شیکسپیئر کہتا ہے۔شکور پٹھان

شیکسپئر بے چارہ کسی کو کچھ نہیں کہتا لیکن جس کسی کو اپنی بات میں وزن پیدا کرنا ہوتا ہے وہ اسے شیکسپئر کے سر منڈھ دیتا ہے۔ میرا اپنا یہ حال ہے کہ جب کوئی کہتا ہے کہ “ شیکسپئر کہتا ہے” تو میں سخت مرعوب ہوجاتا ہوں کہ یہ شخص نا صرف مجھ سے زیادہ پڑھا لکھا ہے، بلکہ انگریزی پڑھا لکھا ہے اور انگریزی بھی ہماری جیسی بابوؤں والی، دفتری انگریزی نہیں، کلاسیکی ادب والی انگریزی پڑھا ہوا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ شیکسپئر زمانہ قدیم کے  فلسفیوں بقراط، سقراط اور ارسطو کی طرح مسند پر بیٹھا اقوال زریں نشر کرتا رہتا تھا اور سامنے اسکے شاگرد زانوئے تلمذ تہہ کئے بیٹھے اس کے اقوال نوٹ کرتے رہتے تھے تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے ہر مسئلے کے کام آسکیں۔ یہ زانوئے تلمذ کیا ہوتا ہے اور اسے کیسے تہہ کرتے ہیں مجھے اس بارے میں بالکل علم نہیں ، یہ صرف میں نے پڑھا ہے آج تک ایسا کوئی زانو اور اس طرح تہہ کئے ہوئے نہیں دیکھا۔

خیر بات ہورہی تھی شیکسپئر اور اس کے اقوال کی۔ ان اقوال سے تو لگتا ہے کہ وہ کوئی بھاری بھرکم فلسفی ہوگا لیکن جب اس کی “ انکوائری” کی تو پتہ چلا کہ نرا ڈرامہ نویس اور شاعر تھا اور شاید اداکار بھی تھا اور جواقوال اس سے منسوب ہیں وہ دراصل اس کے ڈراموں کے مکالمے ہیں اور آج جس طرح All the world’s a stage, and all the men and women mearly players. اور To be, or not to be, that is the question قسم کے مکالمے بطور اقوال زریں پیش کئے جاتے ہیں آنے والے وقتوں میں “کہاں سے آئے یہ جھمکے، کس نے دئیے یہ جھمکے، کیا کہہ رہے ہیں جھمکے” اور “ چوری میرا پیشہ ، نماز میرا فرض ہے” جیسے مکالمے بھی اقوال زریں کی طرح دہرائے جائیں گے اور مستقبل کے استاد شیکسپئر کی طرح عمر شریف اور امان اللہ کا نام لے کر کہا کریں گے کہ “ امان اللہ کہتا ہے”۔

“شیکسپئر کہتا ہے” کی طرح اور بھی ایسے ہیں جو کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں۔ بہت زیادہ پڑھے لکھوں کی محفل میں بیٹھو تو سب سے زیادہ پڑھے لکھے صاحب، نطشے، کی مار مارتے ہیں اور حاضرین کی مجال نہیں ہوتی کہ کہ کچھ کہہ سکیں کہ پاکستان بھر میں کُل ملاکر چار سو پینتیس افراد ہیں جو نطشے کو جانتے ہیں اور یہ چار سو پینتیس وہ ہیں جو نطشے کا حوالہ دیتے ہیں ورنہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا واقعی آپ نے “ نطشے” کو پڑھا ہے۔

ایک اور فلسفی جس کے اقوال بچپن سے سنتے آئے ہیں، کنفیوشس ، ہے، جس کے سارے اقوال ہم “ علی عمران، ایم ایس سی، پی ایچ ڈی آکسن “ سے سنتے تھے ، اب اللہ جانے یہ علی عمران کے اپنے خود ساختہ یعنی گھر کے بنے ہوئے اقوال تھے یا کنفیوشس کے، کہ سننے والا بھنا جاتا تھا۔ حالانکہ کنفیوشس کے بارے میں سنا ہے کہ ٹھیک ٹھاک ہی فلسفی تھا اور اسے چینی تمدن کا استاد مانا جاتا تھا۔

“ شیکسپئر کہتا ہے، نطشے کہتا ہے، فلاں کہتا ہے” کے سلسلے کے ایک اور حضرت ہیں جن کا حوالہ عموماً گندی گندی باتوں کے سلسلے میں دیا جاتا ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جنہیں کبھی ہم اپنے بڑوں کے سامنے نہیں کرتے تھے اور اب، جب ہم خود بڑے ہوگئے ہیں، بچوں کے سامنے نہیں دہرا سکتے۔ یہ حضرت ہیں سگمنڈ فرائیڈ، جو نجانے کس چیز کے فلسفی تھے لیکن ان کا حوالہ ہمیشہ “ ایسی ویسی باتوں” کے لئے ہی دیا جاتا ہے۔ یو ں لگتا  ہے کہ فرائیڈ کے دماغ میں ایک ، وہی وہانوی، چھپا بیٹھا ہے لیکن چونکہ اس کے اقوال ہم تک انگریزی میں پہنچتے ہیں ، وہ بے حد معتبر ہوجاتا ہے۔ ایمانداری سے بتائیں کبھی آپ نے کسی اور سلسلے میں فرائیڈ کا نام سنا ہے؟۔

اقوال زریں، نصائح اور پسند سود مند دراصل گفتگو میں برہان قاطع ثابت ہوتے ہیں ، بحث کے دوران سامنے والے کو کسی فلسفی، عالم، دانشور کا قول سنا دو ، وہ بغلیں جھانکنے لگتا ہے۔ لیکن ہر وقت کوئی نہ کوئی فلسفی اور قول میسر نہیں آتا تو یار وں نے اپنے فلسفی بنا لئے ہیں یا کسی مشہور شخصیت سے وہ باتیں منسوب کردی ہیں جنہیں وہ خود کہنا چاہتے ہوں اور سماجی ذرائع ابلاغ ( سوشل میڈیا) کی ترویج کے بعد تو خودساختہ اقوال اور اشعار کا ایک سیلاب سا آیا ہوا ہے۔

ہندوستان کی سرزمین ایسے رشیوں، فلسفیوں اور عالموں سے بھری پڑی ہے جو ہر چیز کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہہ گئے ہیں۔ یہاں چانکیہ، گاندھی، ٹیگور، سوامی ویویک آنند جیسے فلسفی کیا کم تھے کہ بھائی لوگوں نے “اے پی جے عبدالکلام” کو بطور فلسفی “ لانچ” کردیا ہے۔ آج ہندوستانیوں کی ہر تحریر اور گفتگو میں عبدالکلام کا حوالہ نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ عبدالکلام جوہری سائنسداں نہیں کوئی بہت بڑے دانشور اور فلسفی تھے۔

ادھر اپنے ہاں بھی اپنے اقوال زریں کو معتبر ہستیوں سے منسوب کرنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ بزعم خود حکمت و دانش کی ہر بات کو معتبر اور مقدس بنانے کے لئے اسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب کردینا عام سی بات ہے۔ یہ وہ اقوال ہوتے ہیں جو آپ کو نہ تو “ نہج البلاغہ” میں ملیں گے نہ ہی شیر خدا کے بیان کردہ کسی اثر یا حدیث میں ملیں گے۔

پچھلے ایک ماہ سے میں جس مسجد میں نماز جمعہ پڑھ رہا ہوں وہاں خطیب صاحب بڑی اچھی باتیں کرتے ہیں لیکن میں نے ان سے شاید ہی کبھی کسی نبی ، صحابی یا ولی کا قول دہراتے ہوئے سنا ہو۔ “ بزرگ کہتے ہیں” کہہ کر وہ کوئی قول سناتے ہیں۔ یہ بزرگ کون ہیں ، کہاں ہیں، کس درجہ کے بزرگ ہیں، ان کا علمی مقام و مرتبہ کیا ہے، یہ کوئی نہیں جانتا۔ “ بزرگ کہتے ہیں” سے یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ ایک ہی بزرگ کہتے ہیں یا مختلف بزرگوں کے اقوال ہیں۔

اور مجھ جیسے بہت سے کم علم جنہوں نے کسی عالم، فلسفی یا دانشور کو نہیں پڑھا ہوتا، اپنی بات کو کسی دوسرے سے کہلوا کر منوانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے “ بقول کسے” کی ترکیب استعمال کرتے ہیں اور چونکہ “ کسے” کے معنی اور املا سے واقف نہیں ہوتے چنانچہ “ بقول کسی کے” کہہ کر مقابل کا منہ بند کرتے ہیں۔

یہاں تک تو بات مذاق میں ہورہی تھی لیکن ایک سنجیدہ سی بات جو مشاہدے میں آئی وہ یہ ہے کہ لوگ باگ بغیر کسی قرآنی آیت یا حدیث کے حوالے کے، اپنی بات کو اللہ تعالی سے منسوب کردیتے ہیں کہ اللہ یہ نہیں کہتا، یا،اللہ تو کہتا ہے، یا، اللہ بھی کہتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ کچھ دن پہلے ایک تیسرے درجے کے اداکار کو دیکھا جو ایسی ہی کوئی بات “ اللہ بھی کہتا ہے” کہہ کر سنا رہا تھا جس کا کوئی حوالہ کم از کم میں نے قرآن اور کسی دینی کتاب میں نہیں دیکھا۔ میرے خیال میں اپنی جانب سے کہی کسی بات کو اللہ کی بات کہنا اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَـرٰى عَلَى اللّـٰهِ الْكَذِبَ۔۔( اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے) ( سورہ صف)۔

میرا خیال ہے کہ ہمیں اس بارے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ اللہ کے حوالے سے کہی گئی ہر بات ہمارے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے اور ایسی کوئی بات جو اللہ نے نہ کہی ہو اور ہمارے ذہن کی اختراع ہو اسے اللہ سے منسوب کرکے ہم گناہ کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ علما  کرام اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب بات سنجیدہ ہوچلی ہے تو بہتر ہے بات کو یہیں ختم کیا جائے۔ حال ہی میں ظہور پذیر ہونے والے ایک فلسفی ،علامہ اور دانشور کے اقوال آج کل بہت مقبول ہورہے ہیں اور ایک عالم ان اقوال کا اور فلسفے کا پیروکار ہے۔ البتہ وہ فلسفی اور دانشور کچھ دنوں بعد اپنے قول سے رجوع کرلیتے ہیں ساتھ ہی ان کے پیروکار بھی اپنی رائے بدل لیتے ہیں۔ لیکن اس بارے میں کچھ کہنا، بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے لہذا آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔
دیکھوں اس بارے میں شیکسپئر کیا کہتا ہے۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply