وارث شاہ کی جوگ کے تصورات پہ تنقید ۔ -5/کاشف حسین سندھو

پچھلے مضامین میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ وارث جوگ یا فقر کے حصول کے لیے بالناتھ کے پاس ٹلہ جوگیاں حاضری دیتے ہیں لیکن وارث جوگ یا فقر کو یوں ہضم نہیں کرتے جیسے کہ ایک بند ذہن کا مرید کر سکتا ہے، وہ بالناتھ کے پاس حاضری سے قبل ہی جوگی یا صوفی کے ان اعمال پہ نقد شروع کر دیتے ہیں جو انکی نظر میں قابلِ تنقید ہیں اور انکا لہجہ بھی استہزائیہ ہے ۔وارث کی شخصیت کا ایک پہلو جگت یا وگتی کے پنجابی انگ کا بھرپور استعمال بھی ہے۔ طنز کی صلاحیت ہونا ایک اچھے تخلیق کار کی نشانی ہے۔

ہوکا پھرے دیندا پنڈاں وچ سارے آؤ کسے فقیر جے ھوونا جے
منگ کھاونا کم نہ کاج کرنا نہ کجھ چارنا تے نہیں چوونا جے
زرا کن پڑائیکے سواہ ملنی گورو سارے ہی جگ دا ھوونا جے
نہ دہاڑ نہ کسب روزگار کرنا ناڈھو شاہ پھر مفت دا ہوونا جے
نہیں دینی ودھائی پھر جمنے دی کسے موئے نوں مول نہ روونا جے
منگ کھاونا اتے مسیت سونا نہ کجھ بونا تے نہ کجھ لوونا جے
نالے منگنا تے نالے گھورنائی دیندار نہ کسے دا ھوونا جے
خوشی اپنی اٹھنا میاں وارث اتے اپنی نیند ہی سوونا جے ”

( آ جاؤ اگر کسی نے فقیر بننا ہے، رانجھا آواز لگاتا ہے اگر تم جوگی یا صوفی بن جاؤ گے تو مانگ کر کھانا بھی کھا لو گے اور نہ کام کرنا پڑے گا اور نہ بھینسوں کو چارہ ڈالنے اور دودھ دوہنے جیسی مشقت برداشت کرنی پڑے گی نہ کسی کے پیدا ہونے سے تمہیں غرض ہو گی اور نہ کسی کے مرنے سے اذیت ۔ بدن پہ راکھ مل کے سارے جہان کے گرو بنو گے، مفت کی عزت بھی ملے گی، نہ  دیہاڑی کی فکر نہ روزگار کی مشقت ہو گی ۔ نا ڈھو شاہ ( ایک امیر کردار) کی طرح زندگی مزے میں گزرے گی مانگ کر کھاؤ گے مزے سے مسجد میں سوؤ گے زندگی کے نشیب و فراز سے بچے رہو گے مانگ کر کھاؤ گے بھی اور دینے والوں کو جھڑکنے کی سہولت بھی ملے گی یعنی احسان رکھ کر مانگو گے اور اس سب کے باوجود کسی کے دیندار بھی نہیں ہو گے مزید یہ کہ اپنی مرضی سے سوؤ گے اور مرضی سے اٹھو گے )۔

مزے کی بات یہ ہے کہ وارث کی پہ تنقید عین اسوقت لکھی گئی ہے جب رانجھا ٹلہ جوگیاں پہنچنے والا ہے اور اسے اگلے بند میں بالناتھ جوگی کے پاس حاضری دینی ہے اور جوگ لینا ہے وارث صوفیوں اور جوگیوں کی ان عادات پہ طنز کرتے ہیں جو انہیں سماج کا روگ بناتی ہیں یہ عادات آج بھی آپ ان لوگوں میں عین بین ملاحظہ کر سکتے ہیں ایک اور بند میں بالناتھ رانجھے کو جتی ستی یعنی عورت کی خواہش ختم کرنے کے لیے مردانہ صفات سے محروم ہونے کا مشورہ دیتا ہے

وارث شاہ میاں لے کے چھری کائی وڈھ دور کریں ایس بوٹڑی نوں
( وارث شاہ ناتھ کا مشورہ یہ ھے کہ چھری سے لن کو کاٹ دیا جائے )
رانجھا بالناتھ پہ جوابی تنقید کرتا ہے کہ اگر مجھے عورتوں سے دور ہی رہنا ہوتا تو میں تمہارے پاس کیوں آتا

“رناں نال جے ورجدے چیلیاں نوں ایہہ گورو نہ بنھ کے چوونے جی ”
( اگر تم اپنے چیلوں کو عورتوں سے دور رکھو گے تو کیا چیلے گرو کو چود کے گزارا کرینگے ؟)

وارث دنیا میں رہ کر جوگ یا صوفی ازم کی اچھی تعلیمات کو آزمانے پہ یقین رکھتے ہیں اور ایک جگہ بالناتھ کو یوں مخاطب کرتے ہیں
“جے میں جان دا ہسنوں منع کرسیں تیرے ٹلے تے دھار نہ ماردا میں ”
اگر مجھے علم ہوتا کہ تم لوگوں کو ہنسنے سے بھی منع کرتے ہو تو میں تمہارے استھان پہ پیشاب بھی نہ کرتا )

قصہء مختصر یہ کافی لمبا مکالمہ ہے جس میں وارث شاہ جوگ یا صوفیت کی نیت کو درست لیکن انکے بعض اعمال پہ سخت تنقید کرتے اور گرو کو اس بات پہ قائل کرتے ہیں کہ میں نے دنیا میں رہتے ہوئے جو وقت (بارہ سال) ہیر کے عشق میں گزارا ہے اسی کو جوگ قرار دیا جائے اور مجھے جوگ دیا جائے جسے بالناتھ مان کر رانجھے کو جوگی کا بھیس عطاء کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply