یوم یکجہتی کشمیر یا مذاق

یوم یکجہتی کشمیر یا مذاق
فہیم اکبر
ریاست جموں و کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان 70 سال سے چلنے والے کشیدہ حالات کی ایک اہم وجہ ہے ،جب انگریز نے برصغیر چهوڑنے کا فیصلہ کیا اور برصغیر کو دو ملکوں انڈیا اور پاکستان کی صورت تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا تو ہندوستان کی ریاستوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار دیا گیا ۔ کشمیر پر اس وقت مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی اور ابتدائی طور پر اس نے کشمیر کو خود مختار ریاست رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن کشمیر کی عوام کی بغاوت اور پھر قبائلی پٹھانوں کی کشمیر پر یلغار کی صورت مہاراجہ نے خوف زدہ ہو کر بھارت سے فوجی مدد کی پیشکش کی لیکن بھارت نے فوجی مدد کو الحاق سے مشروط کر کے مہاراجہ پر بھارت سے الحاق کے لیے دباؤ ڈالا۔ اس پر مہاراجہ نے بھارت سے عارضی الحاق کے معائدہ پر دستخط کر دیے پھر بھارت نے اپنی افواج کشمیر میں اتار دیں جو کہ اب تک کشمیر پر قابض ہیں اور دوسری طرف سے پاکستان کی افواج بھی کشمیر میں داخل ہو گئی اس طرح انڈیا اور پاکستان کی پہلی جنگ کشمیر کے محاذ پر لڑی گئی ۔
بھارت نے مہاراجہ کے الحاق کے معائدے کو جواز بنا کر اقوام متحدہ سے رجوع کیا اور اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی اور کشمیر کی موجودہ لائن آف کنٹرول کو اس وقت تک انڈیا اور پاکستان کے درمیان عارضی کنٹرول لائن قرار دیا جب تک کشمیر کا کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا ۔ اقوام متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان نے 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1948 کی قرار دادوں کی صورت دونوں ملکوں کو جنگ بندی کا حکم دیا اور انڈیا اور پاکستان کو جلد از جلد کشمیر میں رائے شماری کروانے کے لیے اقدامات کا حکم دیا اور اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کو کشمیر سے اپنی افواج کو مرحلہ وار نکالنے کے لیے اقدامات پر بھی راضی کیا لیکن 70 سال ہونے کو ہیں ان قرار دادوں پر کوئی عمل درآمد نا ہو سکا۔ انڈیا اٹوٹ انگ کا اور کشمیر شہ رگ کے راگ سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اس عرصہ میں بار بار مذاکرات کی ٹیبل بھی سجهی لیکن فیصلہ ہوتا نظر نہیں آ رہا کشمیریوں کو کسی بهی مذاکراتی عمل میں شریک کیے بغیر کوئی فیصلہ ہونا ممکن نہیں ۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر ( وادی کشمیر ، جموں لداخ ) اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ( گلگت بلتستان اور آزادکشمیر ) میں دونوں ملکوں کی کهٹ پتلی حکومتیں قائم ہیں جو اپنے دہلی اور اسلام آباد کے آقاؤں کی خوشنودی کے سوا کوئی کارکردگی نہیں دیکھا سکیں۔
آج تک جس وجہ سے کشمیری بنیادی سہولتوں سے محرومی کی صورت مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ۔ پاکستان جو کہ ہمیشہ کشمیریوں کی حمایت کا اعلان کرتا رہا ہے اور اس سلسلے میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بھی بنایا جاتا لیکن عوام پاکستان اس بات سے بے خبر ہیں کہ پاکستان کی حمایت نے کشمیر کو کتنا فائدہ دیا اور کتنا نقصان 80 کی دہائی میں جب کشمیر میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تو 1947 کی صورت پاکستان سے امپورٹڈ جہاد کی صورت اس مسلح جدوجہد کا رخ تحریک آزادی کشمیر سے پاکستان حمایت کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی جس کی صورت انڈیا کو بین الاقوامی فورم پر یہ ثابت کرنے میں کوئی دشواری نا ہوئی کہ تحریک کشمیر اصل میں کشمیریوں کی تحریک نہیں بلکہ پاکستان کی دراندازی ہے اور اس سے تحریک کشمیر کو بے حد نقصان ہوا ۔پھر جب تحریک جہاد میں ہزاروں نوجوان شہید ہوئے تو پاکستان نے اپنے وسیع تر مفادات کی خاطر جہادیوں کی سپورٹ بند کر دی۔ اور اس طرح شہدوں کا خون رنگ تو نا لا سکا لیکن کئی گھر اپنے پیاروں کو قربان کر چکے ہیں۔ وادی کشمیر میں وقفے وقفے کے بعد کشمیری نئے جذبے سے بغاوت کرتے ہیں انڈیا کے خلاف ۔لیکن پاکستان کی میڈیا کو صرف ان لاشوں کی ضرورت ہوتی جو پاکستان کے جھنڈے میں لپٹی ہوں اور ان جلسے جلوسوں کو کوریج مل جاتی جہاں چند نقاب پوش پاکستان کا جهنڈا لہراتے ہوں ۔جب کشمیر میں حالیہ آزادی کی تحریک میں کچھ احتجاجی مظاہروں میں کشمیر کا جهنڈا لہرانا شروع کیا تو کسی میڈیا چینل نے سٹوری نہیں چلائی ۔۔
کشمیر سے اظہار یکجہتی کی ایک ہی صورت ہے کہ کشمیر کے ایشو کو الحاق سے منسوب نا کیا جائے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت میں تهرڈ آپشن یعنی کشمیری اگر خودمختار رہنا چاہیں تو بھی دونوں ملکوں کو کشمیریوں کا فیصلہ قبول ہو ۔ پاکستان بیانات کی حد تک تو کشمیر کو سپورٹ کرتا رہا ہے لیکن حق خودارادیت کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے اقدامات نہیں کیے۔
کیا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ نہیں کہا گیا کہ دونوں ممالک اپنی افواج کا کشمیر سے انخلاء کریں گے تو کیا آج تک پاکستان نے یہ اعلان کیا کہ اگر انڈیا اپنی افواج کشمیر سے نکالنے پر تیار ہو تو ہم بھی آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنی افواج سے خالی کروا دینگے ؟ صرف بیانات سے اور نغموں سے اظہار یکجہتی ہوتی تو فلسطین سے بھی ہم کرتے ہیں یکجہتی ۔ عملی اقدامات کے بغیر یکجہتی صرف مذاق کے سوا کچھ نہیں ۔
کشمیر کا واحد حل کشمیر کو انڈیا اور پاکستان کی افواج سے خالی کروا کر بین الاقوامی اداروں کے زیر اہتمام کشمیر میں رائے شماری کروائی جائے کشمیریوں کو حق دیا جائے کہ وہ پاکستان سے الحاق چاہتے انڈیا سے یا پھر ایک آزاد ریاست کی صورت رہنا چاہتے پھر جو فیصلہ ہو وہ تینوں فریقین کے لیے قابل قبول ہو ۔
جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جاتے کشمیر سے اظہار یکجہتی اور فول ڈے میں کوئی فرق نہیں ۔۔

Facebook Comments

فہیم اکبر
راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خطے کے بنیادی مسائل کو رونا رونے والا ایک سائل

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”یوم یکجہتی کشمیر یا مذاق

  1. بہترین تحریر لکھی ہے حق تو یہ ہے کہ یکجہتی ہی کرنی ہو تو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو ان کا بنیادی حق دیا جائے وہاں کی عوام پر وزیر امور کشمیر کی صورت میں وائسرائے نہ بٹھایا جائے اور لینٹ آفیسران کو واپس بلا کر تمام اختیارات وہاں کے نمائندوں اور بیوروکریسی کے حوالے کیے جائیں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے وسائل پر وہاں کے عوام کا حق تسلیم کیا جائے اور نیلم جہلم منگلا اور دیگر ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی رائلٹی ادا کی جائے۔ ایکٹ 74 کا خاتمہ کر کے حق حکمرانی ان خطوں کے نمائندوں کو دیاجائے۔وگرنہ یوم یکجہتی یوم فراڈ ہی لگے گا

Leave a Reply