• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات- دیر آید درست آید/نذرحافی

آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات- دیر آید درست آید/نذرحافی

آپ ماضی میں چلے جائیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا نام آپ کو یاد ہوگا۔ اُس نے ہندوستان میں پہلی بار کسی بلدیاتی ادارے کی بات کی تھی۔ ہُوا یوں کہ 1688ء میں مدراس کے اندر لارڈ رٹن نے ایک میونسپل کمیٹی کی داغ بیل ڈالی۔ یہاں سے ہندوستان میں بلدیاتی ادارے متعارف ہونا شروع ہوگئے۔ ہم نے جمہوریت کے سفر میں کتنی ترقی کی ہے، اس کا جواب ہمیں اپنے ہاں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی تاریخ سے بخوبی مل سکتا ہے۔ ان دنوں آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں۔ آیئے ایک مرتبہ پھر ماضی میں چلیں۔ یہ 21 نومبر 1991ء کی بات ہے۔ سردار محمد عبدالقیوم خان مرحوم آزاد کشمیر کے وزیراعظم تھے۔ آخری مرتبہ انہی کے عہد میں آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان اکتیس سالوں میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ گیا۔ ہمارے ہاں ویسے بھی جمہوریت کی کھال میں آمریت کا گوشت پوست کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ یہاں مقامی حکومت میں آنے کیلئے بھی کسی قسم کی تعلیمی صلاحیت یا شرافت و دیانتداری درکار نہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں بھی پارٹی اور جماعت کا نام برائے نام ہوتا ہے۔ اگر آپ کی برادری بڑی ہے تو تبھی کوئی بڑی پارٹی اور جماعت بھی آپ کو ٹکٹ دے گی۔

المختصر یہ کہ یہاں انتخابات کا مطلب برادریوں کے وڈیروں کو سونے کے تھال میں رکھ کر حکومت دینا ہوتا ہے۔ آزاد کشمیر کا جمہوری عمل یعنی “پرانے بابوں کا باری باری اپنے نئے بچوں کو اقتدار منتقل کرنا۔” اِن سیاسی بابوں کو سب سے زیادہ کوفت بلدیاتی انتخابات سے ہوتی ہے۔ ان کا اصلی ہم و غم تو صرف اپنے بچوں کو ایم این اے اور ایم پی اے بنوانا ہوتا ہے، لہذا بلدیاتی انتخابات کی مشقت ان کے نزدیک بالکل اضافی ہے۔ یہ اپنی اپنی برادریوں کے سیاسی کمّی کمینوں کو اپنے اقتدار میں شریک نہیں کرنا چاہتے۔ چنانچہ پہلے تو یہ بلدیاتی انتخابات ہونے ہی نہیں دیتے اور اگر ہو بھی جائیں تو پھر ایسے افراد کو اوپر لاتے ہیں، جن کے ساتھ مل کر یہ خُرد بُرد کرسکیں اور ان کے کاموں پر اپنے ناموں کے کتبے سجا سکیں۔ لوکل گورنمنٹ کی تشکیل کبھی بھی ان سیاسی بابوں کی ترجیح نہیں رہی۔ ایسا صرف آزاد کشمیر تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں بھی عملاً ایسا ہی ہے۔ چنانچہ پاکستانی سیاسی وڈیروں نے بھی کبھی اپنے دورِ اقتدار میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے اور پاکستان میں یہ معجزہ جب بھی ہوا، فوجی حکمرانوں کے عہد میں ہوا۔

آزاد کشمیر میں انتخابات کا بگل خصوصاً بلدیاتی انتخابات کا بگل بجتے ہی مختلف برادریوں کے خونخوار ڈنڈے مار اپنے اپنے ڈنڈے ڈھونڈنے اور رندھا کرنے شروع کر دیتے ہیں۔ وڈیرہ شاہی اور برادری ازم کی اس جنگ میں سارا وقتی فائدہ ابن الوقت حضرات خصوصاً مفت خور اور بے روزگار افراد کو پہنچتا ہے۔ سیاسی امیدواروں کی انتخابی مہمات کا سارا انحصار انہی دماغ اور جیب سے خالی افراد پر ہوتا ہے۔ چنانچہ انتخابات کے دنوں میں وقت بے وقت گلی محلوّں میں مختلف برادریوں کے بے روزگار ٹولوں کی نقل و حرکت کا بُرا نہیں منایا جاتا۔ ان دنوں میں بے روزگار اور نکمّے افراد کسی نہ کسی ڈنڈہ فورس کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ باقی تھوڑی بہت سر پھٹول، محدود پیمانے پر توڑ پھوڑ، ایک دوسرے کی چھترول، گلی کوچوں میں شور شرابا اور ہائے سیاپا، آوے ہی آوے، وجاوے ہی جاوے یہ سب ان بےروزگاروں کا روزانہ کا مشغلہ ہی سمجھیں۔

یہاں حصولِ اقتدار کا ایک ہی نسخہ ہے کہ آپ کے ساتھ ہر وقت چند ڈنڈہ بردار ہوں اور آپ کی پشت پر بھی ڈنڈے والی سرکار یعنی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہو۔ اگر آپ کی پشت پر ڈنڈے والی سرکار موجود ہے تو پھر آپ کے پاس جتنے ڈانگ مار ہوں، اُتنے ہی آپ کے اقتدار میں آنے کے چانسز زیادہ ہیں۔ یاد رہے کہ منافقت، بدمعاشی، دھونس اور فراڈ کے بغیر یہاں کسی نے آپ کو ووٹ نہیں دینا۔ ورنہ تجربہ کرکے دیکھ لیں، آپ کو اپنے اہلِ خانہ کے ووٹ بھی نہیں ملیں گے۔ ایسے میں اکتیس سال بلدیاتی انتخابات کا منعقد نہ ہونا کسی المیّے سے کم نہیں۔ مقامی حکومتوں کو جمہوریت کی نرسریاں کہا جاتا ہے، لیکن ہمارے ہاں کی جمہوریت کے تو ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔ کسی نے آزاد کشمیر میں نظریاتی سیاست، انسانی بھائی چارے، عوام کے باہمی احترام اور سیاسی و جمہوری شعور کا حقیقی طور پر جائزہ لینا ہو تو وہ انتخابات والے دن پولنگ اسٹیشنوں کا چکر ضرور لگائے۔

غضب خدا کا کہ اتنے اہم جمہوری عمل کے دوران کتنے ہی پولنگ اسٹیشنوں کو خطرناک قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مرتبہ اس خطرے کا ماحول ہی نہ بنے۔ ویسے بھی 2020ء میں بلدیاتی انتخابات کا نام دے کر بیالیس امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کر لیا گیا تھا۔ اب تو وفاقی حکومت کا 34 ہزار سکیورٹی اہلکار دینے سے انکار اور پاکستان کے معروضی حالات بھی متوقع بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرانے کیلئے کافی ہیں۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح اگر اس مرتبہ آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہو ہی جاتے ہیں تو اس کا ایک سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ گذشتہ اکتیس سالوں کے اس فاصلے میں ایک نئی، پڑھی لکھی اور نسبتاً سمجھدار نسل آزاد کشمیر میں تیار ہوچکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

27 نومبر کو آزاد کشمیر کے دس اضلاع کی 280 یونین کونسلز اور 2080 واڑدز میں، انتیس لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں ووٹرز اپنے بلدیاتی نمائندگان کا انتخاب کریں گے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس مرتبہ چند گھسے پٹے، روائتی اور فرسودہ چہروں کے بجائے مختلف برادریوں، ذاتوں، قبیلوں اور جماعتوں کے پڑھے لکھے جوان بطورِ امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ ایک تو بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی اساس ہیں اور دوسرے نئی سوچ، نئے خون اور نئے چہروں کی شمولیت سے جمہوری اقدار میں نئی جان اور نئی روح آئے گی۔ بلدیاتی انتخابات کا عمل، اکتیس سال کے بعد ہی سہی جاری رہنا چاہیئے۔ دیر آید درست آید۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply