• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسٹبلشمنٹ کے کمزور دھڑے کی اصل طاقت کہاں چھپی ہے؟ /عامر حسینی

اسٹبلشمنٹ کے کمزور دھڑے کی اصل طاقت کہاں چھپی ہے؟ /عامر حسینی

پاکستان میں طالع آزما قوتیں جب بھی مُلک میں قوت و اختیار پر اپنی گرفت کمزور پڑتا دیکھتی ہیں تو وہ اپنی گرفت مضبوط بنانے کے لیے لاش گرانے کی راہ ہموار کرتی ہیں –
غیر منتخب ہئیت مقتدرہ میں قوت و اختیار کی لڑائی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے –
غالب گروہ نے فوج میں ڈیڑھ سال سے زیر التواء پڑے ترقیوں کے عمل کو مکمل کرلیا ہے – ترقی پانے والے فوج کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان کیے جاچکے ہیں اور سی پیک، افغانستان میں افغان طالبان رجیم، پاکستان میں ٹی ٹی پی کی موجودہ قیادت سے غالب گروہ ہم آہنگی میں کھڑا ہے-اور کمزور نظر آنے والا گروہ تحریک طالبان کے سپلنٹر گروپ کی مبینہ پشت پناہی کرتا نظر آرہا ہے –
اس وقت اسٹبلشمنٹ کے غالب و کمزور دونوں دھڑے جو کبھی ایک تھے جنھوں نے مل کر عمران خان کے لیے عدالتی اسٹبلشمنٹ میں عمران رجیم کو مضبوط کرنے کے لیے چیف جسٹس اور ان کے مددگاروں کو مضبوط سہارا فراہم کیا تھا تین کے قریب ججز کو چھوڑ کر سب کے سب غالب گروہ کے ساتھ نظر آتے ہیں اور اُن کو ٹف ٹائم دینے والے الگ تھلگ کردیے گئے قاضی فائز عیسی اور نئے آنے والے ججز لگتا ہے غالب گروہ کا ساتھ دیں گے –
غالب گروہ نے بندیال کے حامی ججز اور نواز شریف کے درمیان مفاہمت کا راستہ کھولا ہے جس کی تازہ مثال بندیال کے نامزد ججز کی منظوری میں حکومت نے اپنے ووٹ دے کر مدد کی ہے تو کیا آنے والے دنوں میں کمزور گروہ کی آشیر باد لیے سپریم کورٹ کے دو سے تین ججز کی جگہ نواز شریف کے حمایتی ججز (جن میں قاضی فائز عیسٰی نمایاں ہیں) پُر کریں گے؟
اسٹبلشمنٹ نے 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کو کمتر بنانے کے لیے جو تحریک لبیک پاکستان بنائی تھی اُس کا نوجوان سربراہ تو غالب گروہ کی مبینہ ہدایت پر اب پنجاب اور سندھ میں مسائل کھڑے نہیں کررہا بلکہ وہ گزشتہ لانگ مارچ کے پی کے کے ہزارہ ڈویژن میں لیکر گیا – تحریک لبیک کی قیادت میں بہت سارے رہنماء اپنے نوجوان مرکزی صدر کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں – وہ کمزور گروہ کے ساتھ مل کر تحریک لبیک کا تیسرا دھڑا بناسکتے ہیں –
کشمیر جہاد سے وابستہ تنظیموں کی مرکزی قیادت جہاں اپنا نیٹ ورک غالب گروہ کے کہنے پر کیموفلاج کرچکی ہے وہیں اس فیصلے سے داعش خراسان اور طالبان پاکستان کے سپلنٹر گروپوں کے قریب سمجھے جانے والے خوش نہیں ہیں – انھیں عمران خان میں کشش محسوس ہورہی ہے اور کمزور گروہ اُن کو سرپرستی میں لے سکتا ہے –
کمزور گروہ پنجاب، کے پی کے، بلوچستان میں فرقہ وارانہ بے چینی پیدا کرسکتا ہے اور اس کام میں اُسے تحریک لبیک کے سخت گیر عناصر، ایم ڈبلیو ایم ، سپاہ صحابہ کے ملیٹنٹ دھڑے، طالبان کے سپلنٹر گروپ کافی مدد دے سکتے ہیں –
غالب گروہ نے کراچی میں ایم کیو ایم بہادر آباد کو گود لیا ہوا ہے اور اس جماعت کو مہاجروں کی مڈل کلاس جس کی بڑی اکثریت پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اور لوئر مڈل کلاس ایم کیو ایم لندن کے ساتھ ہے اور ایک بڑا سیکشن تحریک لبیک کے ساتھ ہے – کمزور گروہ مہاجروں میں سندھیوں کے حوالے سے جو خیالی یا کسی حد تک جواز رکھنے والی تشکیک پر مبنی بے گانگی ہے اُسے کمزور گروہ لسانی کشیدگی اور تشدد تک لیجاسکتا ہے اور اُس صورت میں یہاں پی ٹی آئی کو کافی فوائد ہوسکتے ہیں –
12 جماعتی اتحاد پر مبنی حکومت اور غالب گروہ میں اس وقت جو ہم آہنگی ہے جس کی بنیاد پر یہ دونوں 2023 کے آخر تک موجودہ سیٹ اَپ کو لیجاکر نئے انتخابات اور نئی حکومت کی تشکیل چاہتے ہیں، اسے وہ پرامن انتقال اقتدار بھی کہتے ہیں کے راستے میں کھنڈت کوئی بہت بڑی انارکی، نسلی و فرقہ وارانہ فسادات ہی ڈال سکتے ہیں –
اسٹبلشمنٹ میں کمزور گروہ کی سب سے بڑی طاقت عمران خان ہیں اور اُن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے جسے اس وقت پنجاب، کے پی کے اور کراچی میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل ہے اور یہی طاقت ہے جس کے ذریعے وہ پاکستان کے شہری مراکز میں سیاسی ہنگامہ آرائی پیدا کرسکتی ہے۔ اس کے پاس ایم ڈبلیو ایم بھی ہے اور طالبان، جہاد کشمیر سے جڑے سپلنٹر گروپ اور سپاہ صحابہ کے زیادہ ملیٹنٹ رہنماء اور تحریک لبیک کے مہم جو جو کراچی سمیت کئی بڑے شہروں میں فرقہ وارانہ تشدد کی لہر پیدا کرسکتے ہیں –
تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد جو عمران خان کی احتجاجی اسٹریٹ پاور پالیٹکس اور بار بار کے جارحانہ حملوں کے مقابلے میں جوابی عوام رابطہ مہم میں ناکام دکھائی دے رہا ہے اس میں بہت بڑا کردار مسلم لیگ نواز کے اندر موجود عدم اتفاق ہے – نواز شریف اور مریم نواز کے قریب سمجھے جانے والا میڈیا اور سوشل میڈیا کا سیکشن وزیر اعظم شہباز شریف کو سپورٹ دینے سے گریزاں ہے ۔مریم نواز نے پنجاب اور کے پی کے میں ایک ایسے وقت میں اپنے جلسے جلوس اور ورکرز کنونشن روکے جب ضمنی انتخابات کا زور تھا اور پاکستان تحریک انصاف یہ ثابت کرنے میں مصروف تھی کہ اُس کا مرکزی لیڈر عمران خان پنجاب، کے پی کے اور کراچی میں سب سے مقبول لیڈر ہے – وہ اچانک سب چھوڑ چھاڑ کر لندن چلی گئیں اور اُن کی پارٹی کے وزیراعظم سمیت مسلم لیگ نواز کی قیادت پنجاب میں اسٹریٹ پالیٹکس میں کوئی رنگ جما نہیں پارہیں – دو مرحلوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات نے پنجاب، کے پی کے میں عام آدمی میں اس تاثر کو پختہ کردیا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے ہاتھوں سے جی ٹی روڈ پر بلاشرکت حکمرانی چِھن گئی ہے- نواز شریف کیمپ بلکہ خود نواز شریف کے اپنے بیانات سے یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے وقت جب موجودہ غالب گروہ کا سربراہ اُن کے پاس نئی حکومت کی تشکیل کی بجائے نئے انتخابات کی تجویز لیکر آیا تھا تو اُسے نہ مان کر پیپلزپارٹی کی رائے کے مطابق نئی حکومت کی تشکیل اور اسے ڈیڑھ سال تک لیجانے کا فیصلہ تباہ کُن تھا-
نواز شریف کے قریب سمجھے جانے والے میڈیا کے کئی بڑے نام (نجم سیٹھی سمیت) اپنے تجزیوں اور ساختیہ خبروں میں پہلے دن سے شہباز شریف کی بطور وزیراعظم صلاحیت پر انگلی اٹھا رہے تھے اور اُن کی معاشی ٹیم اور اس کے سربراہ مفتاح اسماعیل کو زبردست تنقید کا نشانہ بنارہے تھے اور آخرکار انھوں نے مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحاق ڈار کو لاکر دم کیا – اب حالت یہ ہے کہ وزیراعظم آفس اور وزیر خزانہ آفس کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے –
حالیہ دورہ چین میں جتنی قربت شہباز شریف، بلاول بھٹو اور چیف منسٹر سندھ میں نظر آئی وہ شہباز شریف اور اسحاق ڈار کے درمیان نہیں تھی –
نواز شریف اور مریم نواز مسلم لیگ نواز پر پڑے مشکل ترین وقت میں لندن کیوں بیٹھے ہیں؟ یہ سوال مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں میں ہی نہیں بلکہ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے ہر ایک شخص کی زبان پر ہے –
پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جیو نیوز کے حامد میر کو حال ہی میں ایک انٹرویو دیا ہے –
اس انٹرویو کا ایک مقصد تو اُس تاثر کو زائل کرنا تھا جس کے ذریعے یہ باور کرایا جارہا تھا کہ ملک میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے اُس سے آصف علی زرداری الگ تھلگ بیٹھے ہیں – لیکن اس انٹرویو میں آصف علی زرداری نے ایک اور انکشاف بھی کیا ہے اور وہ ہے میاں نواز شریف سے کسی رابطے میں نہ ہونا – حامد میر کی طرف سے پوچھے جانے والے تین سے چار سوالوں کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ حالیہ سیاسی صورت حال پر نواز شریف نے اُن سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی اُن کے درمیان اس صورت حال پر کوئی حکمت عملی بنانے پر تبادلہ خیال ہوا ہے – کچھ حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ آصف علی زرداری وہ شخص ہیں جنھوں نے شہباز شریف کو اُن سے دور کیا اور اُن کی رائے کے مدمقابل اپنی رائے کو ترجیح دینے پر اُکسایا ہے- ایسے حلقے یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف کا خیال ہے کہ اگر وزیراعظم خاقان عباسی ہوتے تو دو سے تین مہینوں میں اسمبلی تحلیل کی جاسکتی تھی اور نئے انتخابات کروائے جاسکتے تھے اور آج بدتر معاشی حالت کا الزام مسلم لیگ نواَز کے سر نہ جاتا-
نواز شریف کا کیمپ شہباز شریف کو ناکام ثابت کرکے کیا پنجاب میں اپنے ووٹر اور حامیوں کو واپس لاسکے گا؟ نواز شریف کی سیاست کیا غالب گروہ کو کمزور گروہ کے ساتھ کسی سمجھوتے پر مجبور کرسکتی ہے؟ زرداری جمہوری قوتوں کے اتحاد کے ساتھ عدلیہ میں جو اصلاحات کرنا چاہتے تھے اُس کا امکان تو سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں نئے ججز کی تعیناتی اور مستقل ہونے کے جاری اعلامیوں کے بعد بہت مشکل نظر آرہا ہے –
اس حلقے کی نواز شریف بارے تجزیہ نگاری کو اگر سچ مان لیا جائے تو عمران خان کی واپسی کے پروجیکٹ میں سب سے بڑے سہولت کار نواز شریف اور مریم نواز نظر آتے ہیں –
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ڈان میڈیا گروپ، جیو/جنگ میڈیا گروپ سمیت دیگر گروپوں میں مسلم لیگ نواز کی طرف جھکاؤ رکھنے والے نامور تجزیہ نگار جو عمران خان کو فاشسٹ کہتے نہیں تھکتے تھے وہ عمران خان کے بیانیہ کو مقبول بیانیہ اور شہباز شریف کو ناکام انتظامی سربراہ قرار دے رہے ہیں؟ وہ بلاول بھٹو کی سفارت کاری کو اسٹبلشمنٹ کے لاڈلہ بننے اور نئے وزیراعظم کی سیٹ پکی کرنے کی ناکام کوشش قرار دے رہے ہیں –
پاکستان پیپلزپارٹی کا جہاں تک تعلق ہے اُس کے سنٹرل پنجاب، جنوبی پنجاب اور کے پی کے تنظیمی عہدے دار اور اُس کا آفیشل شعبہ اطلاعات و نشریات و سوشل میڈیا اپنی پارٹی کے بیانیے کو عام آدمی خاص طور پر نوجوانوں میں مقبول بنانے میں بُری طرح سے ناکام نظر آرہا ہے-
وہ دو ضمنی انتخابات اور اب لانگ مارچ کے مرحلے میں ٹوئٹر پر اپنا کوئی ٹرینڈ پہلے پانچ مقبول ترین ٹرینڈز میں نہیں لاسکا –
پنجاب کی دو صوبائی تنظیمیں پنجاب میں تحریک انصاف کی اسٹریٹ پالیٹکس کے جواب میں عوام کے اندر کسی بڑی رابطہ مہم کو شروع نہیں کرسکیں –
سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب کا آفیشل سوشل میڈیا آصف زرداری کی کردار کُشی کی مہم سے پیدا تاثر کے نتیجے میں آصف علی زرداری کو “ڈیڈ برینڈ” سمجھ رہا ہے جبکہ 2013ء اور 2018ء میں پی پی پی پنجاب کے امیدوار آصف علی زرداری کی تصویر کو پینا پلیکس پر لگانے سے اس لیے گریزاں ریے کہ اس سے ووٹ نہیں ملیں گے تو کیا تصویر نہ لگاکر ووٹ لے لیے؟
پنجاب، کے پی کے، بلوچستان اور سندھ میں سوشل میڈیا پر پی پی پی کے اَن آفیشل رضاکارانہ. بنیادوں پر کام کرنے والوں نے آصف علی زرداری کا دفاع نہ کیا ہوتا تو سوشل میڈیا کو اینٹی پی پی پی پروپیگنڈا کھاگیا ہوتا –
پی پی پی کو اپنے آفیشل سوشل میڈیا اور شعبہ اطلاعات و نشریات میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ اُس کے فیصلوں اور پالیسیوں کے مطابق بیانیہ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا پر غالب نظر آئے اور معذرت خواہانہ بیانیہ پیچھے دھکیلا جاسکے –

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply