فلسفہء وحدت, مخرج و عملِ اخراج/خنجر عظیم آبادی

اپنے حجرے میں پڑا حالتِ بے دماغی میں, خوابِ فنا کی وادیوں میں پھسلنے کو ہوا۔خوش جمال پریاں اپنے نازک رنگین پروں کی پھریریوں سے نورِ جمال بکھیرتی جاتیں۔ پُرکیف تھی صدا, عجب چتون تھی, غضب تھی ادا، لیکن وائے حیرت, یہ کیا ہوا خدا؟

جانے شبِ ناصبور کا کون سا پہر تھا, جادو تھا کہ سحر تھا۔ دل کو قرار نہ مراقبے کا سرور۔ سیار دشتِ وحشتناک میں آوازہ لگاتے تھے بہت دور۔ دوڑنے لگی دماغ میں برقی لہریں۔ دفعتاً  چشمِ حیرت میں صورۃ فانی رقص کناں ہوئی۔ وجودِ معدوم نے لبِ اسرار سے کچھ کہا, یہ کیا ہے فلسفہ؟ بوالعجبی, دماغ کے شجر پر طائرِ خیال نے یلغار کیا۔ خاموشیء شب کی حرمت  کو تار تار کیا۔

اے کتاب چہرہ کے نگینوں, میری بگیا کے گل چینوں, کیا عرض کروں کہ شب بھر رہوارِ خیال جست پر جست بھرتا رہا, علم و حکمت منبع اپنی موت آپ مرتا رہا۔ فلسفہء زندگی کے فلک بوس محل زمیں بوس ہوئے۔حکیموں کی حکمت, داناؤں کی دانائی, جیون کی پنہائی, فلسفے, انسان کے تُکّے خواب خرگوش ہوئے کہ اس عالم بے ثبات کی حقیقت تو کچھ اور ہے, جلتے ہوئے چراغ کا الگ طور ہے۔ کشف کی سرنگ سے جب میں موتی آبدار لایا, بس ایک ہی حقیقت کی تجلی سے قرار پایا۔ اس عالمِ بے ثبات کا کاروبار تو بس حضرت انسان کے عملِ واحد سے محوِ سفر ہے, یہ بے بضاعت وجود خواہ مخواہ در بدر ہے۔ گر انسان یہ حقیقت جان لے تو ہر وقت عملِ اخراج کی ٹھان لے۔ فلسفہ اخراج کے عوامل کا علم نہیں نادان کو, اسی سبب سے آگیا ہے اپنی جان کو۔

اے فہم و فراست کے نکتہ دانو, رازِ حیات کے دوانو, اسرارِ فکر کے سخن دانو, یہ جاننا چاہیے کہ اس کارزارِ ہستی میں اخراج و مخرج کی حقیقت کیا ہے?

تمہیں معلوم ہے کہ مخرج و مقام خاص ہے جہاں سے عملِ اخراج وقوع پذیر ہووے ہے, اگر یہ عملِ انشراح نہ ہو تو انسان دلگیر ہووے ہے۔ دنیا کی نیرنگیوں کے اعتبار سے اخراج کی کئی صورتیں ہیں۔ اس ناقابل تردید حقیقت کو جانو اور نیرنگ حقیقتوں میں حضرتِ انسان کے عملِ اخراج کو سب سے اہم حقیقت مانو۔ اصطلاحات فلسفہ سے الگ اخراج خاص الخاص کو زبانِ عام میں ” ہگنا” بولے ہیں۔ اس عمل کی ابتداء تب ہووے ہے جب دورۃ المیاہ میں اشرف المخلوقات آزار بند کھولے ہے۔ کیا انسان, کیا حیوان, کیا چرند و پرند سب حاجتِ اخراج کی اقلیم کے بندے ہیں, بلکہ یوں کہو ہم سب پیدا ہوئے واسطے ہگنے کے ۔

اے علم کے غرور میں چور ذرہ بے توقیر , جو ہگنے کی فضیلت سے ناواقف ہے وہ دن کے اجالے کے اندھے اور نقار خانے کے بہرے ہیں۔ ہمارے بزرگ کیسے باکمال اور نکتہ دانی میں دال تھے۔ فلسفہء اخراج یعنی “ہگنے” کے قضایا پر حضرت چرکین قدۃ سرہ نے کس خوبی سے نظر ڈالی کہ ” پھسکی” اور “پاد” کی نازک تفریق کو نمایاں کردیا۔ حضرت ” ہگنے” کے علم پر وہ قدرت رکھتے تھے کہ دریائے فضلہ کو بے پایاں کردیا۔ ان کے بعد نظیر نہیں کہ فلسفہء “گو” پر کلام کرے۔ فضیلتِ اخراج کو عام کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اے مسافرانِ بے ثبات جانو کہ سنسار کی ہماہمی اور انتشار میں عملِ اخراج وہ دھاگہ ہے جو وحدتِ تاثیر کا ملجا و ماویٰ ہے۔ اسی عمل نے عالمِ فانی کو اکائی میں باندھ رکھا ہے۔ادھر تمہارا روزن مخرن مہر بند ہوا, ادھر عملِ اخراج منقطع, نہ بلبلے, نہ موسیقیِ حیات, نہ سوندھی ہوا۔ وہ فضلہ بھی برآمد نہ ہووے گا جو سبب زرخیزیِ جہاں ہے اور مرکزِ کاروبارِ حیات ہے۔ یہ تمہارا” ہگنا” ہی ہے جو جیون چکر کو مہمیز کرتا ہے, عالمِ رنگ و بو کی ناؤ کھیتا ہے۔ غور کرو کہ اپنے دہانِ بے مہار میں تم قسم قسم کی اشیاء ڈالتے ہو, سب کے سب تمہارے معدے میں دہی کی طرح متھ جاوے ہیں۔ لیکن واہ رے خدائے برتر و عظیم کی قدرت, دیکھو کہ کس طرح اشیائے نیرنگ ایک ہی رنگ میں ڈھل جاوے ہیں۔ تمہارے روزنِ مخرج سے جو جو کچھ برآمد ہووے ہے وہ تاثیر وحدت اور بوئے یکتائی کی آپ اپنی مثال ہے۔ کمال ہے, کمال ہے۔
نوٹ : توجہ عملِ اخراج پر رکھ بازیچہء برق پر نہیں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply