فلم” جوائے لینڈ” دیکھنے کے بعد میرا تجزیہ /محمد ہاشم

مڈل کلاس فیملی کی روایتی جدوجہد کو تھوڑا الگ رنگ دیا گیا ہے جس میں تقریباً  تمام رشتے ایک کمزور اور ٹوٹتے ہوئے جال میں بندھے ہوئے ہیں اور رشتوں کا یہ جال کچھ جھوٹ اور کچھ پردوں کے سہارے لٹک رہا ہے۔ایک ایسا خاندان جس کا ہر ممبر flaws میں گھرا ہوا، اپنی مورل پوزیشن کھو بیٹھا ہے اور گھٹ رہا ہے۔ مختصر سے دورانئے میں کئی طبقاتِ زندگی کی ضروریات، جدوجہد اور محرومیوں کو فلمایا کیا گیا ہے۔

جس ہیجڑہ کلچر اور ہم جنس پرستی سے جوڑ کر اس کو متنازع  بنایا گیا، فلم میں اتنا متنازع  مواد ہے ہی نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہیجڑہ کلچر ایک حقیقت ہے اور اس طبقے کی  سٹرگل، اور سروائیول کی جدوجہد ایک ایسا taboo ہے جس کو چھیڑنے سے ہمیشہ کترایا گیا ہے۔ خدا کی یہ مخلوق جس کسمپرسی میں زندگی گزار رہی ہے اس کی طرف جھانکنا اور اس کا سدِباب کرنا ایک اہم ضرورت ہے اور جو لوگ اس مخلوق کو اچھوت سمجھتے یا ایک مخصوص زاویے سے دیکھتے ہیں ان کو مثبت آگاہی تب ہی ملے گی جب ہم ان کو ڈسکس کریں گے اور ہیجڑوں کو بھی انسان سمجھ کر سماجی دائرے میں عزت والا مقام دیں گے۔

فلم کا مرکزی کردار ایک ہیجڑے کی طرف attract ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کا اپنا گھر تباہ ہوجاتا ہے گو کہ اس تباہی میں اور بھی عوامل موجب بنے۔ اب اس بات سے ہم جنس پرستی کلچر پروموٹ کیسے ہوتا ہے مجھے تو یہ بات سمجھ نہیں آئی۔

ایک اور اہم موضوع جس کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے وہ ہے ہمارے آج کا سٹیج ڈرامہ  ۔ ہمارا وہ تاریخی اسٹیج ڈرامہ جس کی ٹکٹیں امان اللہ خان، مستانہ، ببو برال اور سہیل احمد جیسے فنکاروں کے نام پر بِکتی تھیں، آج ان کی جگہ “گانوں” نے  لے لی ہے۔ ڈرامے میں جتنا واہیات ڈانس ہوگا اتنی “clap” آئے گی۔ ایسے ڈراموں میں کام کرنے والوں کی بھی ایک الگ دنیا ہے جس میں پروڈیوسرز، ایجنٹس اور آڈینس اپنی اپنی جگہ “stakeholders” ہیں۔ فلم میں اس پہلو کی بھی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔

کچھ کمزوریاں جو مجھے محسوس ہوئیں ۔ ان میں سب سے اہم بات یہ کہ ایک مضبوط پلاٹ اور مرکزی خیال ہونے کے باوجود سکرپٹ کافی کمزور تھا۔ کچھ مناظر بہت سست اور طویل تھے اور مختلف scenes اور sequences میں continuity کی کمی نظر آئی ۔ کیمرہ ورک قدرے بہتر تھا۔

المختصر فلم کا متنازع  بننا اس کو فائدہ ہی دے جائے گا۔ کچھ مناظر انوراگ کیشپ سینما کی کاپی لگے تو کچھ “مرزا پور” “تھری ایڈیٹس” اور “PK” سے متاثر لگے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

المختصر فلم کو جتنا متنازع  بنایا گیا اور بین تک لگایا گیا ،ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا اور مجھے ذاتی طور پر ایک ڈارک تھیم اور عصر ِ حاضر کے اہم مسائل کو اجاگر کرتی ایک اچھی فلم لگی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply