کیسا شکنجہ ہے : رفیق سندیلوی

کیسا شکنجہ ہے
یہ کس تَوسنِ برق رفتار پر
کاٹھیاں کَس رہے ہو
یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ
تمہاری نسوں میں
یہ پھر کیسی وحشت کا جادہ
کُھلا ہے
فصیلوں پہ اک پرچمِ خُوں چَکاں
گاڑ دینے کی نیّت
کئی لاکھ مفتوح جسموں کو
پھر حالتِ سینہ کوبی میں
روتے ہُوئے دیکھنے کی تمنّا
یہ کس آبِ دیونگی سے
بدن کا سُبو بھر رہے ہو
سُنو، تُم بڑی بدنُما رات کی دُھند میں
فیصلہ کر رہے ہو!
اُدھر سینکڑوں کوس پر
اک پہاڑی ہے
جس کے عقب میں
چھلاوے زقندیں لگاتے ہیں
پتّوں بھری جھاڑیاں
اپنے قدموں پہ چلتی ہیں
گیندوں کی صورت
بگولے لُڑھکتے ہی جاتے ہیں
ڈھلوان کی سمت آتے ہیں
مُنہ اپنا کُھولے ہُوئے
اَژدر و سُوسمار
اک سیہ سبز، بَل کھاتے جُثّوں کی
بے لقمہ جبڑوں کی دُنیا
صدائے بشر
اور نہ پانی کے آثار
اُڑتی ہُوئی ریت میں
اپنے ملبے سے نکلا ہُوا اک علاقہ
کہ جس کی نگہ سینکڑوں سال سے
صرف اُدھڑے ہُوئے لَحم پر ہے
سُنو، یہ وُہی مَسَتقر ہے
جہاں وقت کا تِیر
حِدّ مکاں سے نکل کر
ہدف اپنا چُھوتا ہے
بس اب گھڑی دو گھڑی ہی میں
لشکر تمہارا زمیں بُرد ہوتا ہے!
کیسا شکنجہ ہے
اِس جنگِ لا مُختتم کا
کہ جس کی کشش میں
تمھِیں مارتے ہو
تمھِیں مر رہے ہو
سُنو، تُم بڑی بد نُما رات کی دُھند میں
فیصلہ کر رہے ہو !!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply