لچکدار دماغ (29) ۔ اختلاف کے فوائد/وہاراامباکر

منجد سوچ (dogmatic cognition) کی تعریف ماہرینِ نفسیات یوں کرتے ہیں۔ “کسی انفارمیشن کو اس طریقے سے پراسس کرنا کہ یہ کسی فرد کی پہلے سے قائم کردہ رائے اور توقع کو مزید مضبوط کرے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کا بالکل مخالف خیال “مبتدی کا ذہن” (beginners mind) کہلاتا ہے۔ یہ ایسی اپروچ ہے جس میں آپ اپنے تمام یقین ایک طرف رکھ کر روٹین کی صورتحال کا بھی اس طریقے سے جائزہ لیتے ہیں کہ پہلی بار اس کا سامنا ہو۔ اور اپنے ماضی کی کسی assumption کا سہارا نہیں لیتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی مہارت ایک طرف رکھ دے جائے لیکن اس کا مطلب نئے تجربات کیلئے دروازہ کھلا رکھنے کا ہے۔ ہم میں سے زیادہ تر کا سٹائل ان دونوں انتہاؤں کے بیچ کا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی شعبے کا آئیڈیل ماہر وہ ہو گا جس کے علم میں وسیع گہرائی اور وسعت ہو لیکن ساتھ ہی ساتھ بڑی حد تک مبتدی کا ذہن بھی برقرار رکھے۔ لیکن تضاد یہ ہے کہ مہارت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نئی انفارمیشن کو کھلے ذہن کے ساتھ پراسس کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ کسی نے لکھا تھا۔ “سماجی روایت یہ کہتے ہیں کہ ماہر کا مطلب ہی یہ ہو گا کہ وہ اپنی بات اعتماد سے کرے گا۔ جبکہ اعتماد سے بات کرنے کیلئے بند ذہن اور ڈوگما والی سوچ کام کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ مہارت اور بند ذہن اکٹھے ملنے کا امکان بہت ہے”۔ اور ہم سب ایسے لوگوں سے واقف ہوتے ہیں۔
خوش قسمتی سے انتہاپسندی کے اس جنجال سے نکلنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ اپنے انٹلکچوئل گفتگو میں اختلافی عنصر کو شامل کر لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجربات دکھاتے ہیں کہ اختلافی آراء صرف زیرِ بحث موضوع پر ہی نہیں بلکہ بالعموم سوچ کو جمود سے بچاتی ہیں۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہ یہ ناپسندیدہ لگے لیکن ان سے بھی بات چیت کی جائے جن سے آپ متفق نہیں ہیں۔
یہاں تک کہ اگر سازشی تھیوریوں پر یقین رکھنے والے کسی شخص سے مڈبھیڑ ہو جائے جس کا خیال ہے ہو کہ چاند پر لینڈنگ جعلی تھی اور آئن سٹائن نے ریلیٹیویٹی تھیوری کسی ڈاکئے سے چرائی تھی تو اس کے ساتھ بھی چائے کا کپ پینا آپ کے سوچنے کے انداز کو وسعت دے گا۔ (اور نہیں، آئن سٹائن نے اپنی تھیوری چرائی نہیں تھی اور چاند پر لینڈنگ اصلی تھی لیکن یہاں پر یہ نکتہ نہیں ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے، وہ لوگ جو سب سے زیادہ منجمد سوچ کا شکار ہوتے ہیں، انہیں مخالف آراء سننے میں بھی اتنی ہی دشواری ہوتی ہے۔
ایسے ادارے جو خیالات کے تنوع کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں (اور یہاں پر بہت اہم بات یہ ہے کہ تنوع کا مطلب قومیت، رنگت، صنفی، لسانی تنوع نہیں بلکہ “خیالات” کا تنوع ہے)۔ افراد اپنے ساتھ سوچ کا انداز لے کر آتے ہیں۔ ان کی موجودگی کا مطلب گہرے مفروضوں اور توقعات سے آزادی کی صورت میں نکلتا ہے۔ جس کا نتیجہ بہتر فیصلہ سازی ہے۔
بزنس، سیاست، عسکری منصوبہ بندی، معاشی حکمتِ عملی، سائنس، پالیسی سازی یا کوئی بھی اور شعبہ ہو، یہ کارگر طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دنیا سے تجربہ حاصل کرتے ہیں۔ ہم مفید حقائق سیکھتے ہیں۔ قابلِ قدر سبق لیتے ہیں۔ اور ان کی مدد سے اپنے نقطہ نظر بناتے ہیں۔ وقت کے ساتھ، ہم اس میں اضافہ کرتے ہیں اور اپنے نقطہ نظر میں ترامیم کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے میں جھجک اور مزاحمت بھی فطری ہیں۔ کیونکہ لازمی نہیں کہ نئی انفارمیشن پرانے نقطہ نظر سے ہم آہنگ ہو۔ لیکن اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ایسا کیا جانا ہی آگے بڑھنے کا طریقہ ہے۔
اور یہ زندگی کی سچائی کی ایک ستم ظریفی ہے۔ ہمیں اس بات سے شدید محبت ہے کہ ہم دعویٰ کر سکیں کہ ہم درست ہیں۔ جبکہ ہمارے لئے زیادہ اچھا یہ ہے کہ کوئی ہمیں کبھی کبھار یہ بتا دیا کرے کہ ہم غلط ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply