• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • القصّتہ العشق والہوس از زمانہ جان گلکرسٹ، زوجتہ الہنگام، حبشی بے لگام/خنجر عظیم آبادی

القصّتہ العشق والہوس از زمانہ جان گلکرسٹ، زوجتہ الہنگام، حبشی بے لگام/خنجر عظیم آبادی

سنو قصہ ء پارینہ کہ حقیقت کی ترجمانی ہے۔ یہ محسنِ اردو جان گلکرسٹ کی کہانی ہے۔ انیسویں صدی نے ابھی پالنے میں ہمک بھری تھی ،مَیری این کونٹری نام کی ایک طرار حسینہ جو کہ پھلجھڑی تھی، سمندر پار سے بڑے چاؤ سے بیاہ لایا گلکرسٹ۔ وہ گیسوئے مشکیں ،وہ لعل نگاریں وہ چشم سرمیں وہ سنگار، وہ نکھار کہ جو دیکھے دل تھامے، آن واحد میں مر مٹے ۔
شام خنک مشکبار گھڑی میں گلوں سے رنگیں بگھی تیار کی جاتی ۔ بنگال بھر سے منگائے تروتازہ گل بوٹوں سے مہکتی، دمکتی۔مشک و عنبر کا چھڑکاؤ ہوتا ۔ پھر سولہ سنگھار کئے زوجہء گلکرسٹ شوہر کے ہاتھ میں ہاتھ دئے مٹکتی لچکتی بگھی پہ ناز و ادا سے قدم رنجہ فرماتی اور کلکتے کی سیر کو جاتی ۔ راہ گیروں کی نگاہ ٹھٹھک جاتی، قلبِ ناصبور کی دھڑکن اچھل جاتی، تھم جاتا تنفس، پھٹ جاتے چشم بہ وجہء حیرت۔
شہر کے چوراہے پہ خستہ بوریا پر ایک شخص تھا بیٹھا کرتا، بظاہر بیوپاری تھا معجون قبض کشا کا ، در حقیقت تھا جادوگر عیار بڑا، بنگال کا جادو اتار رکھا تھا سر بسر، قلبِ مکار میں نہیں تھا کسی کا ڈر۔عمل ہیبت ناک میں تھا یکتا، کمر میں چھپائے ہوتا تھا گنڈا، بھسم شمشان کا، کھوپڑی ڈھانچہ قبرستان کا، لاتا تھا کام فسوں میں، کردیتا تھا مبتلا شکار کو جنوں میں۔

چوراہے سے جیسے ہی پری پیکر سراپا فسوں ، مَیری گزرتی جادوگر کلیجہ تھام لیتا ۔ اس کے اندر کی شوریدگی کو جان لیتا۔ ایک آہِ سرد بھرتا اور حسرت سے بگھی کے گرد و غبار کو صورت پلید پر ملتا۔ دن بہ دن عشق تیز تر ہوتا گیا ہجر کی آگ میں رات دن جلنے لگا ۔ گلکرسٹ کو رقیب روسیاہ مانا ۔ قسم کھائی کہ جب تک حسن کا یہ مجسمہ حاصل نہ کیا چین سے نہ بیٹھوں گا نہ کھاؤں گا نہ پیوں گا ۔ یہ حسینہ گر نہ ہوئی  میری تو پھر نہ رہے گی کسی اورکی ۔ پہنچا اپنے استاد کالے جادو کے ماہر جادوگر جٹال کے پاس بیان کیا سبب بہ حسرت و یاس ۔ جادوگر جٹال نے چلہ باندھا اور کہا کرتا ہوں خرابہ جلد ہی ہوگی تیرے پاس وہ قتالہ، مہ جبیں، مشکِ عنبریں۔

ادھر مَیری این کونٹری آئی سحر کے زیرِ اثر، ہوئی آب و دانہ سے بےخبر ۔ گم سم رہنے لگی نہ بولتی نہ ڈولتی چپ بیٹھی رہتی ۔ شب بھر اختر شماری میں رہنے لگی مصروف۔ کھانا پینا چھوڑا عیش و آرام سے منہ موڑا ۔رنج و محن سے ناطہ جوڑا ۔اب تو گلکرسٹ کی جان پہ بن آئی ۔ قریب آتا تو جنونی ہوجاتی،جیسے شوہر کو پھاڑ ہی کھاتی۔ گلرسٹ کا منہ دیکھنے کو روادار نہ تھی ۔ سیمیں بدن کو ہاتھ نہ لگانے دیتی جو ہاتھ لگتا سر پر دے مارتی ۔ گلکرسٹ کے ہوش فاختہ ہونے لگے، جرآت نہ ہوتی کہ بیوی کے قریب جائے ۔ گل بدن پژمردہ سی ہوئی، صحت شرمندہ ہوئی، ایک جانب ٹکٹکی باندھے بیٹھی رہتی ۔کلکتہ کے تمام طبیب، حکیموں کو دکھایا کچھ افاقہ نہ ہوا ۔ پھر انگلستان کا قصد کیا وہاں تھا ایک دماغی امراض کا ماہر عظیم، جس کا تھا سارے عالم میں شہرہ، تھا نبض شناس بڑا گہرا۔ اس نے بغور معائنہ کیا ۔ پھر یہ نتیجہ نکالا کہ میری ہے نا آسودگی کا شکار، گلکرسٹ کا آلہ ہے بے کار۔ جان گلکرسٹ اسی لیے ہوتا ہے شرمسار۔ ملتے ہی آسودگی ،ہوش میں آجائے گی دوانی ۔ جان گلکرسٹ نے سنا تو فکر مند ہوا، اپنے آلہ پہ جو تھا اب تک بھروسہ یک لخت بن گیا بھوسہ۔ سوچا شاید رہ گئی  کمی تسلی آلہ کی زوجہ سے نہ بنی۔ خیر کسی طرح کڑوا گھونٹ بھرا ، زہر بھرا نوالہ نگلا ۔ ایک آہ سرد بھر کر نم لہجے سے پوچھا کیا کرے اور کیسے کرے اس مرض کی دوا ۔

طبیب نے کہا جاؤ افریقہ اور تلاش کرو مرد کوئی  توانا ۔ خدا نے چاہا تو ہو جائے گی چنگی زنانہ، ورنہ جو حال ہے آجائے گا جلد ہی وقتِ قضا ۔ پھر کچھ نہ رہ جائے گا ہاتھ ملنے کے سوا ۔خیر لاچار ، پریشان حال ،مرتا کیا نہ کرتا جان گلکرسٹ پہنچا بیوی سمیت افریقہ، جاری کیااشتہار انوکھا ۔ گلی محلے میں ڈھول پٹوایا ۔چاہیے ایک حبشی جوان توانا جس کا آلہء خاص ہو مانندِ موسل چھوتے ہی لگے آہن ۔ مناسب تنخواہ دی جاوے گی، کھائے گا حلوہ مانڈا ،انعام و اکرام سے بھی نوازا جائے گا ۔ قطار لگ گئی  حبشیوں کی گلکرسٹ نے سبھی کی باری باری جانچ کی ۔چھوا،ہلایا، تولا ،پرکھا ، ناپا پھر ہزاروں میں ایک حبشی منتخب کیا ۔

اب اے گلچینو ماجرا سنو آگے کا اب جب مل گیا حبشی توانا تو اسے نہلایا ۔ سیاہ جسم کو مختلف رنگ و روغن سے زیبا کیا ۔ گلکرسٹ نے اپنے ہاتھوں سے عود و عنبر لگایا ریشمی لباس پہنا کر سر پر پھولوں کا تاج رکھا ۔ مئے خاص پلائی دو چار ترکیب بھی بتائی ۔ ہاتھ تھاما اور حجرہ ء وصال میں کیا داخل ۔ سسکتے ہوئے اندر بھیجا کانپتے ہاتھوں سے دروازہ لگایا کنڈی باہر سے چڑھائی۔

حبشی جب ہوا کمرے میں داخل تو دیکھا حسن کا مجسمہ سوز میں ڈوبا ہوا پلنگ پہ تھا بیٹھا ہوا ۔ حبشی کو جنت کا گماں ہوا خود کو چٹکی بھری کہ کہیں یہ خواب تو نہیں ۔ سرور دوچند ہونے لگا دھیرے دھیرے آگے بڑھا نشے میں جھوم کر جسم سے لباس الگ کرتا ہوا ۔ ادھر گلکرست پہ تھی بےقراری سوار دروازے سے کان لگائے سر جھکائے روئے جاتا زار و قطار ۔ ہاتھ ملتا کہ ہائے یہ کون سا وقت ہے آ پڑا ۔ اسی اثنا میں سنی بیوی کے چیخنے کی آواز ذرا سا شور ہوا بڑا مضطرب ہوا چشم تصور میں حبشی کو سوار دیکھا ۔ تھام چوکھٹ سر پٹکنے لگا ۔ چند لمحے ہی گزرے کہ آئی  ایک درد ناک صدا جان گلکرسٹ ہڑبڑا اٹھا ۔ گماں گزرا حبشی ہے جان کنی میں مبتلا بچاؤ بچاؤ کی دینے لگا صدا ۔ جان گلکرسٹ نے جوں ہی کنڈی اتاری اور دروازہ کھولا ۔ حواس باختہ الف ننگا حبشی تیر کی طرح نکل بھاگا ۔

سپاہی پیچھے دوڑے جان گلکرسٹ بھی دوڑا اور حبشی کو جا تھاما ۔ اب جو دیکھا ماجرا تو ہوش ہوئے فاختہ ، حبشی تھا خون سے لت پت پڑا عضو موسل تھا غائب مَیری گئی  تھی چبا ۔ بس تھا وہاں ایک گوشت کا لوتھڑا گویا سل بٹے پہ پیسا ہوا ۔ جان گلکرست چکرا کر بےہوش ہو گیا کھڑے گر پڑا ۔ ہوش آتے ہی لاؤ لشکر کے ساتھ افریقہ سے نکل بھاگا بنگال پہنچ کر سانس لیا ۔ رات دن آہ و زاری میں گزرتا بیوی کو دیکھتا اور کلیجہ پیٹتا ۔ کیسی شگفتہ گلاب تھی مرجھا کر لگنے لگی تھی سوکھی سڑی ۔ اب تو کپڑے پھاڑ کر سڑک پر نکل بھاگتی ۔

اے میرے عندلیبو سنو وہ زمانہ وہ دور سیاحِ صحرائے طریقت، شناور ِدریائے حقیقت، غواص بحر حقائق الہی، خواص سلطان دقائق لامتناہی حضرت نیزہ عظیم آبادی کا ۔ چہار دانگ میں حضرت کے کمال کا تھا شہرہ بڑا ۔ کیا انسان کیا چرند پرند پیڑ پودے اینٹ پتھر پہاڑ ندی نالے دشت صحرا غرض کہ ذرہ ذرہ حضرت نیزہ کی حقانیت بزرگی و برتری کا اعتراف کرتا ۔ حضرت کے کرامات سے بنگال کا ہر فرد آگاہ تھا خانقاہ جنگ و جدل کا دور دراز تک شہرہ تھا ۔ کسی نے گلکرسٹ کو یہ مشورہ دیا اب تم رخ کرو عظیم آباد کا ۔ حضرت نیزہ ہی کریں گے اب علاج درست ہوجائے گا خانقاہ جنگ و جدل پہنچتے ہی زوجہ کا مزاج ۔ لاچار گلکرسٹ نے یہ داؤ بھی آزمانے کا فیصلہ کیا سامان باندھا مع مَیری کے ریل گاڑی پر سوار ہوا پہنچا عظیم آباد کی پاک زمین پر تانگے والے نے فوراً پہنچایا خانقاہ کے در پر ۔

ادھر صبح نوخیز کی نرم گرم چمکیلی دھوپ خانقاہِ جنگ و جدل کے صحن میں تھی پھیلی ہوئی ۔ تخت خوشنما تھا بچھا ہوا ۔ میر امن سر جھکائے پیر دبائے جاتے ۔ سید حیدر بخش حیدری ذرا دور پنجوں کے بل اکڑوں بیٹھے چلم چڑھانے میں مشغول تھے ۔ پیر طریقت عالی مرتبت ،صدر مسند ارشاد وہدایت، جامع نعوت و خصائصِ ولایت، حضرت نیزہ کے جوتے شریف کے مقابل زمین پر ٹاٹ بچھا کر میر شیر علی افسوس ، میر بہادر علی حسینی ، مظہر علی ولا ، مرزا کاظم علی جوان ، خلیل خان اشک ، نہال چند لاہوری ،بینی نارائن جہاں اور دیگر شاگرد خاص احتراماََ دوزانو سر جھکائے بیٹھے پند و نصیحت سن رہے تھے ۔ علم کا جام لنڈھایا جا رہا تھا ۔ لعل و گہر لٹائے جا رہے تھے شاگرد جھولی بھر رہے تھے۔ فیض بخش جاری تھا اسی لمحے جان گلکرسٹ مَیری کا ہاتھ تھامے خانقاہ میں داخل ہوا۔
دور سے جونہی نظر پڑی قلعہ شکن، عکسر شکن

عالی مرتبت حضرت نیزہ پہ گلکرسٹ کے دل پر گہرا اثر ہوا رعب و جلال دیکھ کر کانپنے لگا دھیرے دھیرے قدم بڑھا کر قریب پہنچا ۔ حضرت نیزہ مَیری کو دیکھتے ہی سمجھ چکے تھے ماجرا ۔ لگائی زور سے حق اللہ کی صدا ۔ اٹھایا جوتا کہا سودا ہو یا جنون سحر ہو یا فسوں ظاہر ہو یا دروں آج کروں گا قصہ پاک بہت ستایا غریب کو۔ اب اے بنگالی فسوں گر کوسے گا تو نصیب کو ۔

پے در پے حضرت کا جوتا مبارک مَیری کے سر پر برسنے لگا ۔ گل گلکرسٹ بھونچکا کھڑا رہ گیا ۔ مَیری جوتے مبارک کے وار سے آنے لگی ہوش میں ۔ پچاسوں جوتے کھاکر مکمل حواس میں آئی  اور جان گلکرسٹ سے لپٹ گئی  ۔ اب دیکھتے ہی یہ ماجرا گلکرسٹ قدموں سے لپٹ پڑا رونے لگا ہچکیاں بندھ گئیں گڑگڑا اٹھا کہنے لگا ، پیرو مرشد کا کمال ہے ۔ اب تو میں آج سے آپ کامرید ہوا ۔حضور کا سایہء دامن ہی مجھ غریب کو کافی ہے، کروڑوں روپیہ پھونک ڈالا مگر ایسا علاج نصیب نہ ہوا. پھر جھک کر سات بار فرشی سلام کیا۔ کہا بس اشارہ دیجیے آپکے قدموں میں لاکر دونگا بچھا، سیم و زر لال و گوہر زمین جائداد عہدہ ۔ مجھ پر حکم ہوگا آپکا کہا ہوا ۔

یہ سنتے ہی حضرت نیزہ کی آنکھیں سرخا سرخ ہونے لگیں لال لال ڈورے رنگ جمانے لگے ۔ چہرہ مبارک غضب کے مارے سرخ ہوا جان گلکرسٹ سہما ڈرا ۔ میر امن نے آہستگی سے اشارہ کیا چپ رہنے کا ۔ جان گلکرسٹ چپکا سہما کھڑا رہا ۔ حضرت نے توقف کیا پرجلال آواز میں کہا ۔ یہ دولت دنیا میرے لیے ہے خاک پا ۔ جاآج سے تو میرا مرید ہوا ۔ اب تیری بیوی کا کوئی  نہ کر سکے گا بال بیکا ۔
پھر سید حیدر بخش حیدری کو اشارہ دیا وہ دوڑ کر خانقاہ جنگ و جدل کی دیوار سے ایک اینٹ مبارک اکھاڑ لائے ۔ حضرت نیزہ نے وہ اینٹ مبارک جان گلکرسٹ کو تھمائ حکم دیا کہ الٹے پیروں کلکتہ جاؤ اور ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھو خدا نے چاہا تو اس دارالعلوم سے ایک خلقت فیض پاوے گی زبان و ادب کا فروغ ہوگا تجھے بھی نیک نامی حاصل ہوگی ۔ سید حیدر بخش حیدری کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنا سامان باندھیں اور گلکرسٹ کے ساتھ کلکتہ کوچ کریں ۔ گلکرسٹ کو نصیحت کی کہ اردو زبان و ادب بہتر طریقے سے میاں حیدری سے سیکھو خدا نے چاہا تو خانقاہ جنگ و جدل کے عالی مرتبت برزگوں کے صدقے عزت پاؤ گے چہار جانب شہرت ہوگی تاریخ کے اوراق میں نام درج ہوگا ۔

گلکرسٹ نے جھک کر حضرت نیزہ کے دست مبارک پہ بوسہ دیا اور قدموں میں سر رکھا کہا جی تو نہیں چاہتا کہ اب آپ سے رہوں جدا مگر حکم ہے پیر کا اب جاتا ہوں کلکتہ ۔ پھر اس نے بڑے احترام و عقیدت سے اینٹ مبارک چومی آنکھوں سے لگائی  ایک پاک کپڑے میں لپیٹ سر پہ رکھی ۔ اور اشک بہاتا ہوا کلکتے پہنچا ۔ سید حیدر بخش حیدری نے اس بات کا بارہا ذکر کیا کہ جان گلکرسٹ نے پٹنہ سے کلکتے تک کے سفر میں لمحے بھر کے لیے بھی اینٹ مبارک کو سر سے نہ اتارا ۔ رفع حاحت وغیرہ بھی کھڑے کھڑے کسی ٹین یا ڈبے میں کر لیتا ۔

القصہ مختصر کلکتے پہنچتے ہی وہ لارڈ ولزلی سے ملا کہ سنایا سارا ماجرا ۔ لارڈ ولزلی نے حکم دیا اور فوراََ فورٹ ولیم کالج کی بنیاد کھودی جائے ۔ بنیاد کی پہلی اینٹ خانقاہ جنگ و جدل کی پڑی ۔ ادھر گلکرسٹ سید حیدر بخش حیدری سے روز بروز اردو سیکھتا رہا ۔ زبان دانی میں طاق ہوتا گیا ۔ فورٹ ولیم کالج کی تعمیر مکمل ہوتے ہی ایک خاص ریل گاڑی بھیجوائی  گئی  ۔ شہر بھر میں منادی پھرائی  گئی ، حضرت نیزہ آتے ہیں ۔ حضرت اپنے تمام شاگردوں کے ساتھ کلکتہ بڑے تزک و اہتمام کے ساتھ پہنچے ۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی  لارڈ ولزلی نے بھی حضرت نیزہ کی مریدی قبول کی ۔ لاکھوں کا جم غفیر تھا جب حضرت نیزہ نے فورٹ ولیم کالج کا افتتاح کیا ۔ دنیا بھر کے اخبار نے اس خبر کو چھاپا ۔

پیکر رشد و ہدایت حضرت نیزہ دیگر شاگردوں کے ہمراہ میر امن ،میر شیر علی افسوس ، میر بہادر علی حسینی ، مظہر علی ولا ، مرزا کاظم علی جوان ، خلیل خان اشک ، نہال چند لاہوری اور بینی نارائن جہاں کو لے گئے تھے ۔ سبھی کی نوکری کالج میں لگوائی  ۔ میر امن کو مترجم کے عہدے پر فائز کروایا ۔ گلکرسٹ کو کالج کا استاد و اتالیق مقرر کیا نصیحت فرمائی اپنے پیشے سے ایماندار رہو زبان و ادب کو تمام ہند میں پھیلاؤ ۔ پیشن گوئی  کی کہ یہ دونوں کریں گے کام بڑا ۔ خدا نے چاہا تو عزت شہرت نیک نامی کمائیں گے اردو زبان کو فروغ دیں گے ۔

میر امن کو نو طرزِ مرصع کے ترجمے کا حکم دیا کہا جب کام مکمل کر لیجیو تو آکر عظیم آباد مسودہ دکھا جائیو ۔ میر امن نے ترجمہ کیا اور سیدھے خانقاہ میں پاؤں دھرا ۔ حضرت نے ہزاروں غلطیاں سدھاریں زبان و بیان سے ترجمے کو نئے سرے سے آراستہ کیا ۔ گویا دوبارہ رقم کیا ۔ باغ و بہار نام تجویز کیا ۔ عزیز شاگرد کو مسودہ تھمایا کہا جا اسے جاکر شائع کروا ۔ دو جہاں میں نام روشن ہوگا ابد تک تو رہے گا زندہ ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ تاریخ دانوں کی حسد اور شاگردوں کی نااہلی کے سبب دنیا تاریخ خانقاہ جنگ و جدل سے اسکے کارناموں اور عالم پہ احسانات سے ناواقف ہے ۔ اب خنجر نے یہ طے کیا کہ تاریخ جنگ و جدل سے روشناش کرائے گا اپنے عالی مرتبت بزرگوں کو پوشیدہ نہ رکھے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تفصیل صورۃ ھذا:
صورۃء افتاحیہ مدرسہ فورٹ ولیم۔ رونق افروز حضرت نیزہ عظیم آبادی ۔ بائیں جانب جان گلکرسٹ، دائیں جانب میر امن مصنف باغ و بہار ۔معلوم ہو کہ جان گلکرسٹ بہ لحاظ ادب پیر دستگیر حضرت نیزہ کے سر پہ ھیٹ ڈالنے سے احتراز کرتا تھا، اس تصویر سے یہ بات ثابت ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply