• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیاسی موقع پرستی کی کلاسیکل مثال/لیاقت علی ایڈووکیٹ

سیاسی موقع پرستی کی کلاسیکل مثال/لیاقت علی ایڈووکیٹ

ن لیگ کےسینٹر اورپارلیمنٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے دفاع کے چئیرمین مشاہد حسین سید کو انٹرنیشنل کانفرنس آف ایشین پولٹیکل پارٹیزکا شریک چئیرمین منتخب کرلیا گیا ہے۔ترکی کے دارالحکومت استنبول میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کی میزبانی ترکی کی حکمران پارٹی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے کی اور اس میں ایشیا کی ستر سیاسی جماعتوں کےنمائندے شریک ہوئے۔ مشاہد حسین کا نام تھائی لینڈ اور ایران کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے تجویز کیا اور انھیں چین روس، کمبوڈیا،لبنان اور انڈونیشیا کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے ووٹ دیئے۔
مشاہد حسین سید نے اپنی اوائل جوانی میں پاک کوریا یوتھ فرینڈ شپ ایسوسی ایشن بنائی تھی۔یہ ایسوسی ایشن شمالی کورین کے اسلام آباد میں سفارت خانے کی مدد اور تعاون سےچلتی تھی۔ان کے مقابلے میں اسلم ناگی ایڈووکیٹ مرحوم کی پاک کوریا فرینڈ شپ سوسائٹی تھی جسے ملک معراج خالد جیسے سیاسی رہنماوں کی حمایت و تائید حاصل تھی۔ اسلم ناگی کی سوسایٹی پر بھی شمالی کورین سفارت خانہ مہربان تھا بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کچھ زیادہ ہی مہربان تھا۔ اسلم ناگی اور مشاہد حسین کے مابین شمالی کورین سفارت خانہ کی خوش نودی کے لئے دوڑ لگی رہتی تھی۔ دونوں ہی جعلی اور فرضی اجلاسوں کے ذریعے اپنی کارکردگی کی رپورٹیں سفارت خانے کو بھیج کر زبانی اور عملی داد وصول کیا کرتے تھے۔ انہی دنوں مشاہد حیسن بغرض تعلیم امریکہ کی کسی یونیورسٹی چلے گئے لیکن ان کی غیر حاضری میں ان کی بہنوں نے یہ تنظیم چلانا جاری رکھا تھا۔ ایک دفعہ کورین سفارت خانہ کےدو اہلکار لاہور آئے۔ ان اہل کاروں کا اسلم ناگی سے ملنے کاعلاوہ مشاہد حسین سید کی بہنوں سے ملنےکا پروگرام بھی تھا۔ ناگی مرحوم نے مجھے کہا کہ میں تو ان کورین سفارت کاروں کے ہمراہ مشاہد حسین کے گھر واقع مسلم ٹاون نہیں جاسکتا لہذا تم انھیں لے جاو۔ میں ان دو کورین اہلکاروں کو لے کر مشاہد حسین سید کی رہائش گاہ گیا جہاں ان کی بہنوں نے ان کورین سفارت کاروں کا استقبال کیا ۔ دوران گفتگو ان دو خواتین نے کورین سفارت کاروں کو بتایا کہ جوچے آییڈیا لاہور کے طالب علموں میں بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہم نے پنجاب یونیورسٹی میں طلبا پر مشتمل بہت سے سٹڈی سرکلزقائم کئے ہیں جن میں جوچے آئیڈیا پڑھایا جاتا ہے۔جوچے آئیڈیا شمالی کوریا کے بانی صدر اور ورکز پارٹی کے سربراہ کم ال سنگ سے منسوب نظریہ تھا جس کے بارے میں ان کا دعوی تھا کہ یہ سوشلزم کا کورین ورژن ہے۔ ان دو خواتین کو گفتگو سن کر میں دل ہی دل میں محظوظ ہوتا رہاکہ کس قدر جھوٹ بولا جارہا ہے۔
مشاہد حسین جب تعلیم سے فارغ ہوکر واپس آئے تو انھیں پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر کی ملازمت مل گئی اور انھوں نے وہاں پڑھانا شروع کردیا انہی دنوں عمراصغر خان بھی پنجاب یونیورسٹی میں اکنامکس پڑھاتے تھے۔ مشاہد حسین ان دنوں تحریک استقلال سے ہمدردی رکھتے تھے اور عمر اصغر خان کے ساتھ مل کر استقلال سٹوڈنٹس فیڈریشن منظم کرنے میں لگے رہتے تھے۔ جنرل ضیا کا مارشل لا نافذ ہوچکا تھا چنانچہ مبینہ طور پر ان کی ان سرگرمیوں کی بدولت ملازمت سے علیحدہ کردیا گیا اور انھوں نے صحافت کو جائن کرلیا۔ وہ روزنامہ نیشن اور مسلم میں کالم لکھنے لگے۔ سندھ میں ایم آر ڈی کی تحریک کی انھوں نے جو رپورٹنگ کی تھی اس کا بہت شہرہ ہوا تھا۔
ایک وقت ایسا بھی ایا کہ وہ روزنامہ مسلم اسلام آباد کے ایڈیٹر بن گئے یہ روزنامہ آغا مرتضے پویا نے جاری کیا تھا جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کےایران کی پہلوی حکومت سے قریبی روابط تھے اور یہ اخبار بھی ایرانی فنڈنگ ہی سے جاری ہوا تھا۔ مشاہد حسین کے والد فوج میں کرنل رہ چکے تھے اور دوران ملازمت پاکستان کی تہران ایمبیسی میں فوجی اتاشی کے عہدے پر بھی کام کرچکے تھے اور یہ وہ کنکشن تھا جس کی بدولت انھیں مسلم اخبار کی ادارت ملی تھی۔
وہ روزنامہ مسلم کے ایڈیٹر کے طور پر جنرل ضیا کی مارشل لا سرکار کے قریب تھے اور یہ اس تعلق کی بدولت انھوں نے پاکستان کے ایٹیمی ہتھیاروں کی بابت خبر بذریعہ کلدیپ نیر بریک کی تھی۔ جنرل ضیا کی موت کے بعد وہ نواز لیگ کے مشیروں میں شامل ہوگئے اور اسلامی جمہوری اتحاد کے نظریہ دان بن گئے۔ 1988 سے 1999 تک وہ ن لیگ کی برسر اقتدار آنے والی ن لیگ کی حکومتوں میں وزیر ہوتےتھے جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور نواز شریف کو معزول کیا تو یہ ق لیگ میں شامل ہوگئے اور جنرل پرویز مشرف کے معتمد ساتھیوں میں شمار ہونے لگے۔
جنرل پرویز مشرف جب اقتدار باہر ہوئے تو یہ کچھ عرصہ ق لیگ سے چمٹے رہے لیکن جلد ہی ایک دفعہ پھر ن لیگ میں شامل ہوکر سینٹر بن گئے۔
گزشتہ ایک دہائی سے وہ پاکستانی سیاست سے زیادہ چینی مفادات کے پاکستان میں نگہان بن گئے ہیں وہ سی پیک سے متعلق امور سے وابستہ رہتے ہیں اور خاکی اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ اور نگہداشت کے لئے سرگرم۔ جہاں جانے کا حکم ملتا ہے بلاچون و چراں وہاں چلے جاتے ہیں۔ وہ ان دانشوروں میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی عقل و دانش کو ہمیشہ حکمرانوں کی خوشنودی اور مفادات کے تحفظ کے لئے استعمال کیا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply