این میری شمل ، گوئٹے انسٹیٹوٹ اور جرمن زبان۔ دوسری قسط

این میری شمل ، گوئٹے انسٹیٹوٹ اور جرمن زبان(۲)
احمد رضوان
کلاس میں مختلف العمر و خیال کے کوئی بیس مرد و زن اسٹوڈنٹ تھے ،ہر کوئی اپنی اپنی افتاد طبع اورمطمع نظر کے ساتھ کلاس میں آتا تھا۔ان میں سےجو یاد رہ گئے حافظے کی لوح پر ان کا مختصر ذکر آگے بیان کروں گا فی الحال سب سے پہلےہماری اتالیق کا تذکرہ۔ سب کی کلاس لینے کے لئےایک فربہ اندام جرمن مادام “روزمیری وحید”مقرر ہوئیں تھیں جو پچھلے تیس سال سے پاکستان اور کم و بیش ۲۵ سال سے گوئٹے انسٹیٹوٹ میں نوآموزوں کی جرمن شین قاف درست اور زبان کی باریکیاں سمجھا رہی تھیں۔ تفنن طبع کے لئے چند شاگرد پیشہ ایک خوشبو دار مصالحے “روزمیری” کی نسبت سے “روزمیری ویڈ “بھی کہہ دیا کرتے تھے۔چہرے پر مسکان سجائے سب کے کان کھینچنے پر تیار ،کبھی کبھارہمارے الٹے سیدھے سوالوں سے تنگ آکرآنکھیں شرربار ہوجاتیں مگر مجال ہے جو نزلہ کسی پر گرتا ۔ ایک ایسی پتی ورتن جو اپنے پیار کا پری ورتن کرکے پاکستان کو گھر مان چکی تھیں ۔کسی زمانے میں جرمنی بسلسلہ کاروبار گئے مسٹر وحید کی زلف گرہ گیر کی اسیر ہوئیں اور “میں تیرے سنگ چلوں سجنا” گاتی گاتی پکی لاہورن بن گئی تھیں، ان کے منہ سے اردو اور پنجابی سننا بہت مزے کا لگتا تھا ، جرمن ساسیج اور ہیم کی دلدادہ ،لاہوری کھانوں اور گرمی دانوں کو برداشت کرنے کی عادی ہوگئی تھیں اور رغبت سے کھانےاورکھلانے میں یقین رکھتی تھیں،کبھی کبھی شک پڑتا پاکستانی آموں، کنوؤں اور باسمتی چاولوں اور کھابوں نے انہیں باندھ رکھا ہے مسٹر وحید کے پیار کے ساتھ ساتھ ۔ہنس مکھ اور شفیق ماں جسے پاکستانی ڈرامے خاص طور پر ففٹی ففٹی اور شعیب منصور بہت پسند تھے۔کلاس میں تعارف کا مرحلہ آیا تو میں نے اپنا تعارف جرمن میں کروایا تو حیران رہ گئیں کہ تمہیں تو جرمن آتی ہے پھر کیوں داخلہ لےلیا؟ جب اپنے شوق کے بارے بتایا کہ کلاس جوائن کرنے سے پہلے ہی ابتدائی جرمن زبان کی خود پریکٹس کرکرکے کافی کچھ جان چکا ہوں ،کلاس کا تو بہانہ ہے ،یاروں سنگ کچھ وقت بتانا ہے تو بہت خوش ہوئیں۔ آہستہ آہستہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تکلف کی تکلیف سے باہر نکلے تو مزے مزے کے قصے اور باتیں سنایا کرتیں جرمن کلچر ،زبان وادب اورتہذیب کے بارے ،اپنی بوڑھی ماں کے بارے جو ہر سال جرمنی میں کرسمس کے دنوں میں مادام کےآنے کے انتظار میں طرح طرح کی ڈشز پکا کر رکھتی۔ہم انہیں ہٹلر اور چارلی چپلن کی ملتی جلتی اشکال کے بارے کبھی چھیڑتے تو خفیف پڑ جاتیں اور اس موضوع پر بات کرنے سے کترا جاتیں۔جرمنی کے دوبارہ متحد ہونے پر بہت خوش تھیں اور جرمن مارک کے یورو میں بدلے جانے پر ناخوش ۔ ہمیں دیوار برلن کا ایک ٹکڑا دکھایا کرتیں جسے بطور یادگار سنبھال رکھا تھا ۔مغرب والے اپنی کوئی بھدی سے بھدی یادگار کو بھی یوں سینے سے لگاکے رکھتے ہیں کہ رشک آتا ہے بھلا ایک دیوار جو ایک ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کے لئے بنائی گئی تھی اور جسے پار کرتے ہوئے کئی اپنی جان گنوا بیٹھے تھے اس کو بھی تاریخی ورثہ قرار دے کر تفاخر کا اظہار کرنا ، جب کہ ہم اپنی نادر و نایاب تاریخی عمارات کو یوں تباہ کرتے چلے جا رہے ہیں اور کسی کو اس ضیاع کا احساس بھی نہیں،کون پرواہ کرتا ہے شاہی قلعہ کا مقصد شاہی مہان بنا کر جمہوریت کا درس اچھی طرح یاد کرواناٹھہرا تھا یا شیش محل ، بارہ دری میں کچھ بھی باقی نہ رہے اور چوبرجی میں چرسی ، آوارہ کتے اور گدھے بھونکتے اور رینکتے رہیں۔ مادام روزمیری کبھی کبھار تو روایتی عورتوں کی طرح اپنے سسرالی رشتہ داروں کی روا رکھی جانے والی ناانصافیاں بھی بلا تکلف شئیر کر لیا کرتیں ۔ہم سن کر چپ رہتے اور دل ہی دل میں شرمندہ، کہاں بویریا جرمنی کی طرح دار حسینہ جو سالسا ناچنے والی اور والز کی دھنوں پر سر دھنتی تھی اب پنجابی سساں نواں دیاں گلاں سنانے پر مجبور ہے۔ کلاس میں گزارے ہوئے دو گھنٹے سارے دن کا حاصل ہوتے ،اگر آپ کا ذہن ان دو گھنٹوں کے دوران تعلیم کے حصول کی طلب اور تڑپ پر ہے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے ، ائر کنڈیشنڈ کمروں میں تپتی بلتی دوپہروں میں جلتے بدن جب نشستوں پر براجمان ہوتے تو سارے دن کی کلفت راحت میں بدل جاتی اور جولائی کے حبس ذدہ گرم موسم سے وقتی نجات مل جاتی ۔ابھی ائیر کنڈیشنر صرف جاپان سے آتے تھے یا باڑہ مارکیٹ سےاسمگل ہوکر اوربھاری رقم خرچ کرکے صرف امرأ کو ہی نصیب تھے ،ہما شما اس عیاشی کے ابھی متحمل نہیں ہو سکتے تھے اورائر کنڈیشنڈ سنیما میں جا کر ہی جسم ٹھنڈے اور جذبات بھڑکائے جاتے تھے ،گھر پر یہ انتصرام عنقا تھا ۔ تگڈم کی تین تکونیں یعنی احقر،قبلہ شاہ صاحب اور قاسم چاچا تو تھے ہی تلامیذ میں ،چند دوسرے حصول علم کے پروانے بھی یکے از نمونہ جات تھے ،ذیادہ تر تو جرمنی جانے کے شوقین اسٹوڈنٹس تھے مگر کاروبار اور شادی کرکے جانے والے بھی شامل تھے ، ایک تو نوبیاہتا تھی جس کا نیا نیا فون پر نکاح ہوا تھا اور جرمنی جانے کےلئے زبان سیکھ رہی تھی ساتھ جہیز میں دو بھائی بھی اس کے ساتھ جرمن زبان سیکھ رہے تھے تاکہ تعلیمی ویزا اپلائی کرکے سیٹل ہوسکیں، گویا پوری فیملی پلاننگ تھی باہر جانے کی ۔ ہمارے ساتھ والے ہاسٹل میں سے ایک غیر قانونی مقیم ساکنِ تونسہ شریف شوقینِ چونسہ شریف بھی یونیورسٹی سے جاتے تھے اور وہیں ان سے تعارف ہوا ۔سرائیکی لہجے میں جب جرمن زبان کے فیتے اڑائے جاتے تو سب نظریں نیچی کرکے تبسم کی ہلکی ہلکی لہروں میں ڈوبنے لگتے ، موصوف کن انکھیوں سے اس عفیفہ کو تکا کرتے جس کی شہابی رنگت اور شفاف جلدسب کی توجہ کھینچ لیتی تھی ۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔ –

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply