پانامہ چور سے گھڑی چور تک/ڈاکٹر ندیم عباس

زندگی کا ایک بڑا حصہ تعلیم کے حصول میں گزرا۔ پندرہ سال ہاسٹلز میں رہے۔ ہمارے ادارے میں کھانا تقسیم کرنے کی ایک کمیٹی ہوتی تھی، جس کا بنیادی کام تو کھانا تقسیم کرنا ہی تھا، مگر تھوڑا بہت باورچی پر اثر انداز ہونے کا بھی امکان بہرحال رہتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ کچن کے معاملات میں کمیٹی کا زیادہ کردار نہیں تھا۔ ہمارے ایک دوست کھانے کے ہر مسئلے کا ذمہ دار اس کھانا کمیٹی کو قرار دیتے تھے اور تخلیقی دلیلوں سے ثابت کرتے کہ ہمارے کچن کے تمام مسائل کی ذمہ دار یہ کمیٹی ہے۔ کچھ دوستوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ یار اگلی بار کمیٹی میں اور کوئی شامل ہو نہ ہو، انہیں ضرور شامل کرانا ہے، ورنہ پورا سال یہ لیکچرز سننا پڑیں گے۔ خیر انہیں کمیٹی میں شامل کرا دیا گیا۔ جب ایک ہفتہ انہوں نے سب سے آخر میں کھانا کھایا اور مسائل اسی طرح بلکہ پہلے سے بھی گھمبیر ہونے لگے تو انہوں نے اعلان کیا کہ کھانے کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ اگر یہاں رہنا ہے تو اسی کھانا کو برداشت کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی دوبارہ ہمارے ٹیبل کی زینت بن گئے۔ اب ایک بڑی تبدیلی ہوچکی تھی اور وہ کھانے کے مسائل پر بات کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ ہمارے عمران خان صاحب کی صورتحال بھی یہی ہے، ان کا علاج صرف اور صرف حکومت میں پوشیدہ ہے، خواہ مخواہ میں ایک سال کی جلدی کی گئی، ایک سال اور رہنے دیا جاتا تو آج کی تاریخ میں ہر طرف خاموشی کا دور دورہ ہوتا۔

عمران خان صاحب کی پالیسی پاپولر بیانیے کو اختیار کرنے اور اپنے علاوہ سب کی نفی پر مبنی ہے۔ ایک بات کو اتنا دہراتے ہیں کہ اسے بیانیہ بنا دیتے ہیں۔ جدید ذرائع ابلاغ سے دور اور نسل نو کی فکر سے نا آشنا دیگر جماعتیں حکمت عملی سے بھی محروم ہیں۔ وہ جسے روایات کا نام دیتی ہیں، دراصل پچھلی نسل کے اصول و ضوابط اور معاشرتی نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ان کے ذریعے سے نسل کو متاثر نہیں کیا جا سکتا۔ آپ عمران خان صاحب کی حکمت عملی کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ یونیورسٹیز میں لیپ ٹاپ انقلاب نواز شریف لے کر آئے اور اس پر ایک سال تک فری انٹرنٹ کی سہولت دے کر انہیں جدید دنیا سے ہم آہنگ کیا، مگر اس سب کا فائدہ عمران خان نے اٹھایا۔ پنجاب آئی ٹی کے معمار عمر سیف نے لکھا تھا کہ نئی جماعتیں نسل نو کی حرکیات کو سمجھنے سے قاضر رہی ہیں۔

آپ دو ہزار چودہ کے الیکشن کو دیکھ لیں، پی ٹی آئی شکست کھا گئی، مگر عمران خان نے دھاندلی کے بیانیے کو بائیس حلقوں سے ایسا شروع کیا کہ دھرنے تک پہنچے اور وہاں سے پانامہ نے ان کی سیاسی لاٹری نکال دی۔ اس کیس سے کل ملا کر یہ نکلا کہ نواز شریف کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نکال دیا گیا۔ اگرچہ یہ بہت ہی کمزور بنیاد تھی، جس کا اظہار عمران خان صاحب نے بھی کیا، مگر اصل بات یہ تھی کہ وہ پانامہ کی گردان سے ایک ہیجانی ماحول بنانے میں کامیاب ہوگئے، جس سے نواز شریف نا اہل ہوگئے۔ سوشل میڈیا ایسا ٹول ہے، جہاں ایک ایشو محض چند گھنٹوں میں پرانا ہو جاتا ہے۔ عمران خان کی میڈیا ٹیم اس حوالے سے داد کی مستحق ہے کہ انہوں نے حکومت میں ہر چند گھنٹے بعد مخالفین کے خلاف ایک نیا ایشو دیا۔ اس طرح انہوں نے کی بورڈ کی افواج کو مسلسل اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔

یہاں ایک بات بہت ہی قابل غور ہے کہ جسے یوٹرن کہہ کر مذاق اڑایا جاتا رہا، وہ بہت ہی کامیاب سیاسی حکمت عملی تھی، جس میں وہی کام اگر عمران خان صاحب کا مخالف کرے تو جرم بنا دیا جائے اور عمران خان صاحب کریں تو ملکی مفاد میں قربانی قرار دیا جائے۔ آپ ٹیکس ایمنسٹی دینے والی مثال ہی لیں، جب ماضی کی حکومت دیتی تھیں تو ڈاکووں کا تحفظ تھا، جب عمران خان نے دی تو ملکی خزانہ بھرنے کی عظیم حکمت عملی قرار پائی۔ ایسی بات نہیں ہے کہ دیگر جماعتوں کے سیاستدان عمران خان صاحب کی حکمت عملی کو نہیں سمجھ رہے، وہ سمجھ رہے ہیں اور بڑی اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔ اسمبلی کے فلور خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق سمیت کئی رہنماء اس پر بات کرچکے ہیں۔ عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ ان جماعتوں کی قیادت اسے اہمیت نہیں دیتی اور شکست کی وجوہات کہیں اور تلاش کی جاتی ہیں۔ جب آپ نسل نو کے میدان سے ہی آوٹ ہیں، جس کا عملی اظہار ٹویٹر ٹرینڈز کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔

عمران خان صاحب نے حکومت سے نکلتے ہی پاکستانی عوام کے پاپولر بیانیے کو اختیار کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت امریکہ کے مخالف ہے۔ اس مخالفت کی کئی وجوہات ہیں۔ آج تک کشمیر کے مسئلے کا حل نہ ہونا، پنسٹھ اور اکہتر کی جنگوں میں امریکہ کی پاکستان کی مدد نہ کرنا، افغان جنگ کے اثرات بھگتنے میں ہمیں تنہا چھوڑ دینا، ستر ہزار ہمارے شہری بھی شہید ہو جائیں اور ہمیں دہشتگردوں کا سہولت کار بھی قرار دیا جائے، اسی طرح فلسطین اور دیگر مسلم امہ کے مفادات میں ہمیشہ امریکہ کا اسلام دشمنوں کے لیے کھڑے ہونا، ایسے امور ہیں کہ پاکستانی امریکہ کے خلاف ہیں۔ جب سپورٹ لے لی بڑی آسانی سے مغربی میگزین میں اس سے یوٹرن لے لیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، اس کا پتہ تو جلد چل جائے گا۔ اس بات کا عمران خان صاحب کو یقین ہے کہ آرمی چیف بھی حکومت کی مرضی کا ہوگا اور الیکشن بھی اپنے وقت پر ہوں گے تو کیا یہ لانگ مارچ فضول ہے۔؟ نہیں جناب ایسا بالکل ایسا نہیں ہے، اصل بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب نے بہت ہی اچھی حکمت عملی سے پنجاب میں سوئے ہوئے پی ٹی آئی کارکن کو جگا دیا ہے۔ مسلسل دورے، جلسے، جلوس، میٹنگز اور دھرنے سپورٹر کو چارج کر رہے ہیں اور جب الیکشن ہوگا تو پی ٹی آئی کا کارکن اپنی جماعت کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ ان حالات میں گھڑی چور کے بیانے کی اٹھان بھی پانامے کیس کی طرح لگتی ہے، جس طرح میڈیا پر پچھلے تین چار دنوں سے اس پر ہی بات ہو رہی ہے، اگر دیگر جماعتوں اس کو بیانیہ بنا کر سوشل میڈیا کے میدان میں اتر سکیں تو یہ عمران خان صاحب کے طریقہ سیاست کے عین مطابق ہوگا اور عمران خان صاحب کو بڑا سیاسی ڈنٹ ڈال دے گا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply