گرد شِ پیہم/ڈاکٹر مسرت امین

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ ہونے کے  باوجود اپنے منفرد محلِ وقوع اور معدنی وسائل کی وجہ سے بلوچستان پاکستان کے جغرافیے میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے۔ بلوچستان اس لحاظ سے بھی منفرد مقام رکھتا ہے کہ اس کی ایک طرف طویل سرحد ایران اور افغانستان سے ملتی ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں ایک نہیں بلکہ چار بندرگاہیں ہیں۔ گوادر،پسنی،جیونی اور پیشوکان بحیرہ عرب اور خلیج فارس کے دہانے پر موجود ہیں ۔بلوچستان کے مدِمقابل خلیجی ممالک کی بندرگاہوں نے ہی ان ممالک کو معاشی ترقی میں صفِ اوّل کے ممالک میں لاکھڑا کیا ۔بدقسمتی سے ہم نہ تو بلوچستان کی بندرگاہوں سے کوئی خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکے، نہ صوبے میں موجود معدنی وسائل سے  پاکستان کے سب سے پسماندہ اور غریب ترین صوبے کی تقدیر بدل سکی ۔بلوچستان کو سی پیک پراجیکٹ کا قلب کہا جاسکتا ہے۔سی پیک کی سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر سے بلوچستان میں مادی ترقی تو ہوئی لیکن بنیادی مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں ۔

اگر بلوچستان کے مسائل کا احاطہ کیا جائے تو بدانتظامی ،کرپشن ، سرداری نظام  بلوچستان کے سب سے بڑے مسائل ہیں ۔لیکن   ان مسائل کا سامنا ملائشیا،چین،بھارت،انڈونیشیا جیسے ممالک کو بھی کرنا پڑا ۔ان مسائل کے باوجود نا  صرف ان ممالک نے ترقی کی بلکہ یہ ممالک پڑھی لکھی نئی مڈل کلاس کے ذریعے بنیادی سماجی اور سیاسی مسائل پر قابو پانے میں بھی کامیاب رہے۔بلوچستا ن کا سب سے سنگین اور خطرناک مسئلہ سکیورٹی ہے۔سکیورٹی مسائل کی موجودگی میں سرمایہ کاری آنا تو دور کی بات ،زیرِ  زمین قدرت کے عطا کئے ہوئے خزانوں سے فائدہ اٹھانا بھی ممکن نہیں رہتا ۔یہ حقیقت ہے کہ چین نے سکیورٹی مسائل کے باوجود سی پیک کے ذریعے بلوچستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی، لیکن اس کے باوجود  آج بھی پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے۔بلوچستان میں سکورٹی اور دہشت گردی کے مسائل آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے چلے آرہے ہیں ۔صوبے میں بدامنی ،سکیورٹی اور دہشت گردی کا ذکر کیا جائے تو سب سے پہلا نام بی ایل اے کا سامنے آتا ہے۔بلوچستان میں بی ایل اے کا وجود کوئی نیا نہیں بلکہ یہ عفریت 5 دہائیوں سے بدامنی ،دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے ) پہلی مرتبہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں وجود میں آئی، جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دور حکومت میں بلوچستان میں ریاست پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی گئی ۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ڈکٹیٹر جنرل ضیاالحق کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مذاکرات کے بعد مسلح بغاوت پر قابو پایا گیا اور بی ایل اے بھی پس منظر میں چلی گئی ۔

قوم پرستی کی راکھ میں دبی یہ چنگاری کئی سالوں تک چُھپی رہی ۔سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان ہائیکورٹ کے جج جسٹس نواز مری کے قتل کے الزام میں قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری کی گرفتاری کے بعد سنہ 2000 سے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرکاری تنصیبات اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔سنہ 2000 میں شروع ہونے والی شورش کا دائرہ بڑھتے بڑھتے کچھ عرصے میں پورے بلوچستان تک پھیل گیا۔سکورٹی فورسز ،عام شہریوں اور ریاستی املاک پر دہشت گردی کے بیشتر حملوں کی ذمہ داری بی ایل اے قبول کرتی رہی ۔ 2006 میں ایک ملٹری آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں جس بدامنی نے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لیا وہ آج تک موجود ہے۔نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد بلوچستان میں جہاں سکورٹی فورسز،سرکاری املاک ،گیس پائپ لائنز پر حملے بڑھے، وہیں غیر بلوچ آباد کاروں پر بھی حملوں کا نیا سلسلہ شروع ہوا ۔

سنہ 2006 میں حکومتِ پاکستان نے بلوچ لبریشن آرمی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیا اور حکام کی جانب سے نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ بالاچ مری کا نام بی ایل اے کے سربراہ کے طور پر سامنے آیا ۔

سنہ 2007 میں بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد کچھ عرصے تک برطانیہ میں مقیم انکے بھائی میر حربیار مری کا نام بی ایل اے کے سربراہ کے طور پر سامنے آتا رہا ۔لیکن پاکستانی حکومت کے دباؤ یا کسی اور وجہ سے میر حربیار مری مسلح گروپ کی سربراہی کے دعوؤں سے انکار کرتے رہے۔بالاچ مری کی ہلاکت کے بعد بی ایل اے کی قیادت میں اسلم بلوچ عرف اچھو کا نام اُبھر کر سامنے آیا ۔سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں اسلم بلوچ زخمی بھی ہوئے اور کچھ عرصہ علاج کی غرض سے بھارت میں مقیم رہے ۔اسلم بلوچ کی قیادت میں پہلی مرتبہ بی ایل اے نے خودکش حملوں کا آغاز کیا ۔سنہ 2018 میں پہلی مرتبہ اسلم بلوچ کے بیٹے نے دالبدین میں چینی انجینئر ز کی بس پر خودکش حملہ کیا ۔2018 میں ہی کراچی میں چینی قونصل خانے پر تین خودکش حملہ آوروں کی مدد سے بی ایل اے نے حملہ کیا ۔چینی قونصل خانے پر حملے کے بعد اسلم اچھو افغانستان میں ایک کارروائی کے دوران مارے گئے اور انکے بعد بی ایل اے کی قیادت بشیر زیب نے سنبھال لی ۔قیادت کی تبدیلی کے باوجود بی ایل اے کی طرف سے خودکش حملوں کا سلسلہ نہ تھم سکا اور 2019 میں بی ایل اے کے خودکش گروپ مجید بریگیڈ نے گوادر میں پی سی ہوٹل پر اسی نوعیت کا ایک اور دہشت گرد حملہ کیا ۔2019 میں امریکہ کی طرف سے بی ایل اے کو عالمی دہشت گرد گروپ تنظیم ڈکلئیر کرنے اور عالمی پابندیاں لگانے کے بعد بی ایل اے کو صرف بڑا دھچکا لگا ۔عالمی دہشت گرد تنظیم ڈکلیئر ہونے کے بعد پاکستان کی ریاست کے سامنے بی ایل اے کے خلاف عسکری طاقت استعمال کرنے کی کوئی سیاسی رکاوٹ نہیں رہی ۔

یہ حقیقت ہے کہ بی ایل اے بلوچستان کی سب سے پرانی اور موثر عسکریت پسند جماعت ہے جس نے سکیورٹی فورسز ،سرکاری املاک اور مقامی اور غیر ملکی شہریوں کے خلاف سب سے زیادہ دہشت گرد حملے کیے  ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بی ایل اے کا کوئی سیاسی ڈھانچہ نہیں لیکن بلوچستان میں موجود کچھ قوم پرست سیاسی جماعتوں میں بی ایل اے کے لئے حمایت پائی جاتی ہے۔عسکری طاقت کے استعمال سے تنظیموں کا بنیادی ڈھانچہ تو تباہ کیا جاسکتا ہے لیکن ریاست مخالف بیانئے کو ختم کرنا صرف سیاسی ڈائیلاگ کے  ذریعے ہی ممکن ہے۔بلوچستان میں جب تک سیاسی مسائل اور احساسِ  محرومی کا خاتمہ نہیں ہوتا ،اس وقت تک ریاست مخالف اور شدت پسند بیانئے کا خاتمہ صرف خام خیالی ہی ہوگی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیاسی مسائل کا حل اور احساس ِ محرومی کے خاتمے کی اصل کنجی سیاسی قیادت کے پاس ہے ۔جب تک سیاسی قیادت سر جوڑ کر بلوچستان کے محروم اور ناراض طبقوں کے مسائل حل نہیں کرے گی تب تک بی ایل اے جیسی تنظیمیں اور اسلم اچھو جیسے کردار کسی مختلف نام یا مختلف صورت میں ہمارے سامنے آتے رہیں گے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply