کو دبانے والی بن جاتی ہے وہ اندر ہی اندر کڑھتی رہتی ہے اور دل ہی دل میں مٹھیاں بھینچ بھینچ کر لوگوں پر غصہ اتارتی ہے مگر غصے کا اظہار نہیں کرپاتی۔
اور تیسری سٹیج وہ ہے جہاں لڑکی، مذہب، عبادات، اخلاقیات اور اس طرح کی چیزوں کا سہارا لے کر خواہشات کو دباتی ہے اور نتیجے میں پلاٹینا(Platina)بن جاتی ہے۔پلاٹینا سرد مہر، مغرور، منہ پھٹ، عبادت گزار، بدمزاج اور نہایت ظالم اور سفاک ہوتی ہے۔ (Platina)دوسری ٹائپ کے اُلٹ ہوتی ہے اس کو اپنی ذات پر بے جا فخر اور اپنی پاکیزگی پر خواہ مخواہ کا غرور ہوتا ہے۔ ہاں شادی شدہ عورتوں کو بھی Platinaدیکھا گیا ہے مگر اس کی وجوہات دوسری ہیں۔ جبکہ سٹانی سیگیریا بظاہر بہت حلیم الطبع اور دھیمے مزاج کی ہوتی ہے مگر وہ دماغ کے اندر ہی اندر کھولتی رہتی ہے۔
چوتھی قسم نوجوان کنواری لڑکیوں کی (Ashoka)اشوکا کی ہے۔ اس دوا کے مزاج کے تحت آنے والی لڑکی کی جنسی خواہش حد سے زیادہ بڑھی ہوتی ہوتی ہے۔ اشوکا کنواری لڑکیوں کو دروازے میں کھڑا کردیتی ہے۔ پانچویں قسم (Lac caninum)لیک کینینم کی ہے۔اس دوا کا مزاج رکھنے والی عورت میں بے پناہ جنسی کشش ہوتی ہے، یہ عورت موٹاپے کی طرف مائل ہوتی ہے اس کے پر گوشت اور بھرے ہوئے سینے کی وجہ سے مردوں کی ایک بڑی تعداد ایسی عورت کا تعاقب کرتی ہے اور یہ عورت ہر مرد کو قربت کا موقع فراہم کرتی ہے۔
StaphisagriaاورLac caninumدونوں کرپٹ ہیں۔ مگر ان کی کرپشن میں فرق یہ ہے کہ سٹافی سگیریا دبلی پتلی ہوتی ہے اور اس کے چہرے پر کیل ہوتے ہیں جبکہ لیک کینینم موٹی ہوتی ہے اور اس کے چہرے اور پیشانی پر براؤن رنگ کی چھائی ہوتی ہے۔(۲)
چھٹی قسم کے تحت آنے والی عورت پلسٹلا(Pulstilla)ہے۔ پلسٹلا بھی Lac caninum کی طرح جسمانی طور پر بے پناہ پرکشش اور موٹی ہوتی ہے مگر یہ عورت جسمانی تعلقات استوار نہیں کرتی اور رومانس کو باتوں کی حد تک محدود رکھتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply