اور لائن کٹ گئی/عامر حسینی

فیض احمد فیض کے جنم دن پر اُن کی وفات کے ایک سال بعد 1985ء میں آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن نے ریلوے اسٹیڈیم لاہور میں پہلے “فیض امن میلہ” کا انعقاد کیا تھا ۔ اس میلے کو کسی بھی نیشنل /ملٹی نیشنل کمپنی کی سپانسر شپ کے بغیر اور کسی این جی او کی فنڈنگ کے بغیر رضاکارانہ چندے سے منظم کیا گیا تھا ۔ فیض صاحب کو قیصر خاور نے ایک کرسی پر بیٹھے دائیں ہاتھ میں سگریٹ تھامے پینٹ کیا تھا اور جو پھر پوسٹر کی شکل میں 5 ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ جسے پنڈال میں قناتوں کے اوپر نصب کیا گیا تھا۔
یہ عوامی ثقافت کو فیض کو یاد کرنے کے راستے طاقتور شکل میں خاص طور پر پنجاب کے سب سے بڑے اربن مرکز لاہور میں پیش کرنے کا ایک حیلہ تھا ۔

لاہور شہر اُس زمانے میں جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں ڈاکٹر اسرار، ڈاکٹر طاہر القادری، جاوید غامدی جیسے کرداروں کے زریعے پروفیشنل مڈل کلاس کی ایک خاص طرز میں آبیاری کررہا تھا اور ایک رجعت پرست مذھبی ذہنیت کو غالب بنارہا تھا۔ جبکہ شہری بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کی کثیر پرتوں کو دیوبندی اسلام کے اور زیادہ پیورٹن برانڈ کی گرفت میں لارہا تھا۔
لاہور میں پیر کرم شاہ الازھری، مولوی طارق جمیل، مولوی عبدالوہاب، کراچی میں مفتی تقی عثمانی، پشاور میں مفتی شہاب پوپلزئی جیسے شہری بورژوازی و پیٹی بورژوازی کی کئی ایک پرتوں کی کایا کلپ کررہے تھے ۔

ایک بورژوازی و پیٹی بورژوازی کا سیکشن جہاد افغانستان، جہاد کشمیر پروجیکٹ سے جڑا تھا اور وہ مولوی سمیع الحق، اسامہ بن لادن، عبداللہ عزام، سید قطب جیسوں کا فین کلب بن چُکا تھا۔
جبکہ شہری چھوٹے دکاندار، لمپئن پرولتاریہ (دیہاڑی دار، ٹھیلے والے، ماشہ خور)، متوسط طبقے کی کسان پرتیں مولوی حق نواز جھنگوی جیسوں سے تکفیری شعور کے ساتھ مسلح ہورہا تھا ۔
یہ سب ہماری دھرتی کی صلح کُل /پیس فار آل وحدت الوجودی ثقافت کے درپے تھے اور اُسے دفن کردینے کی سعی کررہے تھے ۔

لاہور میں صلح کُل کے علائم صوفیا میاں میر، شاہ حسین جیسوں کو حاشیے پر دھکیلے جانے کی بھرپور کوشش ہورہی تھی ۔ اور سب سے بڑھ کر لاہور کی سیاسی ثقافت میں تکفیری رجحان کو غالب کرنے کے لیے تھیڑ، فلم، ڈراموں کو سطحی اور گھٹیا پروڈکشن کے سپرد کیا جارہا تھا ۔ رقص، جھمر، گیت سنگیت، ناٹک ان سب کی جگہ ولگر تھیڑ، مجرا ڈانس، پورن فلموں کی ثقافت کو پروان چڑھایا جارہا تھا ۔ لاہور کو اسی لیے نواز شریف جیسوں کے سپرد کیا جاچُکا تھا ۔

ایسے میں فیض امن میلہ ان سب کوششوں کا پنجاب اور پنجابی کے مرکز پر ایک دندان شکن ردعمل تھا ۔

افسوس کہ اس میلے کو ریلوے اسپورٹس سٹیڈیم کی جگہ سے پہلے الحمرا تک محدود کیا گیا اور بعد ازاں اس پر فیض کی لبرل صاحبزادیوں اور فیض کے داماد، نواسے نواسیوں نے قبضہ کرلیا اور یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سپانسرڈ ہوکر لبرل و سابق کمیونسٹ اشرافیہ اور ان کی این جی اوز کا یرغمالی ہوکر رہ گیا۔

ہماری لوک دانائی، رقص، گیت، سنگیت، ناٹک، تھیڑ، ڈرامے، میلوں ٹھیلوں کی ثقافت کو “غیراسلامی” قرار دےکر غائب کردیا گیا اور اس کی جگہ سماج کا غالب منظر نامہ تبلیغی جماعت، جہاد، کافر سازی کی متشدد مشین کو دے دی گئی، نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔ جسے آج ہم شہری سماج کہتے ہیں اُس میں ہماری بورژوازی /سرمایہ دار طبقے اور پیٹی بورژوازی /درمیانہ سرمایہ دار طبقہ کی تعلیم یافتہ پرت جس کی اکثریت کا رول ماڈل مولوی طارق جمیل، الیاس قادری پپا جانی/حبیب بھائی، تبلیغی جنید جمشید مرحوم (وائٹل سائن والا پاپ سنگر جنید جنشید نہیں)، مولوی شہنشاہ نقوی، مولوی راجا ناصر عباس جیسے ہیں،جبکہ سیمی پیٹی بورژوازی (لوئر مڈل کلاس۔چھوٹے دکاندار، تھوڑی ملکیت کے کسان) اور لمپئن پرولتاریہ ( دیہاڑی دار شہری پرتیں) کی اکثریت لدھیانوی و فاروقی، اشرف جلالی، مولوی خادم رضوی، حنیف قریشی جیسوں کی عقیدت مند ہیں۔ ان کے رجعت پرست اور بنیاد پرستانہ فرقہ وارانہ شعور کا اثر ورکنگ کلاس پر بھی پڑرہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

شہری بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کی اشراف پرتیں لبرل، فیمنسٹ، لیفٹ رجحانات کی حامل ہے لیکن اُس کی یہ روشن خیالی خود کو ہمارے سماج کی لوک دانائی، رقص، جھمر، دھمال، گیت سنگیت، اردو سے ہٹ کر دوسری مقامی زبانوں میں موجود ثقافتی مادیت سے ہم آہنگ نہیں کر پاتی، اسی لیے کروڑوں عوام ان کے نزدیک نیم شہری، قصباتی اور دیہاتی گھامڑ پَن کا شکار ہیں ۔ یہ شہری لبرل دانشور پرتیں کلچرل فیسٹول ہوں یا لٹریری فیسٹول ہوں اُن کو لگژری بیچ ہوٹل، الحمرا ہال، آرٹس کونسل، ڈیفینس، بحریہ ٹاؤن جیسے پاپوش علاقوں میں واقع کیفے، ریستورانوں، کلبز میں محدود کرچکے ہیں اور عوام کی اکثریت جن علاقوں میں رہتی ہے وہاں تک یہ جانا ہی نہیں چاہتے۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply