دنیا اس تصویر کی منتظر تھی/زبیر بشیر

چین اور امریکہ دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتیں ہیں۔ ان کے درمیان معمول کے خوشگوار تعلقات پوری دنیا کے لیے امید اور حوصلے کا باعث ہیں۔ کووڈ-19 کی وبا، عالمی کساد بازاری اور مسئلہ یوکرین کی وجہ سے دنیا کے کئی خطوں میں بحرانی صورتحال ہے۔ دنیا کے دوبڑے ممالک کے طور پر چین اور امریکہ نا  صرف ان مسائل کے حل میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ عالمی اقتصادی صورت حال کی بحالی میں بھی اپنا اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔پیر کی سہ پہر چینی صدر شی جن پنگ نے انڈونیشیا کے شہر بالی میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی۔ سرکاری ملاقات سے قبل دونوں رہنماؤں کے مصافحہ اور مسکراتے ہوئے ملاقات کے منظر کو عالمی میڈیا نے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے یہ مسکراہٹیں دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان طویل انتظار کے بعد سامنے آنے والے اس منظر نے مختلف بحرانوں اور چیلنجوں کے درمیان دنیا کے مضطرب جذبات کو قدرے آرام اور تسلی دی ہے۔ اور یہ لمحہ یقیناً چین امریکہ تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم مقام کے طور پر محفوظ ہو جائے گا۔

اس ملاقات کے دوران  شی جن پھنگ نے کہا کہ “میں ہمیشہ کی طرح چین امریکہ تعلقات میں اسٹریٹجک امور اور اہم عالمی اور علاقائی امور پر  صدر بائیڈن کے ساتھ کھل کر اور گہرائی سے تبادلہ خیال کرنے کا خواہاں ہوں اور میں دونوں ممالک اور دنیا کے فائدے کے لئے چین اور امریکہ کے تعلقات کو صحت مند اور مستحکم ترقی کی راہ پر واپس لانے کے لئے  صدر بائیڈن کے ساتھ مل کر کام کرنے کا منتظر ہوں۔”شی جن پھنگ نے سی پی سی کی ۲۰ویں قومی کانگریس سے متعلق تفصیلات کو  روشناس کرایا۔تائیوان کے امور پر انہوں نے کہا کہ یہ چین کے کلیدی مفادات میں سے ہے ،چین امریکہ سیاسی تعلقات کی بنیاد ہے،  اور چین امریکہ تعلقات کی سب سے اولین ریڈ لائن ہے جس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں ہے۔

جناب شی نے کہا کہ آزادی،جمہوریت اور انسانی حقوق انسانوں کی مشترکہ جستجو ہے اور سی پی سی کا بھی یہی موقف ہے۔  امریکہ اور چین کی اپنی اپنی طرز کی جمہوریت ہے جو اپنی اپنی صورتحال سے مطابقت رکھتی ہے۔فریقین کے درمیان اختلافات کے حوالے سے مساوات کی بنیاد پر تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ چین اور امریکہ مختلف تاریخی ثقافت،سماجی نظام اور ترقیاتی راستے کے حامل دو بڑے ملک ہیں ،فرق اور اختلافات ضرور موجود ہیں ،لیکن انھیں باہمی تعلقات میں  رکاوٹ نہیں بننا چاہیئے۔

امریکی صدر بائیڈن نے کہا کہ” ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امریکہ اور چین کے درمیان فرق سے نمٹنے، مسابقت کو تنازعات میں تبدیل ہونے سے روکنے اور ہنگامی عالمی مسائل پر تعاون کے طریقے تلاش کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ صدر شی جن پھنگ! میں پہلے کی طرح ایک پائیدار، کھلی اور پرخلوص بات چیت کا منتظر ہوں۔ “بائیڈن نے کہا کہ دو بڑی طاقتوں کی حیثیت سے امریکہ اور چین کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعمیری تعلقات برقرار رکھیں۔ امریکہ چین کے نظام کا احترام کرتا ہے، چین کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتا، نئی سرد جنگ کا خواہاں نہیں ہے، اتحاد کو مضبوط بنانے کے ذریعے چین کی مخالفت کرنے کی کوشش نہیں کرتا، “تائیوان کی علیحدگی” کی حمایت نہیں کرتا، “دو چین” یا “ایک چین، ایک تائیوان” کی حمایت نہیں کرتا ، اور چین کے ساتھ تصادم کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ امریکہ کا چین سے ڈیکپلنگ” کرنے، چین کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے یا چین کو گھیرنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بائیڈن نے کہا کہ امریکی حکومت ایک چین کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، تائیوان کے مسئلے کو چین کو روکنے کے لئے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش نہیں کرتی ، اور آبنائےتائیوان میں امن اور استحکام دیکھنے کی امید کرتی ہے.

دونوں سربراہان مملکت نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں فریقوں کی سفارتی ٹیموں کو اسٹریٹجک رابطے کو برقرار رکھنا چاہیے اور باقاعدگی سے مشاورت کرنی چاہیے۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک کی مالیاتی ٹیمیں میکرو اکنامک پالیسیوں، اقتصادی اور تجارتی امور پر بات چیت اور ہم آہنگی کو آگے بڑھائیں گی۔ سی او پی 27 کی کامیابی کو فروغ دینے کے لئے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان صحت عامہ، زراعت اور غذائی تحفظ کے حوالے سے بات چیت اور تعاون پر اتفاق کیا۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ چین اور امریکہ کے مشترکہ ورکنگ گروپ کو زیادہ مخصوص مسائل کے حل کو فروغ دینے کے لئےبہتر طور پراستعمال کیا جائے گا۔اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ چین اور امریکہ کے درمیان عوامی تبادلے بہت اہم ہیں  اور دونوں ممالک مختلف شعبوں میں افرادی تبادلے کی توسیع کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بین الاقوامی برادری توقع کرتی ہے کہ چین اور امریکہ اپنے تعلقات کو اچھے طریقے سے آگے بڑھائیں گے۔ یہ توقع بین الاقوامی رائے عامہ کی طرف سے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی ہر تفصیل کی جانچ پڑتال اور اس سے مثبت اشارے ملنے کی امید سے ظاہر ہوتی ہے۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ سب کے جذبات ایک جیسے  ہیں۔ حالیہ چند سالوں میں چین امریکہ تعلقات سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے نچلی سطح پر آ گئے تھے اور بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ چین اور امریکہ کے درمیان “نئی سرد جنگ” شروع ہو جائے گی۔ چین اور امریکہ کے درمیان ممکنہ فوجی تصادم کے سنگین نتائج نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس ملاقات کے بارے میں بین الاقوامی میڈیا کی رپورٹوں کا عمومی لہجہ ہے  کہ ایسے حالات میں، جب  چین اور امریکہ کے سربراہانِ مملکت ایک ساتھ بیٹھ کر کھل کر بات کر رہے ہیں تو یہ  بیرونی دنیا کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے، جو بہت زیادہ امید افزا ہے۔

Facebook Comments

Zubair Bashir
چوہدری محمد زبیر بشیر(سینئر پروڈیوسر ریڈیو پاکستان) مصنف ریڈیو پاکستان لاہور میں سینئر پروڈیوسر ہیں۔ ان دنوں ڈیپوٹیشن پر بیجنگ میں چائنا میڈیا گروپ کی اردو سروس سے وابستہ ہیں۔ اسے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی کی اردو سروس سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ چین میں اپنے قیام کے دوران رپورٹنگ کے شعبے میں سن 2019 اور سن 2020 میں دو ایوارڈ جیت چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply