نیل کے سات رنگ-قسط4/انجینئر ظفر اقبال وٹو

انہوں نے ہمیں دھکا دے کر ایک ڈبل کیبن ڈالے میں ڈال دیا اور اس کے دروازے لاک کر دیے اور ہمارے موبائل، والٹ اور ڈیجیٹل کیمرے بھی چھین لئے۔ گاڑی سے باہر ہمارے میزبان محکمہ بجلی اور ڈیم کے انجینئر ہم پر جھپٹنے والے افراد سے زور زور سے بحث کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد شاہ جی نے کہا کہ “لگتا ہے وٹو صاحب ہم اغوا نہیں ہوئے بلکہ گرفتار ہوئے ہیں کیونکہ ابھی تک ان افراد نے کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں استعمال کیا” ۔ شاہ جی کی بات نے مجھے حوصلہ دیا اور میں نے گاڑی کا شیشہ کھول کر زور سے اپنے میزبانوں کو آواز یں دینا شروع کردیں۔

اس دفعہ لیزر جیسی نگاہوں والا میرے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور مجھے غصے سے استفہامیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ میں اس سے نظریں چراتے ہوئے کمزور آواز میں بولا “کیا تم انگریزی سمجھتے ہو؟” وہ خاموش ہی رہا مگر میں نے ہمت کر کے کہا “آپ کو شائد کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہم پاکستانی انجینئر ہیں اور آپ کی ریاستی حکومت کی دعوت پر آج صبح ہی خرطوم سے“الجنینہ” پہنچے ہیں۔ اگر آپ ہمارے کیمرے چیک کریں تو اس میں آپ کو ہماری تصاویر وزیر منصوبہ بندی کے ساتھ نظر آئیں گی۔ ہم ان سے ابھی ابھی میٹنگ کرکے آئے ہیں” اس نے اپنی لیزر نگاہیں بدستور میرے چہرے پر ہی رکھیں اور ہاتھ کے اشارے سے اپنے دوسرے ساتھی کو ہمارا ڈیجیٹل کیمرہ آن کرنے کا کہا۔ ہمارے کیمرے میں موجود ساری تصاویر کو بار بار دیکھنے کے بعد اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور پہلی بار بولا ۔ اس نےغصے سے کہا “جلدی سے اترو اور آئندہ ادھر کا رخ نہیں کرنا۔ تمہارا سامان ہم نے ضبط کرلیا ہے “۔

ہماری جان میں جان آئی تھی لیکن موبائل، پیسوں اور کیمرے کے بغیر ہم اگلے سات دن کیسے گزاریں گے یہ فکر ہمیں کھائے جا رہی تھی ۔ ہمیں سیکرٹ سروس نے جنگی زون میں سرِعام شہر کے مین سکوائر کی تصاویر بنانے پر جاسوس سمجھ کر گرفتار کیا تھا لیکن شاہ جی کی حاضر دماغی سے ہم پندرہ منٹ میں رہا ہو گئے تھے۔ ہمارے میزبان ہمیں اپنی گاڑی میں ریسٹ ہاؤس لے کر جا رہے تھے ۔ ان کے چہرے اترے ہوئے تھے، جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ ہم نے تمہیں ادھر آنے سے منع نہیں کیا تھا ۔ ہم نے جان لیا تھا کہ یہ کوئی عام سا دورہ نہیں ،ہمیں قدم قدم پر محتاط رہنا ہوگا۔ ہمیں اپنی سیلانی حِس کو تھوڑا دبا کر رکھنا ہو گا۔میزبان بتا رہے تھے کہ مہربانوں نے ہمیں اگلے دن سیکرٹ سروس کے دفتر میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

ہم کسٹم کے علاقے میں پہنچ گئے تھے جہاں کنکریٹ کے بلاکوں سے بنا ہوا ایک منزلہ سادہ سا گھر محکمے کا ریسٹ ہاؤس تھا۔ اس میں رہائش کے لئے تین چھوٹے سے کمرے ایک ہال اور ایک باورچی خانہ تھا۔ سیمنٹ کے  فرش پر کوئی قالین وغیرہ نہیں تھا۔ کھڑکیوں پر پردے بھی نہیں تھے۔ مجھے اور شاہ جی کو مشترکہ طور پرایک کمرہ دے دیا گیا جس کے اندر صرف دو چارپائیاں پڑی تھیں۔ دوسرے کمروں میں مقامی ساتھیوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ہال میں پلاسٹک کی کرسیاں اور ایک میز پڑی تھی ۔ باہر ایک دالان تھا جس کے کونے پر عمارت کا واحد باتھ روم تھا۔ اس باتھ روم کے سامنے پلاسٹک کا ایک بڑا سا ڈرم پڑا تھا جو کہ گدلے پانی سے بھرا ہوا تھا یہ اس عمارت میں پانی کاواحد ذخیرہ تھا،جو بیک وقت پینے نہانے اور صفائی کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ ریسٹ ہاؤس کی چاردیواری کے اوپر حفاظت کے پیش نظر خار دار تار لگا دی گئی تھی۔ یہ جگہ اگلے ایک ہفتے کے لئے ہمارا مسکن تھی اور سکیورٹی پروٹوکول کی وجہ سے ہمیں بِلا ضرورت اس عمارت سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی۔اسی لئے شاہ جی نے اسے “اریسٹ ہاؤس” کا نام دے دیا تھا۔ اس کے حالات کو دیکھتے ہی ہم نے اپنے ذہن کو “کیمپ لائف” کےلئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ دورہ ہمیں آسان نہیں لگ رہا تھا۔

ہمارے کمرے میں ایک چھت والا پنکھا لگا ہوا تھا، جس کا ڈبہ نما ریگولیٹر لکڑی کے ایک بورڈ پر بجلی کے سوئچوں کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اس ریگولیٹر کے اوپر “رائل فین میڈ اِن پاکستان “لکھا ہوا تھا۔ صحرائے گوبی میں چاڈ کی سرحد پر واقع اس صحرائی قصبے میں یہ ایک خوش کن اتفاق تھا جس نے ہماری طبیعت کو کچھ ہلکا کردیا تھا۔ہم نے کچن سے “شائے ابیض” منگوائی اور پھر اس کے بعد لباس تبدیل کر کے کچھ دیر آرام کرنے کا قصد کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوتین گھنٹے آرام کرنے کے بعد آنکھ کھلی تو مسجد سے مغرب کی آذان کی صدا بلند ہو رہی تھی۔ میں نے استری شدہ شلوار قمیض پہنے اور اذان کی آواز کے تعاقب میں چند ایک گلیوں سے ہوتا ہوا مسجد تک پہنچ گیا ۔ یہ ایک پرانے طرز کی مٹی اور پتھروں سے بنی بڑی مسجد تھی جس کے گنبد بھی مٹی سے ہی بنے ہوئے تھے۔ مجھے پہلی صف میں جگہ مل گئی تھی ۔سلام پھیرتے ہی امام صاحب کی نگاہ مجھ پر پڑی تو وہ “یا سید الباکستانی “ کہتے آکر مجھ سے بغل گیر ہو گئے اس کے ساتھ ہی مسجد میں مجھ سے ملنے والوں کی ایک قطار سی لگ گئی ۔ وہ مجھ سے جھک کر مصافحہ کرتے اور دیر تک دعائیں دیتے اور پھر مجھ سے ملنے والے ایک نمازی نے مصافحہ کرکے مجھے لیزر بھری نگاہوں سے دیکھا تھا ۔ اس نے مجھے دعا بھی نہیں دی تھی ۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا تھا ۔ مجھے یوں شلوار قمیض میں نمایاں ہو کر نہیں آنا چاہیے تھا۔ مجھے “اریسٹ ہاؤس” سے باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ  نمازیوں کے روپ میں یہاں کوئی جنجوید بھی ہو سکتے تھے۔ میں کسی کو بتا کر بھی نہیں آیا تھا۔میں جلد از جلد مسجد سے نکلنا چاہتا تھا۔ میں بغیر وقت ضائع کئے ریسٹ ہاؤس پہنچنا چاہتا تھا۔ لیکن ایک نمازی میرے راستے کو روک کے گھڑا ہو گیا تھا ۔ وہ مجھے روک رہا تھا ۔ لیزر نگاہیں اب بھی دور سے مجھ پر مرکوز تھیں ۔ دارفور مجھے آکٹوپس کی طرح اپنے حصار میں لینا چاہ رہا تھا اور آج میرا دارفور میں پہلا ہی تو دن تھا۔ اس نمازی نے اب میرے بازوؤں کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا ۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply