الدرعیہ۔ تاریخی جائزہ “حصّہ اول”/منصؤر ندیم

صرف تین صدیاں پہلے تک آثار کے اعتبار سے سعودی ریاست کی تشکیل کے تینوں مراحل کا دارالحکومت الدرعیہ فقط کھنڈرات کی شکل پیش کرتا تھا، آج کے موجود حکمران آل سعود نے اپنی سعودی ریاست کے تین ادوار تک یہیں سے اپنی حکمرانی کا آغاز کیا تھا، یہ سعودی دارالحکومت ریاض کے قریب واقع الدرعیہ کی مٹی کی چار دیواری میں کبھی ایک صحرائی شہر قائم تھا جو ثقافت اور تجارت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔الدرعیہ کے تاریخی مقام الطریف میں واقع مشہور قلعہ مملکت کے آل سعود خاندان کے اقتدار کا اصل مرکز تھا۔ جسے سنہء 1818 میں سلطنت عثمانیہ نے اپنے تعینات کردہ مصری گورنر محمد علی پاشا کے بیٹا ابراہیم پاشا کے ہاتھوں مصر سے افواج بھیج کر تباہ کیا تھا۔

الدرعیہ جو کبھی پہلے ایک وسیع اور آبادی سے بھرپور نخلستان تھا، جو ریاض سے صرف 15 منٹ شمال مغرب میں واقع ہے، اس وقت اس کا رقبہ قریب چار میل تھا، لیکن آج الدرعیہ کمشنری کا رقبہ دو ہزار مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ یہاں ایک ندی بھی تھی جو اب خشک ہوچکی ہے۔ اصلا صحرائے عرب کی خاصیت ہی یہی تھی کہ وہاں کثیر ریاستیں آباد تھیں اور ریاست کے وجود کے لئے نخلستان کا ہونا ضروری تھا، ہر قبیلہ یا خاندان جہاں آباد ہوتا اسے ان کی ریاست ہی مانا جاتا تھا، یا کمزور خاندان ان کی ریاست میں ضم ہوجاتے تھے۔ الدرعیہ کے آس پاس کے تمام معروف شہر الگ الگ ریاستیں رہی تھیں۔ لیکن عثمانیوں کی سلطنت کی وسعت کے بعد ان قبائل کو یا تو عثمانیوں سے مسلسل جنگ کرنا ہوتی تھی یا پھر ان کی اطاعت کرنا ہوتی تھی۔

تاریخی شہرت کی وجہ یہاں الدرعیہ سے آل سعود خاندان کی پہلی باقاعدہ ریاست کے مذہبی نفاذ کی بنیاد تھی، چونکہ الدرعیہ آج کے موجودہ آل سعود کے اجداد کی جاگیر تھی، اور اس وقت کے آل سعود کے امیر محمد بن سعود المقرن نے محمد بن وہاب کے ساتھ ریاستی تشکیل میں مذہبی تشریحات کے نفاذ کی شرائط کے ساتھ اقتدار کا پھیلاؤ کیا تھا، ان کا نفوذ اہستہ آہستہ پورے صحرائے عرب کی دوسری ریاستوں کی طرف بڑھنے لگا۔، یہاں تک کہ انہوں نے اس وقت کے عثمانی سلطنت کے گورنر کو بھی بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا، حرمین تک پہنچ چکے تھے، دوسری طرف یہ عراق تک پہنچ چکے تھے، اور بلادالشام تک پہنچنے کے خواب دیکھنے لگے۔ عثمانی سلطنت سے ان کی معرکہ آرائی قریب سات برس رہی اس دوران محمد بن عبد الوہاب اور امیر محمد بن سعود انتقال کرگئے۔

عثمانی حکومت کے لئے یہ بغاوت قبول نہ تھی، الدرعیہ میں حکومتی منصب پر آل سعود کے افراد ہی موجود رہے، کہ آخر کار سنہء 1818 میں عثمانی سلطنت کی جانب سے گورنر محمد علی پاشا کا بیٹا ابراہیم پاشا اک بری فوج کے ساتھ حملہ آور ہوا ، اور اس جگہ کا محاصرہ کرلیا، چھ ماہ کے بعد عثمانیوں کے زیر نگین نے الدرعیہ ہر قبضہ کرلیا۔ الدرعیہ کے دو حصے تھے، ایک الطریف محلہ اور دوسرا شاہی قصر، شاہی قصر کا حصہ انہوں نے اجاڑ دیا۔ آل سعود کو قتل کیا گیا اور ان کے خاندان کے بچ جانے والے افراد کو گرفتار کرکے ترک لے جایا گیا۔ صرف دو سال بعد پھر آل سعود میں سے ہی مشاری بن سعود نے دوسری بار پھر سعودی ریاست کا قیام کیا، مگر یہ دوسرا دورانیہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا عثمانیوں نے اس دفعہ الدرعیہ کو مکمل طور پر تباہی کا نشان بنادیا تھا، تیسری بار ملک عبدالعزیز ابن سعود نے ریاست کا قیام کیا ،اور ریاست کے قیام کے آغاز کے لئے بھی الدرعیہ کو اس وقت ابن رشید سے حاصل کرکے کیا جو آج بھی قائم ہے۔

الدرعیہ میں شاہی محلات، قدیم بازار ، پتھروں کی قدیم شاہرائیں، رہائشی قدیم طرز کے مکانات نظر آتے ہیں، لطریف کا قیام تو اصلا پندرہویں صدی عیسوی میں ہوا تھا، لیکن آل سعود خاندان کے اقتدار کا اصل مرکز ہونے کی وجہ سے سنہء 1727 میں الطریف کو ملک کا پہلا داراحکومت قرار دیا گیا تھا جس نے دراصل متحد سعودی عرب کی بنیاد رکھی تھی۔ لیکن سنہ ء 2010 میں تقریباً تین صدیوں بعد الطریف کے کھنڈرات کو یونیسکو UNESCO کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل کیا گیا جسے جولائی سنہء 2017 میں اس مقام کو بطور تاریخی میراث کے دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply