بے روزگاری کا لانگ مارچ/نجم ولی خان

ایک طرف جناب عمران خان ہیں جن کا لانگ مارچ ایک مرتبہ پھر شروع ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے ان کے مٹھی بھر کارکن نکلتے تھے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی پولیس ان کی محافظ ہوتی تھی اور یہ ہزاروں، لاکھوں لوگوں کے راستے بند کردیتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ سلسلہ بند ہوا مگر راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کے لئے ابھی مشکلات باقی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی تحریک اس وقت انہی دو صوبوں میں چل رہی ہے جہاں ان کی اپنی حکومت ہے اوراس کے دومطلب ہیں، اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے پر تھپڑ مارے جا رہے ہیں یعنی اپنی ہی حکومت میں تحریک چلا کے اپنے ہی شہریوں کو پریشان کیا جا رہا ہے اور دوسرا یہ کہ اب بھی انہیں تحریک چلانے کے لئے کسی نہ کسی سپورٹ کی ضرورت ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ اگر یہ حکومتیں بھی ختم ہوجائیں تو ان کی تحریک کا حال کیا ہو؟

عمران خان کے لانگ مارچ سے کہیں زیادہ اہم اور کہیں زیادہ خوفناک لانگ مارچ مہنگائی اور بے روزگاری نے شروع کر رکھا ہے۔ مہنگائی کی وجوہات اور اثرات پر بارہا بات ہوچکی مگر کیا کسی کو علم ہے کہ اس وقت بے روزگاری کی کیا صورتحال ہے۔ بے روزگاری کئی قسم کی ہوتی ہے، پہلی قسم یہ ہے کہ کسی کے پاس روزگار موجود ہی نہ ہو اور دوسری قسم یہ ہے کہ کسی کے پاس ڈگری اور اہلیت کے مطابق روزگار نہ ہو، تیسری قسم یہ ہے کہ ڈگری اور اہلیت کے مطابق کام تو ہو مگر اس کا معاوضہ وہ نہ ہو جو ہونا چاہئے اور اگر ہم ان تینوں اقسام کی بے روزگاری کوجمع کر لیں توآسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری تین چوتھائی سے زائد آبادی بے روزگار ہے، یہ تعداد گھریلو خواتین کو نکال کے بھی چار سے پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ان تمام اقسام کی بے روزگاریوں کو ختم کرنے کے لئے حکومتیں کام کرتی ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اپنے وجود اور بقا کی جدوجہد سے ہی فارغ نہیں ہوتیں کہ ان بنیادی مسائل پر توجہ دے سکیں۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ سیاسی استحکام سے ہی ہر قسم کا تعمیر وترقی جنم لیتی ہے چاہے وہ صحت کے شعبے میں ہو، تعلیم کے شعبے میں ہو یا انفراسٹرکچر میں۔ یہی تعمیر وترقی ملازمتوں اورکاروباروں کے مواقع فراہم کرتی ہے۔

چلیں، عمومی باتوں سے نکل کر اعداد و شمار کی طرف آتے ہیں۔ پنجاب ٹیچرز یونین کے رہنما کاشف چودھری تصدیق کررہے تھے کہ اس وقت پنجاب کے صرف سرکاری سکولوں میں ایک لاکھ چار ہزار اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں اور یہ سب کی سب منظور شدہ آسامیاں ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ گذشتہ پچیس برس میں آبادی کے اضافے کو ملحوظ رکھا جائے تو ان میں پچاس ہزار سے زائد آسامیاں کا اضافہ ناگزیر ہوچکا ہے گویا اس وقت پونے دو لاکھ کے لگ بھگ اساتذہ کی ضرورت ہے مگر نوکریاں نہیں دی جا رہیں۔لاہور سمیت تمام اضلاع میں سرکاری رپورٹس کے مطابق مجموعی طور پر سینکڑوں ایسے سکول ہیں جن میں ایک بھی ٹیچرنہیں ہے یا انہیں ایک یا دو اساتذہ کے ساتھ چلاتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ چھ سے سات کلاسز کو وہ پڑھائیں۔ طارق کلیم، پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے منتخب صدر ہیں، بتا رہے تھے کہ پنجاب بھر کے کالجوں میں لیکچررز اور پروفیسرز کی منظور شدہ اسامیاں چھبیس ہزار ہیں اور ان میں سے بار ہ ہزار خالی ہیں۔ حکومت پنجاب اس کمی کو سی ٹی آئیز یعنی عارضی ٹیچروں کے ذریعے پورا کرتی ہے مگر اس مرتبہ نومبر تک وہ بھی نہیں فراہم کئے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ جس کالج میں سائنس مضامین تک کے لیکچررز نہیں ہوں گے وہاں کا رزلٹ کیا ہو گا، یہ سوال بے روزگاری سے ہٹ کے ہے۔ اور تو اور حکومتیں درجہ چہارم تک کی بھرتیاں نہیں کرتیں۔ اسی طرح میڈیکل ایجوکیشن کے ایکسپرٹ ڈاکٹر شبیر چوہدری بتا رہے تھے کہ پچھلے تین سے چار برسوں میں ایک مرتبہ بھی ڈاکٹروں کی پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بھرتی نہیں کی گئی بلکہ ا س سے پہلے نون لیگ کے دور میں جو بھرتی ہوئی اس کو بھی روک دیا گیا۔ ہر برس پنجاب کا پندرہ سے بیس ہزار ڈاکٹر تیار ہو رہا ہے اور اس طرح اب ڈاکٹروں میں بھی بے روزگاروں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔اس وقت بھی ایڈہاک بھرتی جاری ہے اور ایک ڈاکٹر کی ایڈہاک بھرتی پر رشوت کاریٹ کم از کم پانچ لاکھ روپوں تک پہنچ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اوکاڑہ ہو یا سرگودھا، جہاں بھی ایڈہاک بھرتی ہوتی ہے، ڈاکٹروں کی ایسے لائنیں لگ جاتی ہیں جیسے چپڑاسی بھرتی ہو رہے ہوں۔ انجینئر عاطف سیال، ینگ انجینئرز کے ایگل گروپ کے قائد ہیں اور ان کے پاس بھی دل دہلا دینے والے اعداد وشمار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت بے روزگار انجینئروں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ وہ سال بھر سے چیخ وپکار کر رہے ہیں کہ پاکستان انجینرنگ کونسل نے بی ٹیک کو انجینئرنگ کے مساوی کر کے انجینئروں کی نوکریوں کے مواقعے ختم کر دئیے ہیں کیونکہ جب ایک کارخانہ دار کو ڈپلومہ ہولڈر سستا مل سکتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ مہنگا انجینئر کیوں بھرتی کیا جائے۔ یوں بھی ہماری صنعتی ترقی کو بریک لگی ہوئی ہے سو نئی آسامیاں کہاں سے آئیں گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے کچھ دوستوں نے، جو ینگ ڈاکٹرز بھی ہیں اور ینگ انجینئرز بھی، ایک عجیب و غریب تجویز پیش کی ہے اور کہا ہے کہ جب تک ڈاکٹروں اور انجینئروں کے لئے نوکریاں نہیں ہوتیں تب تک نئے ڈاکٹر اور انجینئر بنانے پر پابندی لگا دی جائے یا کم از کم ان کے پرائیویٹ ادارے بند کردئیے جائیں۔ یہ کتنی احمقانہ اورمفاد پرستانہ تجویز ہے کہ چونکہ آپ انجینئر یا ڈاکٹر بن چکے ہیں لہٰذا آپ کے بعد بچوں کے پڑھنے کے مواقع ختم کر دئیے جائیں۔ ہمارے پاس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی اور باصلاحیت یوتھ موجود ہے او رہمیں چاہئے کہ اس کے ٹیلنٹ کو پالش اور استعمال کرنے کے لئے ذرائع او ر وسائل مہیا کرنے کے لئے حکومتوں پر زور ڈالیں جیسے اس وقت پاکستان میں بھی مریضوں کی تعداد کے مقابلے میں سرکاری ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم ہے، حکومت کواسے پورا کرنا چاہئے۔ حکومت کو تعلیم کے شعبے میں نوکریاں دینی چاہئیں اور اگر ہم نوکریاں نہیں دے رہے تو ہمیں دوسری حکومتوں کے ساتھ ایسے معاہدے کرنے چاہئیں جن کے ذریعے ہمارے یہ ہنر مند بیرون ملک جا کے نہ صرف اچھی کمائی کرسکیں بلکہ ہمیں زرمبادلہ بھی بھیج سکیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس ا ن بنیادی اور اہم ترین مسائل پر بات کرنے کے لئے، انہیں حل کرنے کے لئے وقت ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو تباہ کر چکے ہیں۔ہماری سوچ، فکر اور ترجیح صرف اور صرف سیاست ہے۔ ہمیں سیاست کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ ہمارے لئے دو،چار یا پانچ ہزار کا لانگ مارچ سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر دوسری طرف جو کروڑوں کی تعداد میں بے روزگار پھر رہے ہیں وہ کوئی مسئلہ نہیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارا سماج، میڈیا اور حکومتیں اس طرف توجہ دیں جیسے جب سیلاب آیا اور اس سے کروڑوں لوگ متاثر ہو گئے تو اس وقت ہماری بریکنگ نیوزاور ہیڈلائنز شہباز گل کے ناشتے میں کیلا لینے یا نہ لینے کی چل رہی تھیں، آہ،ہم عجیب واہیات اور بونگے لوگ ہیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply