• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دودھ پینے والے مجنوں ۔ اینٹی اسٹبلشمنٹ کمرشل لبرل مافیا/پیجا مستری–عامر حسینی

دودھ پینے والے مجنوں ۔ اینٹی اسٹبلشمنٹ کمرشل لبرل مافیا/پیجا مستری–عامر حسینی

حکایت ہے کہ جب مجنوں کو صحرا بدر کردیا گیا تو لیلیٰ نے مجنوں کی مدد کی ٹھانی اور اپنے ایک معتمد کو دودھ سے بھرا ایک کٹورا دیا اور کہا کہ صحرا میں میرا مجنوں بھوکا پیاسا ہے جاؤ یہ دودھ اسے دے آوٴ۔ راستے میں معتمد کو ایک ٹھگ مل گیا اس نے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو، معتمد نے بتایا کہ وہ یہ دودھ مجنوں کیلئے لے کر جارہا ہے ۔ ٹھگ نے اسی وقت ایک ترکیب سوچی اور دوڑ کر صحرا میں کچھ دور جاکر مجنوں کا بھیس بدل کر بیٹھ گیا۔ جب معتمد اسکے پاس سے گزرا تو جعلی مجنوں نے زور سےآ واز دے کر کہا کہ یہ دودھ یقیناً اس کی لیلی نے اسکے لیے بھیجا ہے ۔ معتمد بہت متاثر ہوا کہ مجنوں کو لیلی سے اتنا عشق ہے کہ اسے غیب کا عمل بھی ہوجاتا ہے ۔ معتمد نے جعلی مجنوں کو دودھ دیا اور واپس چلا گیا۔ اس طرح لیلیٰ مجنوں کو روز دودھ بھجواتی اور جعلی مجنوں راستے میں معتمد سے وہ دودھ لیکر پی لیتا۔ ایک روز لیلیٰ کے جی میں آئی کہ  مجنوں کی محبت کا امتحان لیا جاے ، اس نے اپنے معتمد سے کہا کہ آج جب مجنوں دودھ پی لے تو اس سے کہنا کہ لیلیٰ دیکھنا چاہتی کہ  تم اس سے کتنی محبت کرتے ہو اس لیے اس خالی کٹورے کو اپنے خون سے بھر دو۔ جعلی مجنوں نے جب یہ سنا تو بہت سٹپٹایا اور معتمد سے کہا کہ میں تو دودھ پینے والا مجنوں ہوں ، خون دینے والا مجنوں صحرا میں کئی میل اندر بیٹھا ہے جا ؤاس سے جاکر کہو کہ لیلیٰ کو خون چاہیے وہ یقیناً  اس کٹورے کو اپنے خون سے بھردے گا۔

فیض کے دور میں پاکستان خون دینے والے مجنوؤں سے بھرا ہوا تھا ، جو لیلائے وطن سے ہمیشہ یہ پوچھتے رہتے کہ
تجھے کتنوں کا  لہو چاہیے اے ارضِ  وطن

سوشل میڈیا ایکٹوازم کے  اس زمانے میں جب ٹویٹر پر ری ٹویٹس اور فیس بک پر سٹیٹس شیئر ہونے کی تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ کون کتنا بڑا مجنوں ہے ، اور جب پاکستان کے فوجی جنرلوں نے بھی اپنی مونچھ اتنی نیچی کر لی ہے کہ اب ان کی عزتِ  نفس اس وقت تک متاثر نہیں ہوتی جب تک تنقید حاضر سروس جنرل کا نام لیکر نہ کی جائے۔ بلکہ اب تو انہیں ایک ایسا ریٹائرڈ جنرل بھی مل گیا ہے جس کو گالیاں دے کر کوئی بھی جعلی مجنوں اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ ایسے میں محسوس ہوتا ہے کہ شاید اصلی مجنوں ختم ہو گئے  ہیں۔
مگر ایسا نہیں ہے ، پاکستان کی سرزمین خون دینے والے مجنوؤں سے بھری پڑی ہے ، یہ وہ خطہ ہے جس کے باسیوں نے

واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
اور
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی

یہی وجہ ہے کہ آج بھی فوجی جنرل آوازِ خلق سے اتنے ہی خوفزدہ ہیں جتنے ماضی میں تھے ۔آج بھی تیرہ سال کے نوجوان بلوچ سے لیکر ستر سال کے بوڑھے پروفیسر تک اسٹبلشمنٹ کے ہاتھوں قتل ہونے والوں میں شامل ہیں۔

مگر اس مضمون میں میں دودھ پینے والے مجنوؤں پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ مجنوں صرف اس دور کی پیداوار ہیں ، جنرل ضیاء  کے  تاریک دور میں بھی ایسے مجنوں کم نہ تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت کے دودھ پینے والے مجنوں دو قسم ہوتے تھے ، ایک وہ جو اپنے اوپر پولیس کیس بنوا کر ملک سے بھاگ کر سیاسی پناہ لینے کے طالب ہوتے ،اس کیلئے اگر انہیں کسی تھانے میں چند کوڑے بھی کھانے پڑ جاتے تو اس سے نہ چوکتے ۔ دوسری قسم وہ تھی جو مارشل لا ء اتھارٹیز کی نظر میں آنا چاہتے تھے تاکہ ان کی قیمت زیادہ لگ سکے۔

تاہم موجودہ دور میں دودھ پینے والے مجنوؤں کی اقسام بہت زیادہ ہیں ،آپ کو تیسرے درجے کے غنڈے بلیک میلر سے لیکر اعلیٰ  ترین درجے کے انتہائی بظاہر انٹلیکچوئل فلاسفر تک ایسے ایسے نادر مجنوں ملیں گے کہ آپ کیلئے یہ یقین کرنا مشکل ہو جائے گا کہ ایسے بھی دھوکے باز موجود ہیں۔

۱ ۔ جمہوری مجنوں : جنرل ضیاء کے دور کی پیداوار موجودہ دور میں یہ مجنوں جمہوریت پسندی کا لبادہ اوڑھ کر اپنی ان خواہشات کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں جو جنرل ضیاء کے دور میں ادھوری رہ گئیں تھیں ۔ نصرت جاوید، امتیاز عالم ، مرتضی سولنگی وغیرہ اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا دودھ صرف میاں نواز شریف کی بھینس دیتی ہے ۔ اس لیے ان کا بنیادی مطمع نظر نواز شریف کی خوشنودی ہے۔ جنرل ضیاء دور میں انھیں چبائی ہوئی ہڈیاں بھی نہیں ملتی تھیں ، ان کے  دن جنرل مشرف کے دور میں پھرے جب اس نے پرائیویٹ چینلز کو اجازت دی ، پھر جب کیانی نامی  جنرل نے مشرف کا تختہ الٹنے کی سازش کی تو یہ مجنوں جمہوریت پسندی کے بیج لگا کر سڑکوں پر عوام کے ساتھ شام ہوگئے ، آج بھی یہ لوگ مشرف دور میں لگی چند گھنٹوں کی پابندی کو اپنا سب سے بڑا تمغہ بتا کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ، ان کے بھونکنے پر جتنے گھنٹے پابندی لگی اتنے تو چینل عامر لیاقت کی وجہ  سے بند رہ چکے ہیں۔

۲۔ طالبانی مجنوں : یہ وہ مجنوں ہیں جو بنیادی طور پر فوجی جنرلوں کے کاسہ لیس ہیں ۔ ان کو دودھ دینے والی بھینس سعودی عرب میں ہے ۔ طالبان اور دوسرے شدت پسندوں سے تعلقات کے سبب یہ مجنوں ہمیشہ سے خوش خوراک ہیں ۔ حامد میر ، نجم سیٹھی، مظہر عباس ، نسیم زہرہ ان مجنوؤں میں شامل ہیں ۔ مشرف دور سے یہ مجنوں اکثر ریٹائرڈ جنرلز کو برا بھلا کہہ کر قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ جمہوری مجنوؤں کی طرح یہ بھی جمہوریت پسند ہیں البتہ یہ نوازشریف یا کسی اور لیلائے جمہوری کے عاشق نہیں ہیں۔

۳۔ سوشل میڈیا مجنوں : دودھ پینے والے مجنوؤں کا یہ گروپ جدید دور کی پیداوار ہے ۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں سوشل میڈیا پر وجود میں آنے والا یہ گروپ شہرت کا دلدادہ ہے ۔ ان میں سے بہت سے جوان مجنوں دودھ کی تلاش میں آئے تھے اور انھیں پتہ چلا کہ سب سے زیادہ اور جلدی دودھ دینے والی بھینس میڈیا ہے۔ ان میں سے اکثر ٹی وی چینلز پر جمہوری اور طالبانی مجنوؤں کے قدموں میں بیٹھ کر زیادہ دودھ پینے کا طریقہ پوچھ رہے ہوتے ہیں۔ ان کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ ان کا دودھ کہاں سے آتا ، کوئی شریفوں کی بھینس کی منتیں کررہا ہوتا ہے ، تو کوئی طالبان کی گود میں بیٹھ کر فیڈر مانگ رہا ہوتا ہے ، کسی کو جی ایچ کیو کی بھینس سے امیدیں ہیں ، تو کوی ملک ریاض کی بھینس سے دودھ مانگ رہا ہوتا ہے۔ ماروی سرمد ، گل بخاری ، رضارومی، علی ارقم ، جبران ناصر اور ایسے بہت سے مجنوں دودھ کی تلاش میں در در بھٹکے اور جہاں دودھ ملا وہیں بیٹھ گئے۔

۴ ۔ بدمعاش مجنوں: یہ گینگسٹر دراصل بلیک میلنگ کے شعبے سے تعلق رکھتے ھیں البتہ گذشتہ کچھ عرصے سے یہ دودھ کی تلاش میں اینٹی ایسٹبلشمنٹ کے صحرا میں بھٹک رہیں ۔ اس بلیک میلنگ میں کبھی ان کے سر مونڈے گئے تو کبھی فوجیوں نے ان سے زیادتی کی ، اور کبھی گلی کے غنڈوں نے انھیں کمبل کٹ لگائی اور یہ اینٹی ایسٹبلشمنٹ کا نعرہ مارکر دودھ دوہنے لگ گیے۔ ان کی بھینس زیادہ تر میڈیا چینلز کے مالک ، سمگلرز اور مذھبی شدت پسندوں کے پاس بندھی ہوتی ہے۔ عمرچیمہ ، احمد نورانی ، انصار عباسی ، جاوید چوھدری وغیرہ اس گروپ کے بنیادی ممبر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

۵ ۔ منے مجنوں : یہ چھوٹے چھوٹے مجنوں ، دولے شاہ کے چوھوں کی طرح سوشل میڈیا پر باولے ھوے پھرتے ہیں ۔ ان کو دودھ نہیں بلکہ گود کی تلاش ہوتی ہے ۔ اینٹی ایسٹبلشمنٹ کے چکر میں یہ چوہے بعض اوقات پاؤں تلے بھی آجاتے ہیں پھر انھیں نجم سیٹھی ، انصارعباسی جیسے لوگوں کی مدد لینی پڑتی ھے ، ایسے بہت سے منے مجنوں پاکستان اور پاکستان سے باھر اچھل اچھل کر اینٹی ایسٹبلشمنٹ نعرہ مارتے دکھائی دیتے ہیں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply