نیل کے سات رنگ-قسط2/انجینئر ظفر اقبال وٹو

چھپر چائے خانوں کے اندر کی فضا کو تھوڑی دیراپنے ذہن کے دریچوں میں سمونے کے بعد ہم لوگ اس دھواں زدہ ماحول سے بچنے کے لئے ہوٹل سے باہر آگئے جہاں پر میدان میں ہر طرف لاتعداد میز کرسیاں لگی ہوئی تھیں جن پر زیادہ تر نوجوان بیٹھے خوش گپیاں مار رہے تھے- بیک گراونڈ میں افریقن موسیقی چل رہی تھی- شاہ جی کو اس ماحول نے مست کردیا تھا اور وہ صبح کے واقعات بھول کر موسیقی کی دھنوں سے لطف اندوز ہورہے تھے–اتنے بڑے میدان میں شائد ہی کوئی جگہ خالی ہو- ہم کچھ دیر تو انتظار میں رہے اور پھر ایک میز خالی ہوتے ہی کرسیاں جمع کرکےمیزبانوں کے ہمراہ اپنی محفل جمالی-
شاہ جی پورے مربع میں گھوم کر اس منظر کے مختلف زاویوں سے فوٹو لینے لگ گئے-ہجوم میں بیٹھی کچھ پراسرار آنکھیں ہماری طرف متوجہ ہو چکی تھیں-اور وہ ہماری ایک ایک حرکت کی نگرانی کر رہے تھے- ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ جمہوریہ چاڈ کی سرحد کے ساتھ واقع اس ریاستی دارالحکومتی شہر “الجنینہ” کا ماحول کس قدر کشیدہ تھا-دو نسلی گروہوں کے باہمی جھگڑے سے شروع ہونے والی لڑائی نے عظیم تر دار فور کے پورے علاقے کا نقشہ بدل کر رکھ دیا تھا- مغربی دار فور کی پوری ریاست اجڑ چکی تھی- یہاں کے عام لوگوں کی زندگی ایک مسلسل عذاب بن کر رہ گئی تھی- تاہم ان مایوس کن حالات میں بھی کچھ لوگ تخلیق سے باز نہیں آرہے تھے- یہ وہ باہمت لوگ تھے جو اس ویرانے میں ایک ڈیم بنانا چاہتے تھے-جس کی جھیل میں مستقبل کی اچھی امیدوں نے ذخیرہ ہونا تھا- اس جھیل کے پانی نے پتہ نہیں کتنے پیاسے لبوں کو طراوت بخشنی تھی- کتنے گندم کے کھیتوں نے سونا اگلنا تھا۰۰۰۰۰۰—کتنی نسلوں کو پانی پر ہونے والی لڑائی کے عذاب سے بچانا تھا-
مغربی دار فور مویشیوں کی پیداوار کے لحاظ سے بہت مشہور تھا-“الجنینہ” سے جنوب میں “فار برنگا” کا قصبہ دنیا میں مویشیوں کی سب سے بڑی تجارتی منڈی کے طور پر مشہور تھا-یہاں ہر سال کچھ ہفتوں کے لئے عالمی مویشی منڈی لگتی تھی جس میں شرکت کے لئے لیبیا، سوڈان، چاڈ اور سنٹرل افریقن ریاست کے ہزاروں مویشی پال شرکت کرتے- دار فوری ان مویشی پالوں کو “جنجوید” کہتے ہیں اور سوڈانی جنجوید زیادہ تر عربی النسل ہیں- یہ لوگ خانہ بدوش ہوتے ہیں اورسارا سال اپنے بڑے بڑے ریوڑ لے کر پانی کی تلاش میں چلتے رہتےہئں-ان ریوڑ وں میں مویشیوں کی تعداد بلا مبالغہ لاکھوں میں ہوتی ہے اور یہ ریوڑکئی کہی فرلانگ لمبے ہوتے ہیں- ہر قبیلے کے جانوروں کے جسم پراس قبیلے کا ایک مخصوص نشان داغ دیا جاتا ہے جس سے ان کے ریوڑ کا جانور کسی دوسرے ریوڑ میں غلطی سے شامل بھی ہو جائے تو یہ لوگ پہچان لیتے ہیں-
اس ریاست میں مویشیوں کی اتنی بڑی نقل و حرکت صدیوں سے باقاعدہ ایک اصول سے ہورہی تھی- ان ریوڑوں کے لئے باقاعدہ راستے مختص تھے جنہیں “نومیڈ کوریڈور” یا خانہ بدوشی شاہراہیں کہا جاتا تھا- ہر شاہراہ ڈیڑھ دو کلومیٹر چوڑی اور سینکڑوں کلومیٹر لمبی ہوتی اور ان راستوں کو مختص کرنے کا مقصد مقامی لوگوں کے کھیتوں اور گھروں کو ریوڑوں کی نقل و حرکت کے دوران نقصان سے بچانا تھا- یہاں کے مقامی لوگ زیادہ تر افریقی النسل تھے اور ان کا پیشہ کاشت کاری تھا- اس لئے ان کو “مزرعین” کہا جاتا تھا- یہ لوگ چھوٹی بستیاں بنا کر رہتے – ان کے لئے ہردن کا سب سے اہم کام اپنے کنبے کے لئے پانی کا بندوبست کرنا ہوتا ہے- لہذا یہ زیادہ تر پانی والی جگہوں کی قربت میں اپنی کپا نما جھونپڑیاں بناتے ہیں -اپنی ضرورت کے لئے کچھ اناج کاشت کرلیتےہیں-
صدیوں سے یہ فطری ماحول برقرا تھا لیکن کچھ عرصے سے ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشیں بہت کم ہوتی جارہی تھیں اور ان پیاسے ہجرتی جانوروں نے پانی اور چارے کی تلاش میں اپنے روایتی راستوں سے ہٹ کر مزرعین کی بستیوں کے قریب سے گزرنا شروع کردیا تھا اور
مزرعین کے اناج کے کھیتوں اور پانی کے ذخیروں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا تھا- یہیں سے وہ خونی لڑائی شروع ہوئی تھی جس کے مرکز میں اب ہم موجود تھے- اگلے سات دن غضب ڈھانے والے تھے۰۰۰۰۰۰۰
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply