ابابیل/محمود اصغر چوہدری

میرے بچپن میں ہمارے گھر میں ڈیوڑھی والی چھت کے نیچے ابابیلوں نے گھونسلہ بنا لیا ۔کوئی بھی آرکیٹیکٹ اتنا حیران کن گھر نہیں بنا سکتا ۔یہ چھت کے ساتھ چمٹا ہوا تھا اور اس کے نیچے کسی قسم کا کوئی سہار ا نہیں تھا ۔نیچے سے پرندوں کے چھوٹے چھوٹے پر نظر آتے تھے ۔ جیسے تکیوں میں ہوتے ہیں ۔ابابیل پرندے کا سائز اور شکل چڑیا جیسی تھی لیکن ان کے پر سیاہ اور سینہ سفیدتھا۔اسے کبھی ہم نے زمین پر، دیوار پر یا کسی چھت کی منڈیر پر بھی بیٹھے نہیں دیکھا تھا ۔ اسکی پرواز کا اندازبالکل منفرد تھا یہ فضا میں اڑتے ہوئے پر نہیں پھڑپھڑاتے تھے بلکہ کسی ہالی ووڈ کی وار فلموں میں استعمال ہونے والے جنگی جہازوں کی طرح پرواز کرتے آتے اور سیدھے گھونسلے کے اندر ہی لینڈ کرتے ۔ صبح ہوتے نکل جاتے اور شام ڈھلتے ہی ان کی واپسی کا سفر شروع ہوجاتا ۔رفتہ رفتہ انہوں نے اپنی آبادی میں اضافہ کیا اور اس طرح ان کا ایک گھروندہ دو سے چار ہوتا ہوا پوری چھاؤنی میں تبدیل ہوگیا ۔

اباجی اور امی جی نے بتا یا کہ بیٹا اس پرندے کا ہمارے گھر میں ڈیرہ ڈالنا ہمارے لئے بڑی خوش قسمتی کی علامت ہے کہ قرآن مجید میں سورہ فیل میں اس کا باقاعدہ ذکر آیا ہے۔ ہماری  ڈیوڑھی کی  چھت بہت اونچی تھی اس لئے سیڑھی لگا کر بھی ان پرندوں تک پہنچنا نا ممکن تھا,اس لئے یہ سب محفوظ بھی تھی ۔ گاؤں کے سیانے بزرگوں کا کہنا تھا کہ بیٹا یہ پرندے صرف ان گھروں میں آتے ہیں جن میں عبادت زیادہ ہوتی ہے آپ کے والد اور والدہ چونکہ تہجد گزار ہیں اس لئے ان پرندوں نے آپ کے گھر کو منتخب کیا ورنہ یہ پرندہ صرف گنبدوں ، اونچے ٹیلوں اور پہاڑیوں کی چٹانوں کو ہی رہائش کے لئے منتخب کرتے ہیں۔ واللہ اعلم

ان پرندوں کی خوشی ، ان کا شور ، ان کا رقص اور ان کی پروازیں اس دن دیدنی ہوتی تھیں جس دن بارش کا موسم بنتا تھا ۔ ان کی پروازیں اس بات کی نشانی ہوتی تھیں کہ بارش لازمی ہوگی ۔ اورنو تھولوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ چھوٹی جسامت ہونے کے باوجود ابابیل (سوئفٹ) کا شمار دنیا کے بلندپروازاور تیز رفتار پرندوں میں کیا جاتا ہے۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ابابیل کی ایک قسم مسلسل 10 ماہ تک بغیر رکے اور بغیر زمین پر اترے پرواز کرسکتی ہے۔اس نسل کا ایک پرندہ اوسطاً 20 سال تک زندہ رہتا ہے۔ایک یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق بیس سالوں میں عام ابابیل اتنے فاصلے تک پرواز کرلیتے ہیں جو چاند تک جانے اورواپس آنے کے 7 چکروں جتنا طویل ہوتا ہے۔

میری بڑی خواہش تھی کہ ہم یہ پرندہ ہاتھ میں پکڑ کر دیکھیں ۔ لیکن ابا جی اور امی جی کی طرف سے سختی سے ممانعت تھی کہ انہیں تنگ  نہ کیا جائے لیکن ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک پرندا اڑتا ہوا آیا اور ہمارے برآمدے میں لگے ہوئے پنکھے سے ٹکر ا کر نیچے گر گیا ۔ ہم نے اسے پکڑ لیا ۔ اور قریب سے جائزہ لیا تو اندازہ ہوا کہ اس کا رنگ کالا ضرور تھا لیکن اس کے پروں کی چمک کمال کی تھی اس کی آنکھیں چڑیا کے مقابلے میں بہت بڑی تھیں اس کے پنجے نہایت کمزور تھے۔وہ سست سا ہو کر بیٹھ گیااور زمین پر چلنا بھی گوارہ نہیں کر رہا تھا۔ میں نے اس کے سارے جسم کو ٹٹولا اسے کوئی زخم کوئی چوٹ نہیں تھی ۔ میں نے اسے پکڑ کر اڑانے کی کوشش کی لیکن وہ اڑ بھی نہیں رہا تھا ۔ہم نے اسے ہر قسم کے دانے ڈالے لیکن وہ کچھ بھی نہیں کھاتا تھا ، حتی کہ پانی تک نہیں پیتا تھا ۔ دو چار دن بعد وہ فوت ہوگیا ۔مجھے بہت افسوس ہوا ۔ اس کے بعد ہم نے برآمدے میں اس وقت پنکھا لگانا بند کر دیا جب ان کی پرواز کا وقت ہوتا تھا۔ کئی سال بعد کتابوں سے پتہ چلا کہ ابابیل بارش کا پانی پیتا ہے اورفضاؤں میں اڑنے والے کیڑے مکوڑے اس کی غذا ہیں اس لحاظ سے یہ کسانوں کے لئے ایک نعمت ہے جو فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کو چٹ کرجاتا ہے ۔

ابابیل کے بارے سنیاسیوں اور جوگیو ں نے حیران کن باتیں پھیلا رکھی ہیں کہ ان کے گھونسلے میں ایک چھوٹا سا طلسماتی پتھر ہوتا ہے جو بہت سی بیماریوں کے لئے بڑا سود مند ہوتا ہے ۔ و ہ پتھر کسی کو مل جائے تو آپ کے بزنس اسٹاک مارکیٹ کے شیئرز سے لیکر دیگر حوالوں سے بھی خوش قسمتی کی علامت ہو سکتاہے اسی طرح ابابیل کی آنکھ سے لیکر اس  کے دل تک کے بارے عجیب وغریب حکایات مشہور ہیں۔ ان باتوں کی کوئی سائنسی توجیہہ نہیں لیکن اس کی  چونچ میں پکڑے پتھروں اور ان کی وجہ سے ابرہہ کے ہاتھیوں کا لشکر کا بھوسہ بن جانے کا ذکر تو قرآن میں موجود ہے اس لئے اس کے طلسماتی پتھروں سے صریحاً انکار کرنا تو  قرآنی کا انکار ہو گا ۔ ہم نے سار ا گھر نیا بنا لیا لیکن کئی سال تک ڈیوڑھی کی چھت تبدیل نہیں کی  کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ پرندے ہمارے گھر سے جائیں ۔

میں ابابیلوں کے طلسماتی پتھروں سے امیدیں رکھنا تو توہم پرستی خیال کرتا ہوں ۔ لیکن ان پرندوں سے کئی سال کا رشتہ رکھنے کے بعد میں ان کی ایک چیز سے اتنا مانوس ہوں کہ وہ کبھی بھول نہیں سکتا اور وہ ہے ان کی آواز ان پرندوں کی چہچہاہٹ ۔ اور بغیر پر پھڑپھڑائے ایف سولہ کی طرح کی پرواز۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آپ کو بھی وہ آواز و پرواز دیکھنی اور سننی ہے جو دل کومو ہ لے اور روح کوشاد کر دے تو وہ ایک ہی جگہ ہے جہاں آپ دیکھ سکتے ہیں ۔ وہ ہے خانہ کعبہ ۔ اگرآپ سعودی عرب عمرہ یا حج پر جائیں تو ایک کام میری فرمائش پر ضرور کریں ۔ آپ فجر کی نماز کے وقت خانہ کعبہ کے نزدیک مطاف میں پہنچ جائیں تو نماز سے کچھ دیر پہلے لوگ صفوں میں بیٹھنا شروع ہوجاتے ہیں اور انسانوں کا طوا ف رک جاتا ہے اس وقت یہ جھنڈ در جھنڈ اور غول در غول آتے ہیں اور ایسا طواف کرتے ہیں۔ ایسا شور مچاتے ہیں کہ آپ وہ منظر دیکھ کر دنیا کے سارے غم بھول جائیں گے ۔ وہ نظارہ آپ کو دنیا میں کہیں نہیں ملے گااس وقت آپ کو یہی لگے گا کہ یہ پرندے نہیں بلکہ آسمان سے فرشتے اتر آئے ہیں۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply