استنبول میں ہونے والی تنظیم برائے اسلامی کونسل کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کے ‘مقبوضہ دارالحکومت’ کے طور پر تسلیم کرے۔ تاہم 57 رکنی اس تنظیم میں عرب ممالک کی شرکت اتنی حوصلہ افزا نظر نہیں آئی کہ جس سے یہ کہا جا سکے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یروشلم یا القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ واپس ہوسکے گا۔
اس کی سب سے بڑی وجہ عرب ممالک اور مسلم ممالک میں وہ تقسیم ہے جس کی بظاہر ایک وجہ فرقہ واریت ہے۔ درج ذیل مسلمانوں اور عربوں کی چند بڑی تنظیموں کی سرگرمیاں اور ترجیحات سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ترکی کے صدر کی القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی کوشش کہاں تک پہنچ سکے گی۔
تنظیم برائے اسلامی تعاون (او آئی سی)
گذشتہ کئی برسوں سے تنظیم برائے اسلامی تعاون (او آئی سی) کے موثر ہونے کا بارے میں سوالات اٹھ رہے تھے لیکن استنبول کے حالیہ اجلاس نے اس تنظیم میں ایک نئی جان ڈالی ہے۔ اس سے قبل کئی دوسری مسلم تنظیموں کے زیادہ فعال نظر آنے کی وجہ سے اس تنظیم کو متروک سمجھا جانے لگا تھا۔
اسلامی ممالک کی تنظیم کے نام سے یہ 1969 میں مراکش کے شہر رباط میں اس وقت قائم کی گئی تھی جب القدس یا یروشلم میں مسجد الاقصٰی پر کسی شدت پسند غیر مسلم کے حملے کی وجہ سے عالم اسلام غیض و غضب میں پیدا ہوا تھا۔ بعد میں اس کا نام تنظیم برائے اسلامی تعاون رکھ دیا گیا۔
اس لحاظ سے یہ مسلمان ممالک کی پہلی تنظیم تھی جو مسلمانوں کی ایک اہم ترین مسجد کی بے حرمتی پر ان کے شدید ردعمل کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ اس سے قبل عرب لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا لیکن وہ صرف عرب ممالک پر مشتمل تھی۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک کی اس تنظیم میں القدس (یروشلم) اور مقبوضہ فلسطین کی آزادی اور فلسطینی ریاست کا قیام اس کے سب سے بڑے مقاصد ہیں۔
لاہور میں اُس وقت کے پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی زیر صدارت ہونے والی اسلامی ممالک کی تنظیم کی 1974 کی سربراہی کانفرنس میں فلسطینیوں کی تنظیم برائے آزادئ فلسطین (پی ایل او) کو اس او آئی سی کا باقاعدہ طور پر ایک رکن تسلیم کیا گیا تھا جس کے بعد اقوام متحدہ نے بھی پی ایل او کو جنرل اسمبلی میں ایک مبصر کی حیثیت دی تھی۔
اگر استنبول کی رجب طیب اردعان کی زیر صدارت او آئی سی کا یہ سربراہی اجلاس مسلمانوں کا مضبوط اور موثر موقف پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ تنظیم نہ صرف اپنی حیثیت کو از سر نو منوانے میں کامیاب ہوجائے گی بلکہ اس سے مشرق وسطیٰ کی موجودہ دھڑے بندیوں کے بیانیے پر بھی ایک ضرب لگ سکتی ہے۔
عرب لیگ
دوسری جنگ عظیم کے بعد عالم عرب کے اس وقت کے چھ ممالک نے 1945 میں السکندریہ پروٹوکول نامی دستاویز پر دستخط کیے اور پھر اگلے برس جامعۃ الدول العربیہ یا عرب لیگ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی جس کا مقصد عرب ممالک کے سیاسی اور اقتصادی معاملات میں تعاون کو فروغ دینا تھا۔ اب اس کے بائیس ارکان ہیں اور اس کا ہیڈکوارٹر قاہرہ میں ہے۔ پہلے دن سے ہی اس تنظیم میں مسئلہ فلسطین کا حل اس کے اوّل ترین اہداف میں تھا۔
تاہم تین عرب اسرائیل جنگوں کے باوجود بھی عرب لیگ مسئلہ فلسطین کا مناسب حل ڈھونڈنے میں ناکام رہی۔ بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مصر نے، جہاں عرب لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا، اسے اس کی رکنیت سے محروم کردیا گیا جب اس نے باقی ارکان کی مخالفت کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ مصر آج بھی اپنے موقف پر قائم ہے لیکن بعد میں مصر کی رکنیت کو بحال کردیا گیا۔
اس وقت عرب لیگ نے شام کی رکنیت معطل کی ہوئی ہے اور یمن کی جنگ رکوانے میں عرب لیگ کا کوئی کردار نظر نہیں آتا ہے۔ یہ لیگ نہ عربوں کے باہمی مسائل یا تنازعات طے کرانے میں کامیاب ہو سکی اور نہ ہی مقبوضہ فلسطین کو اسرائیل سے آزاد کرانے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام لے سکی ہے جو کہ اس کے قیام کا بنیادی مقصد تھا۔
خلیجی ممالک کی تعاون کی کونسل (مجلس التعاون لدول الخليج)
یہ جی سی سی کے طور پر جانی جاتی ہے اور اس کے ارکان میں بحرین، کویت، اومان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت شامل ہیں۔ جی سی سی 1981 میں قائم ہوئی تھی۔ اور اس کا اعلانیہ مقصد رکن ممالک کے درمیان اقتصادی، دفاعی اور سلامتی کے امور کے بارے میں تعاون کرنا ہے۔ لیکن اس کا واضح مقصد خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے ان عرب بادشاہتوں کو محفوظ رکھنا ہے۔ سعودی عرب کی یہ بھی کوشش تھی کہ اس کونسل کو خلیجی یونین میں تبدیل کردے۔
لیکن قطر کے کئی ماہ سے جاری بائیکاٹ، دسمبر کے اوائل میں کویت ہونے والے سربراہی اجلاس کی ناکامی اور ساتھ ساتھ سعودی عرب اور متحدہ عرب کے درمیان جی سی سی کے مقاصد والا دو طرفہ معاہدے نے جی سی سی کو اگر ختم نہیں تو کم از کم ایک فالتو تنظیم بنا کے رکھ دیا ہے۔ بہر حال نہ جی سی سی کے اغراض و مقاصد میں اور نہ ہی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دو طرفہ معاہدے میں مسئلہ فلسطین کا ذکر ہے۔
اسلامی ممالک کی افواج (التحالف الاسلامي العسكري لمحاربۃ الارھاب)
اسلامی ممالک کی افواج پر مشتمل یہ تنظیم 2015 میں قائم ہوئی تھی۔ اوائل میں اس کے ارکان 34 بتائے گئے تھے لیکن اب اس کے ارکان 41 ہیں۔ اس اجتماعی افواج کے کمانڈر پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف ہیں۔
اس افواج کے اعلانیہ مقصد میں شدت پسندی کے خلاف جنگ کا ذکر تو موجود ہے لیکن تاحال ایران اس افواج کا رکن نہیں ہے۔ مقبوضہ فلسطین کو آزاد کرانا کا بھی اس اسلامی افواج کے مقاصد میں شامل نہیں ہے۔
استنبول میں ہونے والی تنظیم برائے اسلامی کونسل کے اجلاس میں مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشرقی یروشلم کو فلسطینی ریاست کے ‘مقبوضہ دارالحکومت’ کے طور پر تسلیم کرے۔ تا ہم 57 رکنی اس تنظیم میں عرب ممالک کی شرکت اتنی حوصلہ افزا نظر نہیں آتی ہے جس سے یہ کہا جا سکے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یروشلم یا القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے فیصلہ واپس ہوسکے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں