لچکدار دماغ (32) ۔ کھسکے ہوئے لوگ/وہاراامباکر

شاید آپ نے کھسکے ہوئے فنکاروں، فلسفیوں اور سائنسدانوں کے بارے میں سنا ہو۔ اور ایسا تاثر غلط نہیں اور یہ صرف فنکاروں یا سائنسدانوں تک محدود نہیں۔ ایسے شعبے جہاں پر لچکدار سوچ کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، وہاں پر خبطی لوگوں کا تناسب بھی زیادہ ہوتا ہے۔

اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ مشہور شاعر اور مصور ولیم بلیک کو یقین تھا کہ ان کے کئی شعر عالمِ ارواح سے ان تک بھیجے جاتے ہیں۔ کامیاب entrepreneur ہارورڈ ہیوز نے اپنے لئے “جراثیم سے پاک” کمرہ بنوایا تھا جس میں چمڑے کی سفید کرسی پر برہنہ ہو کر تولیہ ڈال کر گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے۔ معروف آرکیٹکٹ بکمنسٹر فُلر سالوں تک عجیب و غریب خوراک پر رہے۔ اپنے ساتھ ڈائری رکھتے تھے جس میں ہر پندرہ منٹ بعد اندراج کرتے کہ کیا کر رہے ہیں۔ وہ تریسٹھ برس تک ایسا کرتے رہے۔ گلوکار اور شاعر ڈیوڈ بووی، جو دودھ، سرخ اور سبز مرچ کی خوراک پر رہے۔

پھر وہ شاندار موجد نکولس ٹیسلا تھے۔ انہیں hallucinations ہوتی تھیں اور “مناظر” دکھائی دیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا سب سے مشہور آئیڈیا جو کہ AC بجلی کا تھا، ایسے ہی نظر آیا تھا۔ اپنی زندگی کے بعد کے برسوں میں انہیں کبوتروں سے عشق ہو گیا تھا۔ خاص طور پر ایک سفید کبوتر سے جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ “مجھے  اس سے محبت ہو گئی ہے۔ وہ مجھے  سمجھتا ہے اور میں اسے ۔ یہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار تجربہ ہے۔ مجھے اس کے سوا کسی کی ضرورت نہیں”۔ (ہم سب زندگی میں ایسی  محبت چاہتے ہیں لیکن چونچ اور پر والے پرندے سے نہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف اور غیرمعروف لوگوں میں ایسی کہانیاں عام ہیں۔ یہ صرف دلچسپ قصے ہیں یا پھر کھسکے ہوئے ہونے اور لچکدار سوچ کے درمیان کوئی تعلق بھی ہے؟

اس سوال کے جواب کی طرف سب سے پہلا کام 1960 کی دہائی میں ماہرِ جینیات لیونارڈ ہسٹن نے کیا۔ انہیں دلچسپی شیزوفرینیا میں تھی۔ ان کا سوال تھا کہ آیا یہ وراثتی بیماری ہے۔

ہسٹن نے ایسے بچوں کو سٹڈی کیا جن کی والدہ شیزوفرینیا کا شکار تھیں اور اپنے بچوں کی پرورش سے انکار کر دیا تھا اور بچے دوسروں نے پال لئے تھے۔ انہیں اس وقت حیرت ہوئی کہ ایسے ماؤں سے ہونے والے بچوں میں بڑی تعداد میں ایسے تھے جو غیرمعمولی طور پر تخلیقی ذہن رکھتے تھے اور غیرمعمولی طور پر خبطی تھی۔ انہیں شیزوفرینیا نہیں تھا۔ لیکن آرٹسٹ ہونے کا ٹیلنٹ تھا۔ اور اچھوتے خیالات کا مظاہرہ کرتے تھے۔ انہوں نے لکھا کہ وہ اس سے یہ سمجھے ہیں کہ اگر شیزوفرینیا ہلکے درجے پر ہو تو یہ مفید ہے۔ انہیں اپنی والدہ سے اس کا جو تھوڑا سا حصہ ملا ہے، اس نے بچوں کی شخصیت پر بہت دلچسپ اثر ڈالا ہے۔ یہ nonconformist رویہ ہے اور imagination کا تحفہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہرینِ نفسیات نے اس کے لئے schizotypy کی اصطلاح ایجاد کی ہے۔ یہ اس چیز کی پیمائش ہے کہ کون شیزوفرینیا والی شخصیت کی کتنی علامات رکھتا ہیں۔ اس کیلئے شخصیت کے ٹیسٹ بتاتے ہیں کہ کھسکے ہوئے ہونے اور لچکدار سوچ میں تعلق ہے، خاص طور پر divergent سوچ میں۔ اور اس کی وجہ کوگنیٹو فلٹر کا ڈھیلا ہونا ہے۔
اگر ہماری ذہنی چھلنی ڈھیلی ہو تو اس کا نتیجہ اوریجنل سوچ، non-confirmst ہونے اور شیزوٹائپی میں نکلتا ہے۔

اس کی ایک مثال جان نیش تھے۔ ان کی ایسی شخصیت تھی اور ذہنی چھلنی اتنی کمزور تھی کہ انہیں بہت imaginative خیالات آتے تھے۔ اور ان میں سے ایک گیم تھیوری پر تھا جس کی وجہ سے انہیں نوبل انعام ملا۔ بدقسمتی سے، اس کا ایک نتیجہ یہ بھی تھا کہ وہ نارمل طریقے سے کام نہیں کر سکتے تھے۔ اور یہ انتہائی ذہین ریاضی دان طویل عرصہ شیزوفرینیا کا شکار رہا۔

جان نیش پر کتاب “ایک خوبصورت ذہن” لکھی گئی (اس پر اسی نام سے فلم بھی بنی)۔ خوبصورت اور عجیب کا سورس زیادہ مختلف نہیں۔ اس کی ایک مثال جان نیشن سے ہونے والا مکالمہ ہے۔ جب وہ زیادہ بیمار تھے تو ان کا خیال تھا کہ دوسری دنیا سے آنے والی خلائی مخلوق نے انہیں دنیا کو بچانے کا مشن سونپا ہے۔ بعد میں ایک متجسس ریاضی دان دوست نے ان سے پوچھا کہ آخر وہ ایسے پاگل پن والے خیال کو سنجیدہ کیسے لے سکتے تھے۔ ان کا جواب تھا کہ “خلائی مخلوق کا خیال میرے ذہن میں اسی طرح سے آیا تھا جس طرح ریاضی کے نئے خیال آتے تھے، تو میں انہیں سنجیدہ کیوں نہ لیتا؟”۔

Advertisements
julia rana solicitors

نیش ایک انتہا کا کیس تھے۔ لیکن امیجنگ سے ہونے والی تحقیقات بتاتی ہیں کہ عجیب خیالات پر یقین رکھنے والے (ٹیلی پیتھی، شگون، جادوئی منتر) لیٹرل پری فرنٹل کورٹیکس اور دیگر فلٹرنگ سرکٹ میں غیرمعمولی طور پر کم ایکٹیویٹی رکھتے ہیں۔ اور اس کا تعلق عمر سے بھی ہے۔ بچپن میں ناپختہ ذہن میں یہ کم ہوتی ہے اور عمر میں پختگی کے ساتھ اس میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بعد میں بڑھاپے میں اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری تاریخ کے عظیم مفکر عام طور پر شیزوٹائپی کے سکیل میں زیادہ پر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو کہ مسلسل اوریجنل خیالات پیدا کرتے رہے ہیں، کئی بار ذاتی زندگی، لباس، تعلقات میں نارمل نہیں رہے۔
ہو سکتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں جنہیں کبوتروں سے پیار ہو گیا ہو یا پھر خلائی مخلوق سے باتیں کرتے ہوں۔ ذہنی چھلنی اتنی مضبوط ہو کہ معاشرے میں فنکشن کر سکیں لیکن اتنی ڈھیلی ہو کہ وہ ایسے خیالات کو جھٹک نہ دیں جو دوسروں کے لئے نامناسب یا غیرموزوں ہوں ۔۔۔ کیونکہ ایسے خیالات میں ہی کبھی کبھار وہ خیالات بھی ہو سکتے ہیں جو دنیا کو بدل دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یاد رہے کہ ہر چیز کی طرح یہاں پر بھی “توازن” کلیدی چیز ہے۔ “سب چلتا ہے” والا رویہ کامیاب تخلیق کار نہیں بنا سکتا۔
آئن سٹائن کو جب پائپ پینے سے منع کیا تو وہ سڑک سے سگریٹ کے ٹکڑے اٹھا کر سونگھنا شروع ہو گئے۔ نیوٹن نے اپنا بہت سا وقت بائبل میں سے ریاضی کے کوڈ کے ذریعے دنیا کے خاتمے کی تاریخ نکالنے پر صرف کیا۔ یہ عظیم سائنسدان لچکدار مفکر تھے۔ لیکن اپنی پروفیشنل اور ذاتی زندگی میں اتنا ایگزیکٹو کنٹرول رکھتے تھے کہ ان کا رویہ نارمل سے بہت زیادہ دور نہیں تھا۔
کیونکہ صرف اچھوتے خیال کا آنا کافی نہیں۔ ہمیں منظم اور تجزیاتی سوچ بھی درکار ہے تا کہ ان پر وقت صرف کر کے انہیں جانچا جا سکے، پختہ کیا جا سکے۔ اس کے لئے محنت اور ڈسپلن کی ضرورت ہے تا کہ نئے خیال کو پراڈکٹ تک پہنچایا جا سکے جو کہ مفید ہو۔
یہاں پر فرق فوکس کرنے کی صلاحیت کا ہے۔ شیزوفرینیا اس کو بڑی حد تک ناممکن بنا دیتا ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ شیزوفرینیا کا باقاعدہ شکار ہو جانے والے آرٹ یا سائنس میں نام نہیں بنا سکے۔ جان نیش اس میں استثنا ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply